اقتباسات

امام بخاری کی مفصل سوانح حیات۔

یومِ ولادت 13 شوال المکرم

امامبخاریرحمةاللّهعليه آپ کا نام محمد اور کنیت ابو عبداللہ ہے آپ ستر ہزار(70,000)حدیثوں سے بھی زیادہ کے حافِظ ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمة الله عليه فرماتے ہیں:امام بُخاری رحمة الله عليه نے اِنتقال فرمایا(تو)نَوّے ہزار(90،000) شاگرد مُحَدِّث چھوڑے۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص۲۳۸

امام بخاری کی مفصل سوانح حیات
اسم گرامی : محمد بن اسماعیل
کنیت : ابو عبد اللہ
لقب : امیر المؤمنین فی الحدث
تاریخ پیدائش : 13 شوال 194ھ
تاریخ وفات : 1 شوال 256ھ
نسب نامہ : محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرہ بن بردِزبہ الجعفی البخاری ( بردِزبہ کا معنیٰ ہے زراعت پیشہ ، چونکہ امام بخاری کی نسل کھیتی باڑی کا کام کرتی تھی اس لۓ ان کا نا م بردِزبہ سے مشہور ہے ۔ امام بخاری کے جد اعلیٰ بردِزبہ مجوسی تھے ، ابراہیم کے والد مغیرہ ، یمان الجعفی کے ہاتھ پر مذہب اسلام قبول کۓ ۔ اس زمانہ میں دستور کے مطابق جو شخص کسی کے ہاتھ پر مسلمان ہوتا وہ اسی قبیلہ کی طرف منسوب ہوتا تھا ، اس لۓ امام بخاری کو بھی ان کے جد اعلی کی نسبتِ ولا سے جعفی کہا جاتا ہے ۔اور آپ بخاریٰ میں پیدا ہونے کی وجہ سے بخاری کہلاتے ہیں ۔)

ولادت اور موضع وِلادت : آپ 13 شوال 194ھ /21 جولائ 710م جمعہ کی نماز کے بعد شہر بخاریٰ میں پیدا ہوۓ۔بخاریٰ روس کےعلاقے ازبکستان میں ماوراء النہر کے بڑے شہروں میں سے ایک شہر ہے ۔

صغرِ سنی : امام بخاری رحمہ اللہ ابھی بچپنے کی حالات میں تھے کہ اس کے والدمحترم اسماعیل بن ابراہیم کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔ اس لیے آپ کی نشونما وتربیت کی پوری ذمداری آپ کی والدہ کو اٹھانی پڑی ۔ امام بخاری کی والدہ بہت صبر کیش ،حلیم الطبع ، عبادت گزار اورمستجاب الدعوات تھیں ۔امام بخاری بچپن میں کسی بیماری کی وجہ سے دونوں آنکھ کی بینائ سے محروم ہو گۓ اس سے ان کی والدہ کو بہت صدمہ ہوا اور اللہ کی بارگاہ میں رو رو کر دعائیں کرتی رہیں کہ لخت جگر کی آنکھ درست ہوجاۓ ۔ بالآخر اللہ تعالی نے شب خیزی کی دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازا ، اورآنکھوں کی بینائ واپس آئ۔

تعلیم : امام بخاری رحمہ اللہ ابتدائ تعلیم مکتب سے حاصل کی ۔ اس دوران ابتدائ کتابیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ دس/10 برس کی عمر میں قراآن مجید حفظ کر لی ۔ احادیث حفظ کرنے کا شوق پیدا ہوا ۔چنانچہ آپ مختلف اساتذہ کے پاس آنے جانے لگے۔ گیارہویں سال کی بات ہے کہ ایک دن امام الداخلی کے پاس حاضر ہوا ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے امام الداخلی کو ” سفیان عن ابی الزبیر عن ابراھیم”کہتے ہوۓ سنا ۔ یہ سننے کے بعد امام بخاری نے کہا کہ ابو الزبیر ، ابراھیم سے روایت نہیں کرتا۔اس پر امام داخلی نے اسے ڈانٹا ، تو امام بخاری نے عرض کیا اگر آپ کے پاس اصل نسخہ ہو تو ملاحظہ فرمالیں ۔ اصل نسخہ دیکھا تو ویسا ہی تھا جیسا امام بخاری فرما رہے ہیں ۔پھر امام داخلی نے اپنی کتاب میں غلطی کی اصلاح کرلی ۔ سولہ سال کی عمر میں آپ نے عبد اللہ ابن مبارک اور امام وکیع کی کتابیں یاد کر لیں اور اہل الراۓ کے کلام کو خوب سمجھنا شروع کردیا ۔

ذہانت امام بخاری :
اللہ تعالی نے امام بخاری کو بچپن ہی سے بے مثال قوت حافظہ اور ذہن رسا عطا فرمایا تھا۔ اس وجہ سے آپ نہایت ذہین ، فقیہ ، فطین ، تام الضبط اور مسرع استعداد و استحضار تھے ۔آپ کی ذہانت کو مختلف طریقوں سے پرکھا گیا جس سے امام بخاری کی قوت حافظہ کا سکہ تسلیم کر لینے پر کوئ بھی شخص مجبور ہو جاتا ہے ۔اس طور پر بھی کہ آپ کو بے شمار اسانید سمیت لاکھوں احادیث یاد تھیں ۔ آپ کا اپنا فرمان ہے مجھے ایک /1 لاکھ صحیح احادیث اور دو /2 لاکھ غیرصحیح احادیث یاد ہیں ۔ سند میں کوئ بھی تابعی ہو یا صحابی مَیں ان کی وِلادت ، جاۓ پیدائش اور سن وفات ، الغرض سب کچھ جانتا ہوں ۔

طلب حدیث کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کا سفر اور شیوخ :
رحلات امام البخاری ، طلب حدیث اور حصول علم کے لئے امام بخاری سفرامام بخاری رحمہ اللہ علیہ اپنی عمر کی سولھویں برس تک اپنے ہی ملک کے اساتذہ سے علم حاصل کرتے رہے ۔ اس کے بعد سب سے پہلے علاقہ حجاز کیطرف سفر کیا ۔ جو کہ علوم شرعیہ کا ماویٰ اور رسول کا مسکن اور مھبط وحی کا مقام تھا ۔
مکہ مکرمہ : چنانچہ آپ 210/دوسودس ھ میں اپنی والدہ کے ہمراہ مکہ مکرمہ کا قصد کیا ۔ اس سفر میں آپ کے بڑے بھائ احمد بھی ہمراہ تھے ۔ آپ کی والدہ اور آپ کے بھائ حج سے فراغت کے بعد واپس بخارا آ گئے لیکن امام بخاری رحمہ الللہ نے تحصیل علم کے لئے مکہ میں اقامت اختیار کر لی ۔ اور وہاں کے شیوخ کے دروس میں حجری دینا شروع کر دئے ۔ اس وقت مکہ مکرمہ میں جن شیوخ کی درس گاہیں ممتاز تھیں اور جو لوگ امام فن و مرجع خلائق تھے وہ یہ ہیں۔ ابو الولید احمد بن الارزقی ، عبد اللہ بن یزید ، اسماعیل بن سالم صائغ ، ابو بکر عبد اللہ بن زبیر ، علامہ حمیدی ۔
مدینہ منورہ : اسی طرح مدینہ میں جاکر ابراہیم بن منذر ،مطرف بن عبد اللہ ، ابراہیم بن حمزہ ، ابوثابت محمد بن عبدللہ ، عبدالعزیز بن عبد اللہ الاولیسی وغیرہ سے علم حدیث حاصل کی ۔
بصرہ : آپ طلب علم کے لئے بصرہ کا بھی رخ کیا، جو ان دنوں وسعت علم اور اشاعت حدیث کے اعتبار سے بہت ترقی پر تھا بصرہ کے جن شیوخ سے آپ مستفید ہوئے ان میں سر فہرست یہ ہیں – امام ابو عاصم النبیل ، صفوان بن عیسیٰ ،بدل بن محبر ، حرمی بن عمارہ ، عفان بن مسلم ، محمد بن عر عرہ ، سلیمان بن حرب ، ابو الولید الطیالیسی ، محمد بن سنان ۔
بغداد : امام بخاری علم حدیث کے لئے کوفہ اور بغداد کا سفر کیا اور وہاں کے شیوخ سے آپ علم حدیث حاصل کیا ۔ بغداد کے شیوخ یہ ہیں – امام اح،مد بن حمبل، محمد بن عیسیٰ الصباغ ، محمد بن سائق اور سریض بن نعمان ۔
شام : امام بخاری شام کا بھی سفر کیا وہاں کےمشائخ سے علم حاصل کیا ۔ انکے نام یہ ہیں -امام یوسف فریابی ، ابو نصر اسحاق بن ابراہیم ، آدم بن ابی ایاس ، ابو الیمان الحکم بن نافع اور حیوہ بن شریح ۔
مصر : امام بخاری رحمہ اللہ حصول علم کے لئے مصر بھی گئے اور وہاں عثمان بن صائغ ، سعید بن ابی مریم ، عبد اللہ بن صالح ، احمد بن صالح ، احمد بن شعیب ، اصبغ بن خرج ، سعید بن ابی عیسیٰ ، سعید بن کثیر ، یحییٰ بن عبد اللہ ۔
مرو : امام بخاری نے مرو میں محمد بن مقاتل ، علی نن حسن ، عبدان ،
بلخ : میں یحییٰ بن موسی ، یحییٰ بن بشیر ، محمد بن ابان ، حسن بن شجاع ، مکی بن ابراھیم ، امام قتیبہ ،
رئ : میں ابراھیم بن موسی ، واسط بن حسان بن حسان ، سعید بن عبد اللہ ، حسان بن عبد اللہ ،
نیشاپور : میں اسحاق بن راہویہ ، محمد بن رافع ، بشر بن حکیم ، یحییٰ بن یحییٰ وغیرہ سے احادیث لیں ۔

امام بخاری کے شیوخ اور ان کے طبقات :
امام بخاری رحمہ اللہ طلب حدیث کے لئے مختلف شہروں ، علاقوں اور دیسوں کا گشت لگاتے رہے ۔جس سے آپ کے شیوخ کی تعداد ایک ہزار /1000 سے بھی زیادہ ہوگئی ، اس کے باوجود کہ آپ صرف اہل حدیث سے ہی تعلق رکھتے تھے ۔ آپ ؒ فرماتے ہیں ” کتبت عن الف و ثمانین نفسا لیس فیھم الا صاحب حدیث "۔اس طرح امام بخاری ؒ کے شیوخ کی تعداد بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے حافظ ابن حجر العسقلانی ؒنے آپ کے مشائخ کوپانچ طبقوں میں تقسیم کیا ہے
طبقہ اولیٰ : وہ شیوخ ہیں جنہوں نے امام بخاری کو تابعین کے واسطے سے احادیث روایت کئے ہیں ۔جیسے محمد بن عبد اللہ انصاری ، مکی بن ابراہیم ،ابو عاصم النبیل ، الفضل بن دکن ۔
طبقہ ثانیہ : اس طبقہ میں وہ شیوخ ہیں جو طبقہ اولٰ کے ہم عصر تو ہیں لیکن ثقات تابعین سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے ۔جیسے سعید بن ابی مریم ، ایوب بن سلیمان ، آدم بن ایاس ، ابو مسہر عبد الاعلیٰ بن مسہر وغیرہ ۔
طبقہ ثالثہ : اس طبقہ میں ان مشائخ کو شمار کیا گیا ہے جن کی کسی تابعین سے لقاء ثابت نہیں ہے ، بلکہ وہ کبار تبع تابعین سے اخذ کئے ہوں ۔ سلیمان بن حرب ، قتیبہ بن سعید ، نعیم بن حماد ، علی بن مدینی ، عبس بن معین ، اسحاق بن راھویہ ، امام احمد بن حنبل ، ابو بکر بن ابی شیبہ ، عثمان بن ابی شیبہ وغیرہ ۔
طبقہ رابعہ : اس طبقہ میں وہ شیوخ ہیں جو طلب حدیث میں امام بخاری کے ساتھی تھے ، یا ان سے تھوڑا وقت پہلے علم حدیث پڑھا ۔ جیسے محمد بن یحییٰ الذھلی ، ابو حاتم الرازی ، عبد بن حمید ، احمد بن نصر ، محمد بن عبد الرحیم وغیرہ ، ان اساتذہ سے امام بخاری ؒ وہ احادیث روایت کی ہیں جو آپ کو پہلے تین طبقہ سے نہ مل سکیں ۔
طبقہ خامسہ : وہ شیوخ جو عمر اور اسناد کے اعتبار سے امام بخاری ؒ کے شاگردوں میں سے ہیں ۔ جیسے عبد الہ بن حماد الاعلیٰ ، عبد اللہ بن ابی لاعاص ، حسین بن محمد قبانی وغیرہ ۔
٭ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے شائخ اور اساتذہ کے تعلق علماؤں نے کتابیں بھی تصنیف کئے ہیں۔جن میں سے چند یہ ہیں ۔
1) اسامی مشائخ الامام البخاری ، مصنف محمد بن اسحاق بن مندہ
2) اسامی من روی عنھم محمد بن اسماعیل البخاری من مشائخ الذی ذکرھم فی جامعہ الصحیح علی حروف المعجم ، مصنف ابو احمد عبداللہ بن عدی الجرجانی
3) اسمای شیوخ البخاری ، مصنف رضی الدین الحسن بن محمد الصغانی
4) التعریف بشیوخ حدث عنھم البخاری ، مصنف ابو علی الحسین بن محمد الغسانی
5) شیوخ البخاری و مسلم ، مصنف ابو الفضل محمد بن طاہر المقدسی
6) المعلم باسامی شیوخ البخاری ومسلم ، مصنف ابو بکر محمد بن اسماعیل بن محمد بن خلفون ۔

تلامذہ :
امام بخاری کے شاگرد اور آپ سے سماعت کرنے والے رواۃ اور محدثین ہزاروں کی تعداد میں ہیں ۔ امام بخاری کے شاگرد فربری فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے آپ سےصحیح بخاری کا سماع کیا ہے ،ان کی تعداد نوے/90 ہزار ہے۔ (مقدمہ فتح الباری ص686)
امام بخاری روایت کرے والے کو تین/3 طبقہ میں بانٹا گیا ہے۔
پہلا طبقہ : وہ مشائخ جن سے امام بخاری نے کسب فیض کیا ۔ مثلاً عبد اللہ بن محمد مسندی ، اسحاق بن احمد سر ماری ، محمد بن خلف بن قتیبہ ، عبد المنیر وغیرہ
دوسرا طبقہ : اس طبقہ میں آپ کے ہم عصر مشائخ ہیں جو آپ سے احادیث بیان کرتے ہیں ۔جیسے ابوزرعہی رازی ، ابو حاتم رازی ، ابراہیم حربی ، ابو بکر بن ابی عاصم ، موسیٰ بن ہارون ، محمد بن عبد اللہ بن حطین وغیرہ
تیسرا طبقہ : اس مین وہ تلامذہ ہیں جن کا شمار بڑے بڑے حفاظ میں ہوتا ہے ۔ مثلاً ابو الحسن مسلم بن الحجاج القشیری ، ابو عبد الرحمان احمد بن شعیب نسائ ، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورۃ الترمذی ، ابو بکر بن ابی الدنیا وغیرہ ۔

تصنیفات :
امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث ، فقہ ، تاریخ ، علم الرجال ، تفسیر عقیدہ وغیرہ میں متعدد کتابیں لکھیں جن میں مندرجہ ذیل چند مشہور یہ ہیں :
1) صحیح البخاری جس کا پورا نام – الجامع الصحیح المسند المختصر من امور رسول اللہﷺ و سننہ و ایامہ ۔
2) الاداب المفرد
3) جزء رفع الیدین
4) جزء القراءۃ
5) کتاب الضعفاء
6) خلق افعال العباد
7) بر الوالدین
8) التاریخ الکبیر
9) التاریخ الاوسط
10) التاریخ الصغیر

وفات :
امام بخاری رحمہ اللہ نے تیس/30 رمضان المبارک 256 ھ کو عید الفطر کی رات عشاء کی نماز کے وقت باسٹھ/62 کی عمر میں وفات پائ ۔ اور عید کے دن ظہر کی نماز کے بعد بستی خرتنگ ( جو سمر قند سے چھ میل کے فاصلے پر ہے ) میں دفن کیا گیا۔
عالمی روحانی تحریک
انجمن سرفروشان اسلام(رجسٹرڈ) پاکستان
شعبئہِ نشرواشاعت سندھ