اقتباسات

جمادی الثانی یومِ وصال خلیفہ اوّل حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ آپؓ کا نام عبداللّ

22 جمادی الثانی یومِ وصال
خلیفہ اوّل
حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ
آپؓ کا نام عبداللّہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرہ بن کعب ہے۔
مرہ بن کعب تک آپ کے سلسلہ نسب میں کل چھ واسطے ہیں۔ مرہ بن کعب پر جاکر آپ رضی اللہ عنہ کاسلسلہ نسب
حضور نبی اکرم صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب سے جاملتا ہے۔ آپ رضی اللّہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہے۔

(المعجم الکبير، نسبة ابی بکر الصديق واسمه، 1:1)

آپ رضی اللّہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہونے کی درج ذیل وجوہات بیان کی جاتی ہیں:

عربی زبان میں ’’البکر‘‘ جوان اونٹ کو کہتے ہیں۔ جس کے پاس اونٹوں کی کثرت ہوتی یا جو اونٹوں کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات میں بہت ماہر ہوتا عرب لوگ اسے ’’ابوبکر‘‘ کہتے تھے۔ آپ رضی اللّہ عنہ کا قبیلہ بھی بہت بڑا اور مالدار تھا نیز اونٹوں کے تمام معاملات میں بھی آپ مہارت رکھتے تھے اس لئے آپ بھی ’’ابوبکر‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔
عربی زبان میں ابو کا معنی ہے ’’والا‘‘ اور ’’بکر‘‘ کے معنی ’’اولیت‘‘ کے ہیں۔ پس ابوبکر کے معنی ’’اولیت والا‘‘ ہے۔ چونکہ آپ رضی اللّہ عنہ اسلام لانے، مال خرچ کرنے، جان لٹانے، الغرض امتِ محمدیہ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر معاملے میں اولیت رکھتے ہیں اس لئے آپ رضی اللّہ عنہ کو ابوبکر (یعنی اولیت والا) کہا گیا۔
(مراة المناجيح، مفتی احمد يار خان نعيمی، 8: 347)

سیرت حلبیہ میں ہے کہ کُنِيَ بِاَبِی بَکْرٍ لِاِبْتِکَارِهِ الْخِصَالِ الْحَمِيْدَةِ ’’آپ رضی اللّہ عنہ کی کنیت ابوبکر اس لئے ہے کہ آپ شروع ہی سے خصائل حمیدہ رکھتے تھے‘‘۔
آپ رضی اللّہ عنہ کے دو لقب زیادہ مشہور ہیں:

عتیق
صدیق
عتیق پہلا لقب ہے، اسلام میں سب سے پہلے آپ کو اسی لقب سے ہی ملقب کیا گیا۔ حضرت سیدنا عبداللّہ بن زبیر رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کا نام ’’عبداللّہ‘‘ تھا، نبی کریم صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: اَنْتَ عَتِيْقٌ مِنَ النَّار ’’تم جہنم سے آزاد ہو‘‘۔ تب سے آپ رضی اللّہ عنہ کا نام عتیق ہوگیا۔
(صحيح ابن حبان، کتاب اخباره عن مناقب الصحابة، ج9، ص6)

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن اپنے گھر میں تھی، رسول اللہ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان صحن میں تشریف فرما تھے۔ اچانک میرے والد گرامی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ تشریف لے آئے تو حضور نبی کریم صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف دیکھ کر اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا:

مَنْ اَرَادَ اَنْ يَنْظُرَ الی عَتيقٍ مِنَ النَّارِ فَلْيَنْظُرْ اِلیٰ اَبی بَکْر.

’’جو دوزخ سے آزاد شخص کو دیکھنا چاہے، وہ ابوبکر کو دیکھ لے‘‘۔

(المعجم الاوسط، من اسمه الهيثم، الرقم: 9384)

آپ رضی اللّہ عنہ کے لقب ’’صدیق‘‘ کے حوالے سے حضرت سیدہ حبشیہ رضی اللّہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللّہ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
يَا اَبَابَکْرٍ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ سَمَّاکَ الصِّدِّيْق

’’اے ابوبکر! بے شک اللّہ ربّ العزت نے تمہارا نام ’’صدیق‘‘ رکھا‘‘۔

(الاصابة فی تمييز الصحابة، حرف النون، 8: 332)

ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کرائی گئی تو آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری صبح لوگوں کے سامنے اس مکمل واقعہ کو بیان فرمایا، مشرکین دوڑتے ہوئے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے:

هَلْ لَکَ اِلٰی صَاحِبِکَ يَزْعُمُ اَسْرٰی بِهِ اللَّيْلَةَ اِلَی بَيْتِ الْمَقْدَس؟

’’کیا آپ اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں جو آپ کے دوست نے کہی ہے کہ انہوں نے راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کی؟‘‘

آپ رضی اللّہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے واقعی یہ بیان فرمایا ہے؟

انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ رضی اللّہ عنہ نے فرمایا:

لَئِنْ کَانَ قَالَ ذٰلِکَ لَقَدْ صَدَق.

’’اگر آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے تو یقینا سچ فرمایا ہے اور میں ان کی اس بات کی بلا جھجک تصدیق کرتا ہوں‘‘۔

انہوں نے کہا: ’’کیا آپ اس حیران کن بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ آج رات بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آگئے؟‘‘

آپ رضی اللّہ عنہ نے فرمایا:

نَعَمْ! اِنِّیْ لَاُصَدِّقُهُ فِيْمَا هُوَ اَبْعَدُ مِنْ ذٰلِکَ اُصَدِّقُهُ بِخَبْرِ السَّمَاءِ فِیْ غَدْوَةٍ اَوْ رَوْحَة.

’’جی ہاں! میں تو آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی آسمانی خبروں کی بھی صبح و شام تصدیق کرتا ہوں اور یقینا وہ تو اس بات سے بھی زیادہ حیران کن اور تعجب والی بات ہے‘‘۔

(المستدرک علی الصحيحين، الرقم: 4515)

پس اس واقعہ کے بعد آپ رضی اللّہ عنہ صدیق مشہور ہوگئے۔

قبول اسلام
حضرت سیدنا ربیعہ بن کعب رضی اللّہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کا اسلام آسمانی وحی کی مانند تھا، وہ اس طرح کہ آپ ملک شام تجارت کے لئے گئے ہوئے تھے، وہاں آپ نے ایک خواب دیکھا، جو ’’بحیرا‘‘ نامی راہب کو سنایا۔ اس نے آپ سے پوچھا:

’’تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘ فرمایا: ’’مکہ سے‘‘۔ اس نے پھر پوچھا: ’’کون سے قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟‘‘ فرمایا: ’’قریش سے‘‘۔ پوچھا: ’’کیا کرتے ہو؟‘‘ فرمایا: تاجر ہوں۔ وہ راہب کہنے لگا: اگر اللّہ تعالیٰ نے تمہارے خواب کو سچافرمادیا تو وہ تمہاری قوم میں ہی ایک نبی مبعوث فرمائے گا، اس کی حیات میں تم اس کے وزیر ہوگے اور وصال کے بعد اس کے جانشین۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ نے اس واقعے کو پوشیدہ رکھا، کسی کو نہ بتایا اور جب سرکار صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی واقعہ بطور دلیل آپ رضی اللّہ عنہ کے سامنے پیش کیا۔ یہ سنتے ہی آپ رضی اللّہ عنہ نے حضور نبی اکرم صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کو گلے لگالیا اور پیشانی چومتے ہوئے کہا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللّہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللّہ کے سچے رسول ہیں‘‘۔

(الرياض النضرة، ابوجعفر طبری، 1: 83)

والدین کریمین
آپ رضی اللّہ عنہ کے والد محترم کا نام عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر قرشی تیمی ہے۔ کنیت ابوقحافہ ہے۔ آپ فتح مکہ کے روز اسلام لائے اور آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کی وفات کے بعد بھی زندہ رہے اور ان کے وارث ہوئے۔ آپ نے خلافت فاروقی میں وفات پائی۔
(تهذيب الاسماء واللغات، امام نووی، 1: 296)

آپ رضی اللّہ عنہ کی والدہ محترمہ کا نام سلمی بنت صخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ ہے۔ کنیت ’’ام الخیر‘‘ ہے۔ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کے والد کے چچا کی بیٹی ہیں۔ ابتدائے اسلام میں ہی آپ صلیٰ اللّہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرکے مشرف بہ اسلام ہوگئیں تھیں۔ مدینہ منورہ میں جمادی الثانی 13 ہجری میں وفات پائی۔
(الاصابة فی تمييز الصحابة، 8: 386)

ازواج اور اولاد
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کی ازواج (بیویوں) کی تعداد چار ہے۔ آپ نے دو نکاح مکہ مکرمہ میں کئے اور دو مدینہ منورہ میں۔ان ازواج سے آپ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کا پہلا نکاح قریش کے مشہور شخص عبدالعزی کی بیٹی ام قتیلہ سے ہوا۔ اس سے آپ رضی اللّہ عنہ کے ایک بڑے بیٹے حضرت سیدنا عبداللّہ رضی اللّہ عنہ اور ایک بیٹی حضرت سیدہ اسماء رضی اللّہ عنہ پیدا ہوئیں۔
آپ رضی اللّہ عنہ کا دوسرا نکاح ام رومان (زینب) بنت عامر بن عویمر سے ہوا۔ ان سے ایک بیٹے حضرت سیدنا عبدالرحمن رضی اللّہ عنہ اور ایک بیٹی ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہ پیدا ہوئیں۔
سیدنا صدیق اکبر رضی اللّہ عنہ نے تیسرا نکاح حبیبہ بنت خارجہ بن زید سے کیا۔ ان سے آپ رضی اللّہ عنہ کی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللّہ عنہ پیدا ہوئیں۔
آپ رضی اللّہ عنہ نے چوتھا نکاح سیدہ اسماء بنت عمیس سے کیا۔ یہ حضرت سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللّہ عنہ کی زوجہ تھیں، جنگ موتہ کے دوران شام میں حضرت سیدنا جعفر رضی اللّہ عنہ کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ نے ان سے نکاح کرلیا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ان سے آپ رضی اللّہ عنہ کے بیٹے محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے۔ جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ نے دنیا سے پردہ فرمایا تو حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّہ عنہ نے آپ سے نکاح کرلیا۔ اس طرح آپ کے بیٹے محمد بن ابی بکر کی پرورش حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّہ عنہ نے فرمائی۔
(الرياض النضرة، امام ابو جعفر طبری، 1: 266)

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کے گھرانے کو ایک ایسا شرف حاصل ہے جو اس گھرانے کے علاوہ کسی اور مسلمان گھرانے کو حاصل نہیں ہوا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّہ عنہ خود بھی صحابی، ان کے والد حضرت ابو قحافہ رضی اللّہ عنہ بھی صحابی، آپ کے تینوں بیٹے (حضرت عبداللّہ رضی اللّہ عنہ، حضرت عبدالرحمن رضی اللّہ عنہ اور حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللّہ عنہ) بھی صحابی، آپ رضی اللّہ عنہ کے پوتے بھی صحابی، آپکی بیٹیاں (حضرت سیدہ عائشہ رضی اللّہ عنہ، حضرت سیدہ اسماء رضی اللّہ عنہ اور حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللّہ عنہ بنت ابی بکر) بھی صحابیات اور آپ کے نواسے بھی صحابی ہوئے۔

حضرت سیدنا موسیٰ بن عقبہ رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم صرف چار ایسے افراد کو جانتے ہیں جو خود بھی مشرف بہ اسلام ہوئے اور شرف صحابیت پایا اور ان کے بیٹوں نے بھی اسلام قبول کرکے شرف صحابیت حاصل کیا۔ ان چاروں کے نام یہ ہیں:

ابوقحافہ عثمان بن عمر رضی اللّہ عنہ
ابوبکر عبداللّہ بن عثمان رضی اللّہ عنہ
عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللّہ عنہ
محمد بن عبدالرحمن رضی اللّہ عنہ
(المعجم الکبير، نسبة ابی بکر الصديق واسمه، الرقم: 11)

اہل بیت سے رشتہ داری
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ نے آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ سے لے کر اپنی وفات تک کبھی بھی اہل بیت کی خدمت میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ آپ رضی اللّہ عنہ کی اہل بیت سے یہ خصوصی محبت آپ رضی اللّہ عنہ کی اولاد میں بھی منتقل ہوتی رہی اور آپ رضی اللّہ عنہ نے اہل بیت سے ایک مضبوط رشتہ داری قائم فرمائی۔جس کی تفصیل یہ ہے:*

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ نے اپنی لاڈلی شہزادی حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہ کا نکاح 8 بعثت نبوی، شوال المکرم میں اپنے محبوب آقا صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا۔
آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللّہ عنہ اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللّہ عنہ یہ دونوں والدہ کی طرف سے بہنیں تھیں۔ ان کی والدہ محترمہ کا نام ’’ہند بنت عوف‘‘ ہے اور انہیں ’’خولہ بنت عوف‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یوں اس مبارک رشتے سے آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ ہم زلف ہوئے۔
(الطبقات الکبریٰ، ابن سعد، 8: 104)

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کے نواسے (یعنی حضرت اسماء بنت ابی بکر کے بیٹے) حضرت سیدنا عبداللّہ بن زبیر رضی اللّہ عنہ رسول اللّہ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کے بھتیجے بھی ہیں، کیونکہ آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی اور حضرت سیدنا عبداللّہ بن زبیر رضی اللّہ عنہ کی دادی (یعنی حضرت سیدنا زبیر بن عوام کی والدہ) حضرت سیدہ صفیہ رضی اللّہ عنہ ہیں۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کے نواسے حضرت سیدنا عبداللّہ بن زبیر، حضرت سیدنا امام حسن رضی اللّہ عنہ کے داماد بھی ہیں۔ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللّہ عنہ کی بیٹی حضرت سیدہ ام الحسن رضی اللّہ عنہ آپ رضی اللّہ عنہ کی زوجہ ہیں۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کے ایک بیٹے حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رضی اللّہ عنہ ہیں جن کی والدہ حضرت سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللّہ عنہ ہیں۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کے وصال کے بعد ان سے امیرالمومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّہ عنہ نے نکاح فرمایا۔ چنانچہ اس لحاظ سے حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رضی اللّہ عنہ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّہ عنہ کے سوتیلے بیٹے ہوئے اور حضرت سیدنا امام حسن و حسین رضی اللّہ عنہ آپ کے علاتی بھائی (یعنی باپ شریک بھائی) ہوئے۔
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّہ عنہ کے صاحبزادے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللّہ عنہ کی زوجہ محترم حضرت سیدہ شہر بانو رضی اللّہ عنہ اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کے بیٹے حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رضی اللّہ عنہ کی زوجہ دونوں آپس میں سگی بہنیں تھیں۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّہ عنہ کے دور خلافت میں حضرت سیدنا حریث بن جابر جعفی رضی اللّہ عنہ نے شاہ ایران یزد جرد بن شہر یار کی دو بیٹیاں آپ رضی اللّہ عنہ کی خدمت میں بھیجیں تو آپ رضی اللّہ عنہ نے ان میں سے بڑی بیٹی حضرت سیدہ شہر بانو رضی اللّہ عنہ کانکاح اپنے بیٹے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللّہ عنہ سے فرمادیا اور چھوٹی بیٹی کانکاح حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رضی اللّہ عنہ سے فرمادیا۔
(لباب الانساب والالقاب والاعقاب، ظهيرالدين ابوالحسن علی بن زيدالبيهقی (565ه)، 1:22)

حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّہ عنہ کی والدہ محترمہ کا اسم گرامی حضرت سیدہ ام فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللّہ عنہ ہے۔ جبکہ آپ رضی اللّہ عنہ کے والد گرامی کا اسم مبارک حضرت سیدنا امام محمد باقر بن علی زین العابدین بن حسین بن علی المرتضیٰ رضی اللّہ عنہ ہے۔ یوں آپ رضی اللّہ عنہ والدہ کی طرف سے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ اور والد کی طرف سے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّہ عنہ سے جاملتے ہیں۔ (شرح العقائد:328)
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کی پوتی حضرت سیدہ حفصہ بنت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللّہ عنہ، حضرت سیدنا امام حسین رضی اللّہ عنہ کی زوجہ ہیں۔ یوں حضرت سیدنا امام حسین رضی اللّہ عنہ اس حوالے سے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کے داماد محترم ہوئے۔
(الطبقات الکبری لابن سعد، 8: 342)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کے اوصاف حمیدہ
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کو یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ اپنے گرد پھیلی ہوئی گمراہیوں، غلط رسوم و رواج، اخلاقی و معاشرتی برائیوں سے پاک صاف ہونے کے ساتھ ساتھ اوصاف حمیدہ سے بھی متصف تھے۔ آپ کے اعلیٰ محاسن و کمالات اور خوبیوں کی بنا پر مکہ مکرمہ اور اس کے قرب و جوار میں آپ رضی اللّہ عنہ کو محبت و عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔حضرت سیدنا سلیمان بن یسار رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:*

اچھی خصلتیں تین سوساٹھ ہیں اور اللّہ جب کسی سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی ذات میں ایک خصلت پیدا فرمادیتا ہے اور اسی کے سبب اسے جنت میں بھی داخل فرمادیتا ہے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللّہ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم! کیا میرے اندر بھی ان میں سے کوئی خصلت موجود ہے؟ ارشاد فرمایا: اے ابوبکر! تمہارے اندر تو یہ ساری خصلتیں موجود ہیں۔

عاجزی و انکساری
حضرت سیدہ انیسہ رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ خلیفہ بننے کے تین سال پہلے اور خلیفہ بننے کے ایک سال بعد بھی ہمارے پڑوس میں رہے۔ محلے کی بچیاں آپ رضی اللّہ عنہ کے پاس اپنی بکریاں لے کر آتیں، آپ ان کی دلجوئی کے لئے دودھ دوھ دیا کرتے تھے۔ جب آپ رضی اللّہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا تو محلے کی ایک بچی آپ رضی اللّہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی: اب تو آپ خلیفہ بن گئے ہیں، آپ ہمیں دودھ دوھ کر نہیں دیں گے۔ آپ رضی اللّہ عنہ نے ارشاد فرمایا: کیوں نہیں! اب بھی میں تمہیں دودھ دوھ کر دیا کروں گا اور مجھے اللّہ کے کرم سے یقین ہے کہ تمہارے ساتھ میرے رویے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ چنانچہ خلیفہ بننے کے بعد بھی آپ رضی اللّہ عنہ ان بچیوں کو دودھ دوھ کردیا کرتے تھے۔

(تهذيب الاسماء واللغات، امام نووی، 2: 480)

حضرت سیدنا یحییٰ بن سعید رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ نے ملک شام کی طرف چند لشکر بھیجے۔ ان میں حضرت سیدنا یزید بن ابوسفیان رضی اللّہ عنہ کا لشکر بھی تھا۔ انہیں ملک شام کے چوتھائی حصّے کا امیر مقرر کیا گیا تھا۔ ان کی روانگی کے وقت حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ انہیں چھوڑنے کے لئے ان کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے اور یہ گھوڑے پر سوار تھے۔ حضرت سیدنا یزید بن ابوسفیان رضی اللّہ عنہ نے عرض کیا:

’’اے رسول اللّہ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ! یا تو آپ رضی اللّہ عنہ سوار ہوجائیں یا میں اپنے گھوڑے سے اتر جاتا ہوں‘‘۔ آپ رضی اللّہ عنہ نے ارشاد فرمایا:

مَااَنْتَ بِنَازِلٍ وَلَا اَنَا بِرَاکِبٍ اِنِّی اَحْتَسِبُ خُطَيَ هَذِهِ فِی سَبِيلِ اللّٰهِ.

’’نہ تو تم اپنے گھوڑے سے اترو گے اور نہ ہی میں سوار ہوں گا بلکہ میں تو اپنے ان قدموں کو راہ خدا میں شمار کرتا ہوں۔‘

(موطا امام مالک، کتاب الجهاد، الرقم: 1004)

حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللّہ عنہ رات کے وقت مدینہ منورہ کے کسی محلے میں رہنے والی ایک نابینا بوڑھی عورت کے گھریلو کام کاج کردیا کرتے تھے۔ آپ رضی اللّہ عنہ اس کے لئے پانی بھر لاتے اور اس کے تمام کام سرانجام دیتے۔ حسب معمول ایک مرتبہ بڑھیا کے گھر آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سارے کام ان سے پہلے ہی کوئی کرگیا تھا۔ بہر حال دوسرے دن تھوڑا جلدی آئے تو بھی وہی صورت حال تھی کہ سب کام پہلے ہی ہوچکے تھے۔ جب دو تین دن ایسا ہوا تو آپ کو بہت تشویش ہوئی کہ ایسا کون ہے جو مجھ سے نیکیوں میں سبقت لے جاتا ہے؟ ایک روز آپ دن میں ہی آکر کہیں چھپ گئے،جب رات ہوئی تو دیکھا کہ خلیفہ وقت امیرالمومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ تشریف لائے اور اس نابینا بڑھیا کے سارے کام کردیئے۔ آپ رضی اللّہ عنہ بڑے حیران ہوئے کہ خلیفہ وقت ہونے کے باوجود آپ اس بوڑھی خاتون کے تمام امور خوش دلی سے انجام دے رہے ہیں۔ ارشاد فرمایا: حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ مجھ سے نیکیوں میں سبقت لے جاتے ہیں۔*

(کنزالعمال، کتاب الفضائل، الرقم: 35602)

اہل بیت پر شفقت
حضرت سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ نماز عصر پڑھ کر باہر نکلے اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ رضی اللّہ عنہ حضرت سیدنا حسن رضی اللّہ عنہ کے پاس سے گزرے جو اس وقت بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ آپ رضی اللّہ عنہ نے نہایت ہی شفقت سے انہیں اٹھاکر اپنی گردن پر بٹھالیا اور فرمایا: مجھے میرے والد کی قسم! تو میرے محبوب صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ ہے، اپنے والد حضرت علی المرتضیٰ رضی اللّہ عنہ سے مشابہ نہیں۔ یہ سن کر حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّہ عنہ مسکرانے لگ گئے۔

(صحيح البخاری، کتاب المناقب، الرقم: 3542)

حضرت سیدنا عبدالرحمن اصبہائی رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا حسن بن علی المرتضیٰ رضی اللّہ عنہ جب چھوٹے سے تھے تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کے پاس آئے، آپ اس وقت آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر پر رونق افروز تھے۔ حضرت سیدنا حسن رضی اللّہ عنہ نے چونکہ ہمیشہ منبر پر اپنے نانا جان صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو بیٹھے دیکھا تھا اس لئے ایک نئے شخص کو دیکھ کر اپنی ننھی سوچ کے مطابق کہنے لگے: آپ میرے بابا جان کی جگہ سے نیچے اترو۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ نے یہ گوارا نہ فرمایا کہ شہزادہ اہل بیت کی دل شکنی ہو، لہذا آپ رضی اللّہ عنہ فوراً نیچے تشریف لے آئے اور فرمایا: اے حسن رضی اللّہ عنہ! تو نے سچ کہا یہ تیرے بابا جان ہی کی جگہ ہے۔ پھر آپ رضی اللّہ عنہ نے حضرت سیدنا حسن رضی اللّہ عنہ کو فرط محبت سے اٹھاکر اپنی گود میں بٹھالیا۔ اس موقع پر انہیں آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیتے ہوئے وہ انمول ایام یاد آگئے، ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور آپ رضی اللّہ عنہ زاروقطار رو پڑے۔

(کنزالعمال، کتاب الخلافة مع الامارة، الرقم: 14081)

غیرتِ ایمانی
عام حالات میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ نہایت ہی نرم مزاج تھے ایسے معلوم ہوتا تھا کہ سختی، خفگی اور غصے سے تو آشنا ہی نہیں ہیں۔ دھیمے انداز میں آہستہ آہستہ بات کرتے مگر اسلام کے معاملے میں انتہائی غیرت مند اور بہت سخت تھے۔ مدینہ منورہ کے یہودیوں اور منافقوں کی طنزیہ باتوں پر تو آپ رضی اللّہ عنہ شدید غصے میں آتے ہی تھے مگر اگر کبھی اپنے قریبی رشتہ داروں کی طرف سے بھی انہیں آقا صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بے ادبی کا ہلکا سا بھی شائبہ ہوتا تو اس پر سخت ردعمل کا اظہار فرماتے۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کے والد ابوقحافہ نے (قبول اسلام سے پہلے) ایک بار آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات کہہ دیئے تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ نے انہیں اتنے زور سے دھکا دیا کہ وہ دور جاگرے۔ بعد میں آپ رضی اللّہ عنہ نے حضور نبی اکرم صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کو سارا ماجرا سنایا تو آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: اے ابوبکر! کیا واقعی تم نے ایسا کیا؟ عرض کیا: جی ہاں! فرمایا: آئندہ ایسا نہ کرنا۔ عرض کیا: یارسول اللّہ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم! اگر اس وقت میرے پاس تلوار ہوتی تو میں ان کا سرقلم کردیتا۔ اس وقت سورۃ المجادلہ کی آیت نمبر22 آپ کے حق میں نازل ہوئی:

لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّوْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ وَلَوْکَانُوْا اٰبَآءَ هُمْ اَوْ اَبْنآءَ هُمْ اَوْاِخْوانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ ط اُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ وَيَدَ هُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ ط وَيُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ط رَضِيَ اﷲُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ط اُولٰئِکَ حِزْبُ اﷲِط اَ لَآ اِنَّ حِزْبَ اﷲِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.

’’آپ اُن لوگوں کو جو اللّہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللّہ اور اُس کے رسول ( صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللّہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے، اور انہیں (ایسی) جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللّہ اُن سے راضی ہوگیا ہے اور وہ اللّہ سے راضی ہوگئے ہیں، یہیﷲ (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بے شک ﷲ (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے۔‘‘

(تفسير روح المعانی، تفسير سورة المجادله)

غزوہ بدر میں آپ رضی اللّہ عنہ کے بیٹے سیدنا عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللّہ عنہ اسلام قبول کرنے سے پہلے مشرکین کے ساتھ اسلام کے خلاف جنگیں لڑتے تھے۔ جب وہ اسلام لے آئے تو ایک روز حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللّہ عنہ سے کہنے لگے: ابا جان! میدان بدر میں ایک موقع پر آپ میری تلوار کی زد میں آئے لیکن میں نے آپ کو باپ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ یہ سن کر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ نے غیرت ایمانی سے بھرپور جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

لٰکِنَّکَ لَو اَهْدَفْتَ لِیْ لَمْ اَنْصَرِفْ عَنْکَ.

’’لیکن اگر تو میرا ہدف بنتا تو میں تجھ سے اعراض نہ کرتا‘‘۔

یعنی اے بیٹے! اس دن تم نے تو مجھے اس لئے چھوڑ دیا کہ میں تمہارا باپ ہوں لیکن اگر تم میری تلوار کی زد میں آجاتے تو میں کبھی نہ دیکھتا کہ تم میرے بیٹے ہو بلکہ اس وقت تمہیں دشمن رسولؐ سمجھ کر تمہاری گردن اڑادیتا۔

(نوادرالاصول، امام ترمذی، الرقم:710، 1:496)

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ کا ہر معاملہ آقا صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی خاطر ہوتا تھا اور آپ رضی اللّہ عنہ اس معاملے میں اپنے والدین اور اولاد وغیرہ کا بھی لحاظ نہ فرماتے تھے۔ ایک دفعہ آپ رضی اللّہ عنہ حضور نبی اکرم صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ رضی اللّہ عنہ کو اپنی بیٹی حضر ت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہ کی بلند آواز سنائی دی۔ آپ رضی اللّہ عنہ یہ کہتے ہوئے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہ کو تھپڑ مارنے کے لئے ہاتھ اٹھاکر آگے بڑھے:

اَلاَ اَرَاکِ تَرْفَعِيْنَ صَوْتَکِ عَلَی رَسُولِ اللّٰهِ صل اللّه عليه وآله وسلم.

’’یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ تم رسول اللّہ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اپنی آواز بلند کررہی ہو‘‘۔

یہ حالت دیکھ کر رسول اللّہ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللّہ عنہ کو تھپڑ مارنے سے روکا۔ آپ رضی اللّہ عنہ اسی طرح غصے کی حالت میں واپس تشریف لے گئے۔ آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہ سے فرمایا:

کَيْفَ رَاَيْتِنِی اَنْقَذْتُکِ مِنَ الرَّجُلِ.

’’دیکھا! میں نے تمہیں ان سے کس طرح بچایا‘‘۔

چند دنوں کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللّہ عنہ کاشانہ نبویؐ میں حاضر ہوئے تو حضور صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہ کو باہم راضی اور خوش دیکھا تو بارگاہ رسالتؐ میں یوں عرض گزار ہوئے:

اَدْخِلَانِی فِی سِلْمِکُمَا کَمَا اَدْخَلْتُمَانِی فِی حَرْبِکُمَا.

’’یارسول اللّہ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم! جس طرح آپ نے مجھے اپنی ناراضگی میں شریک کیا تھا، اسی طرح مجھے اپنی صلح (خوشی) میں بھی شریک فرمالیجئے۔‘‘

آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

قَدْ فَعَلْنَا قَدْ فَعَلْنَا

’’ہم نے آپ کو شریک کرلیا، شریک کرلیا‘‘

(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب ماجاء فی المزاح، الرقم: 4999)

بطورِ امیرالمومنین ذریعہ معاش
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ بیعت خلافت کے دوسرے روز کچھ چادریں لے کر بازار جارہے تھے، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللّہ عنہ نے دریافت کیا کہ آپ رضی اللّہ عنہ کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟ فرمایا: بغرض تجارت بازار جارہا ہوں۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللّہ عنہ نے عرض کیا: اب آپ رضی اللّہ عنہ یہ کام چھوڑ دیجئے، اب آپ لوگوں کے خلیفہ (امیر) ہوگئے ہیں۔ یہ سن کر آپ رضی اللّہ عنہ نے فرمایا: اگر میں یہ کام چھوڑ دوں تو پھر میرے اہل و عیال کہاں سے کھائیں گے؟ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللّہ عنہ نے عرض کیا: آپ رضی اللّہ عنہ واپس چلئے، اب آپ رضی اللّہ عنہ کے یہ اخراجات حضرت سیدنا ابوعبیدہ رضی اللّہ عنہ طے کریں گے۔ پھر یہ دونوں حضرات حضرت سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور ان سے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللّہ عنہ نے فرمایا: آپ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ اور ان کے اہل و عیال کے واسطے ایک اوسط درجے کے مہاجر کی خوراک کا اندازہ کرکے روزانہ کی خوراک اور موسم گرما و سرما کا لباس مقرر کیجئے لیکن اس طرح کہ جب پھٹ جائے تو واپس لے کر اس کے عوض نیا دے دیا جائے۔چنانچہ آپ رضی اللّہ عنہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللّہ عنہ کے لئے آدھی بکری کا گوشت، لباس اور روٹی مقرر کردی۔*

(تاريخ الخلفاء، امام سيوطی، ص59)

امام عالی مقام سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللّہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللّہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہ سے فرمایا: دیکھو! یہ اونٹنی جس کا ہم دودھ پیتے ہیں اور یہ بڑا پیالہ جس میں کھاتے پیتے ہیں اور یہ چادر جو میں اوڑھے ہوئے ہوں یہ سب بیت المال سے لیا گیا ہے۔ ہم ان سے اسی وقت تک نفع اٹھاسکتے ہیں جب تک میں مسلمانوں کے امور خلافت انجام دیتا رہوں گا۔ جس وقت میں وفات پاجائوں تو یہ تمام سامان حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللّہ عنہ کو دے دینا۔ چنانچہ جب آپ رضی اللّہ عنہ کا انتقال ہوگیا تو ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہ نے یہ تمام چیزیں حسب وصیت واپس کردیں۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللّہ عنہ نے چیزیں واپس پاکر فرمایا:

’’اے ابوبکر! اللّہ آپ پر رحم فرمائے کہ آپ نے تو اپنے بعد میں آنے والوں کو تھکادیا ہے‘‘۔

(تاريخ الخلفاء، امام سيوطی، ص60)

حضرت ابوبکرصدیق رضی اللّہ عنہ کو اللہ تعالیٰ اور بارگاہِ رسالت مآب صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم میں خصوصی اہمیت و فضیلت حاصل تھی۔ قرآن مجید کی تقریباً 32 آیات آپ کے متعلق ہیں جن سے آپ کی شان کا اظہار ہوتا ہے۔ آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللّہ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے مگر ابوبکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ اللّہ تعالیٰ روز قیامت انہیں عطا فرمائے گا۔

اللّہ تعالیٰ ہمیں سیرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللّہ عنہ سے اکتسابِ فیض کرتے ہوئے اپنے اقوال، اعمال اور احوال بدلنے کی توفیق عطا فرمائے اور محبتِ رسول صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی خیرات سے ہمارے قلوب و ارواح کو منور فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم۔

عالمی روحانی تحریک
انجمن سرفروشان اسلام(رجسٹرڈ)پاکستان