اقتباسات

28صفرالمظفّرشہادت فرزندرسول حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ سلام”

28صفرالمظفّرشہادت

فرزندرسول حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ سلام”

الحسن بن علي بن أبي طالب
سبط رسول الله وحفيده وريحانته،
سيد شباب أهل الجنة، أبو محمد

  • ولادت:
    15 رمضان 3ھجری
  • شہادت:
    28 صفر 50ھجری
  • جنت البقیع، مدینہ
  • نسب والد :
    علی بن ابی طالب
  • والدہ
    فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا
  • بھائی :
    حسین بن علی
    عباس بن علی
    عمر بن علی
    محسن بن علی
    محمد بن حنیفہ
    ابوبکر بن علی
  • بہنیں :
    زینب بنت علی
    ام کلثوم بنت علی

حضرت امام حسن مجتبی(علیہ سلام) 15 رمضان المبارک 3 ہجری کو بی بی زہرا( سلام اللہ علیہا ) کی پاک آغوش میں متولد ہوئے.
حضرت امام حسن مجتبی(علیہ سلام ) امیرالمؤمنین علی بن ابی طالبؑ اور سیدۃ النساء العالمین فاطمہ زھرا( سلام اللہ علیہا ) کے پہلے فرزند تھے ۔
اس لۓ آنحضرت کا تولدپیغمبر( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) انکے اھل بیت اور اس گھرانے کے تمام چاہنے والوں کی خوشیوں کا باعث بنا ۔
پیغمبر ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے مولود کے دائیں کان میں اذان اور بائيں کان میں قامت کہی اور مولود کا نام ”حسن” رکھا ۔
حضرت امام حسنؑ کی ولادت سے پہلے تاریخ بشری میں کسی کا نام بھی "حسن” نہیں تھا.

عربوں میں حسن بطور صفت استعمال ہوتا تھا لیکن صفت اور اسم میں فرق ہے. صفت وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے مثلا کوئی بندہ اگر جوانی میں خوبصورت ہو لیکن بڑھاپے میں خوبصورت نہ ہو تو اس کو جوانی میں حسن کہیں گے، بڑھاپے میں حسن نہیں کہیں گے لیکن حضرت امام حسنؑ وہ واحد ہستی ہیں جن کا نام سب سے پہلے "حسن” رکھا گیا یعنی اگر بچپن میں ہو تو حسن، جوانی اور بڑھاپے میں ہوں تب "حسن” اور حتی کہ دنیا سے چلے بھی جائیں تب بھی "حسن” (خوبصورت) ہیں
حضرت امام حسنؑ کی عظمت کو دیکھیں تو رسول اکرم بھی حسنین شریفین کو اپنے بیٹے کہتے ہیں.

  • جب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کا حکم ہوا تو حضرت امام حسنؑ اور امام حسین علیھم السلام کو اپنے بیٹوں کی جگہ لے گئے.”
    رسول پاک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
    کی اکثر ایسی احادیث جو امام حسینؑ کے بارے میں مشہور ہیں وہ حضرت امام حسنؑ کے بارے میں بھی نقل ہوئیں ہیں.
    جیسا کہ اپنے ان دو شہزادوں کے بارے میں فرمایا کہ
    “حسن و حسین(علیھم السلام) جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کا بابا(علیؑ) ان سے بھی افضل ہیں.”
  • اور ایک بزرگ نے بڑا اچھا نقطہ بیان کیا کہ اگر عام طور پر ایک گھر میں دو سردار ہو یا ایک یونین کونسل میں دو چیئرمین ہوں تو وہاں فساد ہوتا ہے اور ہر سردار اپنے مزاج کے مطابق حکمرانی چاہتا ہے لیکن حسنین شریفین ایک ہی جنت کے دو ایسے سردار ہیں جن میں سرداری پر کوئی جھگڑا نہیں کیونکہ یہ دونوں ہستیاں مزاج کے تابع نہیں بلکہ مشیت خدا کے تابع ہیں.
    صورت کو دیکھا جائے تو امام حسن سر سے سینے تک اور امام حسین سینے سے پاوں تک نانا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہہ تھے. جب امام حسن بولتے تو یوں لگتا جیسے رسول اکرم بول رہے ہوں اور جب امام حسین چلتے تو یوں لگتا جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چل رہے ہوں۔
    سیرت و کردار کو دیکھا جائے تو عظیم سیرت کے حامل نظر آتے ہیں. جو ایسی ہستیوں کی گود میں پلا بڑھا ہو جن کی صداقت، طہارت اور اخلاق کی گواہی خود خدا دے، اس ہستی کی سیرت یقینا عظیم ہی ہوتی ہے.
    امام غلاموں کے ساتھ نہایت حسن سلوک سے پیش آتے. جنت کے سردار غلاموں کے ساتھ بیٹھ کے کھانا کھا لیتے تاکہ غلام احساس کمتری کا شکار نہ ہوں. اسی حسن سلوک کی وجہ سے لوگ حسرت کرتے تھے کہ کاش ہم بھی امام کے غلام ہوتے.
    اسی طرح عبادت، سخاوت و کرامت میں بھی امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اپنی مثال آپ ہیں. عبادت کا یہ عالم تھا کہ خشوع و خضوع سے خدا کی عبادت کرتے اور خدا کی بارگاہ میں جب جاتے تو ذات باری تعالی کی عظمت سے جسم کانپنے لگ جاتا-
    امامت و خلافت
    فرزند رسول امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد تقریباً چھ ماہ تک آپ مسلمانوں کے خلیفہ رہے اور امور مملکت کا نظم ونسق سنبھالے رہے-
    امام حسن علیہ السلام کی زندگی کا اہم اور غور طلب پہلو وقت کے حاکم کے ساتھ صلح کا ہے-
    لوگ بعض اوقات متذبذب ہوتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے صلح کی اور امام حسین علیہ السلام نے جنگ کی تو کیا دونوں کی امامت میں فرق تھا ؟
    نعوذ باللہ امام حسن علیہ السلام "صلح جو” تھے- لیکن امام حسین علیہ السلام "جنگ جو” تھے-
    ایسا بالکل نہیں بلکہ در حقیقت زمینی حقائق کا فرق تھا-
    امام حسن علیہ السلام بہت باوقار اور نہایت ہی بردبار شخصیت کے مالک تھے۔
    جذباتیت وانانیت نام کی کوئی چیز امام حسن علیہ السلام کے پاس پھٹکی بھی نہ تھی-
    امام حسن علیہ السلام خلافت سے دستبردار ہوگئے۔
    امام حسن علیہ السلام نے فرمایا!
    مجھے مسلمانوں کا اتحاد، اور ان کی خوشحالی، اور ان کی جان واموال، اور ان کی آپس میں صلح پسندی بہت محبوب ہے
    ہزاروں مسلمانوں کی قیمتی جانیں بچالیں، اور اپنے نانا جان (رسول اللہ ﷺ) کے فرمانِ عالیشان کے مصداق ہوئے۔
    نبی آخر زمان رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
    "یہ میرا فرزند "سید” ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کےدو بڑے گروہوں کے مابین صلح کرادے گا”
    یہاں آپ نبی آخر زمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان پر پورے اترے-
    سبط پیغمبر( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )، دل بند علی( علیہ سلام )، جگر گوشہ بتول( سلام اللہ علیہا )
    حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت ۵۰ ھجری میں ماہ صفر کی 28 تاریخ کو مدینہ میں ہوئی۔ زہر آپ کی شہادت کا سبب بنا
    امام حسن علیہ السلام کی زوجہ جعدہ بنت اشعث کو لالچ دے کر امام حسن علیہ السلام کو زہر دینے پر آمادہ کیا.

عالمی روحانی تحریک
انجمن سرفروشان اسلام(رجسٹرڈ)پاکستان