اقتباسات

حضرت امیر خسروؒ کی حضرت نظام الدین اولیاؒ سے بیعت کا واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے

حضرت امیر خسروؒ کی حضرت نظام الدین اولیاؒ سے بیعت کا واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے۔

ان کی عمر اس وقت آٹھ برس تھی جب ان کے والد انہیں اور ان کے بڑے بھائی کو لے کر حضرتؒ کی بارگاہ میں لے جانے لگے تو انہوں نے والد سے پوچھا کہ مرید ارادہ کرنے والے کو کہتے ہیں جب تک میرا خود ارادہ بیعت کا نہ ہو تو کیونکر مرید ہو سکتا ہوں۔ والد کمسن بیٹے کے اس جواب پر حیران ہوئے اور بڑے بھائی سے ارادہ پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے جو ارادہ کیا ہے وہ یقیناً میری بھلائی کے لئے کیا ہے لہٰذا میں اندر جا کر بیعت کروں گا، حضرت امیر خسروؒ نے والد سے باہر بیٹھے رہنے کی اجازت مانگی اور وہیںبیٹھ کر والد اور بڑے بھائی کا انتظار کرنے لگے۔ اسی دوران کمسن امیرخسروؒ نے ایک شعر اپنے ذہن میں موزوں کیا اور یہ خیال کہ اگر حضرت نظام الدین اولیاؒ ولی کامل ہیں تو میرے اس شعر کا جواب شعر میں دیں گے اور میں تب اندر جا کر ان کا مرید ہوں گا وگرنہ اپنے والد اور بھائی کے ساتھ گھر واپس لوٹ جائوں گا۔ جو شعر انہوں نے فارسی میں موزوں کیا اس کا ترجمہ درج ذیل ہے۔

’’تو ایسا بادشاہ ہے کہ اگر محل کے کنگورے پر کبوتر آن بیٹھے تو تیری برکت سے وہ کبوتر باز بن جائے پس ایک غریب اور حاجت مند تیرے دروازے پر آیا ہے وہ اندر آ جائے یا الٹا چلا جائے؟‘‘

کمسن امیر خسروؒ یہ شعر ذہن میں موزوں کرکے چپ چاپ بیٹھ گئے کہ اچانک حضرت کا خادم دروازے سے باہر آیا اور ان سے پوچھاکہ کیا وہ ترک زادے ہیں۔ کم سن امیر خسرو نے جواب دیا ہاں، میرے والد اور بھائی اندر گئے ہیں یہ سن کر وہ خادم بولا مجھے حضرت نے حکم دیا ہے کہ دروازے کے باہر ایک ترک زادہ بیٹھا ہے اس کے سامنے یہ شعر پڑھ کر واپس آ جائو۔ خادم نے جو شعر پڑھا اس کا ترجمہ سنیئے:۔

(اندر چلا آئے حقیقت کے میدان کا مرد تاکہ ہمارے ساتھ کچھ دیر ہمرازبن جائے اور اگر وہ آنے والا ناسمجھ اور نادان ہے تو جس راستے سے یہاں آیا اسی راستے سے واپس چلا جائے)

شعر سنتے ہی کم سن امیر خسروؒ دیوانہ وار اندر دوڑے اس وقت ان کے والد اور بھائی کے علاوہ حضرت سیدمحمدکرمانیؒ بھی وہاں موجود تھے، دونوں نے ایک دوسرے کو غور سے مسکرا کر دیکھا اور پھر حضرت امیر خسروؒ نے حضرت نظام الدین اولیاؒ کے قدموں میں سر رکھا دیا۔ حضرت نے بے ساختہ فرمایا کہ آ جا آ جا اے مرد حقیقت اور ایک دم کے لئے ہمارا ہمراز بن جا جسکے بعد حضرت نے انہیں بیعت سے سرفراز فرمایا۔ اس موقع پر امیر خسروؒ نے یہ شعر کہا۔ ترجمہ:۔ حضرت کی غلامی پر مجھے فخر ہے میرے خواجہ نظامؒ ہیں اور میں نظامی ہوں) یہ شعر سن کر حضرت کے دیگر مریدوں میں بھی خود کو نظامی کہلانے کا جذبہ اور شوق پیدا ہو، تو امیر خسرو بچپن میں ہی حضرت کے یوں ہمراز بنے کہ پھر ان کے سوا کوئی بھی حضرت کا ہمراز نہ تھا اور نہ ہی ان سے زیادہ حضرت نے کسی سے محبت فرمائی اور موت بھی اس ہمراز کو مرنے کے بعد اپنے محبی سے جدا نہ کر سکی۔

حضرت محبوب الہیؒ کو بھی حضرت امیر خسروؒ سے اس قدر محبت تھی کہ وصیت فرمائی تھی کہ خسروؒ میرے مزار کے قریب نہ آنے پائیں وگرنہ میرا جسم بے تاب ہو کر باہر آ جائے گا چنانچہ حضرت امیر خسروؒ حضرت محبوب الہیؒ کے وصال کے بعد مزار کو دور ہی بیٹھ کر حسرت بھری اور پرنم آنکھوں سے دیکھا کرتے۔

حضرت محبوب الہیؒ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر شریعت میں اجازت ہوتی تو یہ وصیت کرتا کہ امیر خسروؒ کو بھی میری قبر میں دفن کیا جائے۔

ایک مرتبہ حضرت نے ارشاد فرمایا… میں سب سے تنگ آ جاتا ہوں مگر اے ترک تجھ سے کبھی تنگ نہیں ہوتا، دوسری بار فرمایا کہ میں سب سے تنگ ہو جاتا ہوں، یہاں تک کہ اپنے آپ سے بھی مگر سوائے تیرے اے ترک۔

ایک مرتبہ تخلیہ میں ارشاد فرمایا کہ میری سلامتی کی دعا مانگا کر تیری سلامتی میری سلامتی پر منحصر ہے کیونکہ تو میرے بعد جلدی دنیا سے رخصت ہو جائے گا اور یہ بھی دعا کر کہ لوگ تجھ کو میرے قریب دفن کریں اور انشااللہ ایسا ہو گا۔

حضرت محبوب الٰہی فرمایا کرتے تھے کہ روز حشر جب یہ سوال ہو گا کہ نظام الدین دنیا سے کیا لایا تو میں بارگاہ ایزدی میں عرض کروں گا کہ خسرو کو لایا ہوں۔

لوگ اگر میری پیشانی پر آرا بھی رکھ دیا جائے اور یہ کہا جائے کہ اپنے ترک کو چھوڑ دے تو میں اپنی پیشانی کو چھوڑ دوں گا لیکن اپنے ترک (خسرو) کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا

حضرت امیر خسرو کا بیشتر کلام اپنے مرشد کی شان میں ہے انکی مشہور زمانہ منقبت چھاپ تلک سب چھین لی موسے نیناں ملائے کے۔

(تیری اک نظر میں کیا تاثیر اور جادو تھا جس نے میری پیشانی سے بت پرستی کی تمام نشانیاں مٹا ڈالی ہیں)۔

اپنے محبوب مرشد کے وصال کے وقت آپ بنگال میں تھے، یکایک حضرت نظام الدین اولیاؒ کی یاد میں دل بے چین ہوا اور انہوں نے دہلی کی راہ لی جہاں ان کی آمد سے قبل ہی ان کی دنیا اجڑ چکی تھی اور کائنات کی سب سے قیمتی متاع منوں مٹی تلے دفن ہو چکی تھی،

حضرت محبوب الہیؒ کی وصال کی خبر سن کر سر ٹکرا کر چیخ ماری اور کہا کہ واہ! آفتاب زیر زمین ہے اور خسرو زندہ ہے اور بے ہوش ہو گئے، ہوش آتے ہی اپنی تمام املاک اور نقد سب کچھ محبوب الہی کی روح کے ایصال کے لئے فقیروں اور مساکین میں تقسیم کر دیا اور ماتمی لباس زیب تن کرکے درگاہ شریف پر بیٹھ گئے 18 شوال کو اپنے وصال سے چند روز قبل آپ نے اپنے مرشد کی یاد میں یہ شہرہ آفاق دوہا پڑھا تھا۔…؎

گوری سوے سیج پہ مکھ پر ڈارو کیس

چل خسرو گھر آپنے رات بھئی چوندیس

یرے پیر حضرت محبوب الہیؒ جو گیسو دراز تھے وہ اپنے رخ زیبا کو اپنے بالوں سے ڈھانپ کر محو خواب ہیں، اے خسرو تو بھی اب اپنے اصلی گھر چل کیونکہ شام کی تاریکی ہر طرف چھا گئی ہے۔
۔

حضرت محبوب الٰہی کا بلند مقام و مرتبہ جب حضرت امیر خسرو نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا تو بے ساختہ پکار اٹھے! …

خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسرو
محمدؐ شمع محفل بود شب جائیکہ من بودم