اقتباسات

محبت کے قرینوں میں اولادِ مرشد کی فرمانبرداری

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
اولادِ مرشد کی فرمانبرداری اور ادب
سے آداب مرشد بجالانے میں ہی عافیت ہے
آدابِ مرشدِ کامل
ادب اور محبت دونوں باہم لازم و ملزوم ہیں جس قدر دل میں محبت پیدا ہوگی اُسی قدر ادب میں اضافہ ہوگا، اور جس قدر ادب کو اختیار کیا جائے گا محبت ترقی کرے گی،
محبت ایک جزبہ ہے ، جس کا نتیجہ ادب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، محبت میں اضافے کے کچھ ذرائع ہوتے ہیں جن کو اختیار کرنے سے محبت میں شدت پیدا ہوتی ہے، جس میں سب سے مؤثر ذریعہ ذکرِ الہی اور تصورِ شیخ ہے،
جس قدر ذکرِ الہی میں شدت پیدا ہوتی جائے گی محبت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، اور ذکرِ الہی سے تصورِ شیخ میں خود بخود پختگی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے،
جب ایک سالک پر کیفیات کا نزول ہوتا ہے تو ان لمحات میں وہ خود کو دریائے محبت میں غوطہ زن پاتا ہے اور اس کا محور ذاتِ مرشد کو دیکھتا ہے، لیکن جیسے ہی وہ ان کیفیات سے باہر آتا ہے، دنیاوی معاملات اسے گھیرے میں لے لیتے ہیں ، اور اس کی توجہ کم ہونے لگتی ہے۔
کیفیات کا ہر وقت قائم رہنا ممکن نہیں ہوتا، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ سالک کو چاہئے کہ راہِ طریقت میں کسب کو بھی اختیار کرے۔
آدابِ مرشدِ کامل کسی کتاب میں درج الفاظ پر مبنی شرائط پر عمل پیرا ہونے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ تو وہ کیفیاتِ باطنی ہیں جو اس راہ پر چلنے والے پر گاہے بہ گاہے طاری ہوتی رہتی ہیں اور ان لمحات میں جو آداب کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں انہی کو حالتِ ہوش میں اپنے کسب سے جاری رکھنے کا نام ادب ہے۔
البتہ صوفیائے کرام نے سالکین کی رہنمائی کے لئے آداب کے سلسلے میں بہت کچھ تحریر فرمایا ہے، مرشدِ کامل مظہرِ خداوندی ہوتا ہے، تو چاہئے کہ ادب بھی ویسا ہی کیا جائے۔
اصل ادب تو یہ ہےکہ طالب اپنے مرشد کی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل کرے اپنے ظاہر و باطن کو اپنے مرشد کے سراپا میں ڈھالے ، ان کی پسندیدہ چیزوں کو اپنی پسند بنائے اور جن چیزوں کو وہ ناپسند فرماتے ہیں ان کو ترک کردے، گناہوں کر ترک کردے اوراعمالِ صالح اختیار کرے۔
جب اپنے مرشد کے حضور حاضری کا ارادہ ہو تو خوب صاف ستھرا لباس زیبِ تن کرے ، سر ڈھکا ہوا ہو اور نہایت ادب سے چلتا ہوا بارگاہِ مرشدی میں حاضر ہو، دروازے پر نہایت آہستگی سے دستک دے اورمودب کھڑا رہے، انتظار کرے تاآنکہ گھرسے کسی کا جواب موصول ہو، اس بات کا بھی خیال رکھے کہ مرشد سے ملنے کا وقت ایسا مقرر کرے جس میں اُن کی مصروفیات میں کوئی خلل واقع نہ ہو، اور اگر ہو سکے تو اپنے شیخ کی خدمت میں کچھکھانے پینے کی اشیاء لے کر جائے۔
ادب سے دست بوسی کرے اور جب تک مرشد اپنی نشست پر بیٹھ نہ جائیں یہ ادب سے سر جھکا کر کھڑا رہے، پھر شیخ کے حضور دو زانو سر جھکا کر بیٹھے اور ان کے ارشادات کو کان لگا کر خوب شوق کے ساتھ سنے، اگر کوئی بات کرنا ہو تو نہایت دھیمے اور نرم لہجے میں کرے،
شیخ کی غیر موجودگی میں ان کی نشست پر نہ بیٹھے ، شیخ سے اونچی جگہ پر نہ بیٹھے، جب شیخ کے ساتھ چلنے کا ارادہ ہو تو ان کے سائے کا بھی احترام کرے، ان کے سائے پر بھی قدم رکھنے سے گریز کرے۔
اپنے مرشد کو کوئی کتاب پیش کرنا بے ادبی ہے، ہاں اگر وہ خود ارشاد فرمائیں کہ فلاں کتاب لے کر آنا تو یہ حکم کی تعمیل کہلائے گی۔
اپنے مرشد کی طرف کبھی پیٹھ نہ کرے، جب اجازت لے کر جانا چاہتا ہو تو اُلٹے قدموں واپس ہو۔
اگر مرشد کسی بات پر ناراضگی کا اظہار فرمائیں تو جن وجوہات کی بنا پر شیخ ناراض ہوئے ہیں ان کا فوری طور تدارک کرے، ان کی کسی بات پر اعتراض نہ کرے، اگر کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تو اسےاپنی کم عقلی جانے، اور جب شیخ کوئی نصیحت فرمائیں تو اس میں اپنی طرف سے تاویل نہ کرے
من وعن قبول کرلے، مرید کی لغت میں "کیوں، کب اور کیسے” کے الفاظ نہیں ہونے چاہئیں۔
جو لوگ شیخ کے مخالفین ہیں ان سے دوستی نہ رکھے، اور جن لوگوں کو شیخ پسند فرماتے ہیں ان کا بھی ادب کرے۔
شیخ کی اولاد کا بھی کمال ادب و احترام کرے، شیخ کے زیرِ استعمال اشیاء کا بھی ادب و احترام کرے۔
اپنی جان و مال کو اپنے مرشد کی مِلک جانے، اور ان کے حکم کی تعمیل کو اولین ترجیح دے۔
اگرچہ مرید نے اپنے مرشد کی سالہا سال خدمت کی ہو مگر کبھی دل میں یہ خیال نہ لائے کہ میں شیخ کی خدمت کا حق ادا کرچکا ہوں۔
شیخ کے حضور دنیاوی معاملات کو نہ پیش کرے ، اور روحانی معاملات کو بھی احسن طریقے سے بیان کرے۔
اپنے کسی پیر بھائی سے حسد نہ کرے اس کی روحانی ترقی سے خوشی کا اظہار کرے، اپنے پیر بھائیوں کا بھی اپنے مرشد جیسا ہی احترام کرے، خصوصاً خلفاء کا بہت زیادہ احترام کرے۔
اپنے مرشد سے صرف ان کی محبت کی خواہش رکھے ، مراتب کے حصول کی خواہش کو دل میں جگہ نہ دے، اور جب کبھی شیخ خوش ہو کر اپنی رضا و رغبت سے اجازت و خلافت عطا فرمائے تو اسے دل جان سے قبول کر لے، اوراجازت و خلافت کو خدمتِ خلق سمجھے اور ہمیشہ خادم بنکر رہے، کبھی کرامت کی طلب نہ کرے۔
محبتِ مرشد میں خود کو فنا کردے، اپنی صفات کو شیخ کی صفات سے بدل ڈالے، اپنی ہر رضاکو رضائے مرشد میں گم کردے ، ظاہری و باطنی طور پر اپنے مرشد کی مکمل صورت بن جائے اور اس شعر کا مصداق بن جائے ۔
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
اللہ کریم جل شانہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنے مرشدِ کامل کی مکمل اتباع اور ادب و احترام عطا فرمائے، آمین..