اقتباسات

صوفی بزرگ حضرت خواجہ حسن بصری،

صوفی بزرگ حضرت خواجہ حسن بصری
،پیدائش: 21ھ /642ءوفات: 110ھ / 728ء
ولادت
حضرت عمر فاروق رضی اللہ کے زمانۂ خلافت 21ھ میں پیدا ہوئے۔حضرت عمر رضی اللہ نے اپنے ہاتھ سے ان کے منہ میں لعاب ڈالا اور نام بھی انہوں نے رکھا۔جب آپ حضرت عمر فاروق کے حضور میں لائے گئے تو انہوں نے آپ کو نہایت خوبرو دیکھ کر فرمایا کہ یعنی یہ حسین ہے اس لیے اس کا نام حسن رکھو۔ فاروقِ اعظم نے آپ کے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس کو دین کے علم کا ماہر بنا اور لوگوں میں محبوب بنا جو بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوئی اور آپ کو علمِ دین اور فقر میں بلند مرتبہ عطا ہوا۔

نام مبارک

آپ کا نام مبارک حسن، کنیت ابو محمد، ابو سعید، ابو النصر اور ابو علی تھی۔ آپ کے والد موسی راعی زید بن ثابت انصاری کے آزاد کردہ غلام تھے۔ والدہ ماجدہ ام المؤمنین ام سلمہ کی لونڈی تھیں ان کی تربیت بھی ام المؤمنین نے ہی فرمائی ۔۔آپ کی والدہ کا نام خیرہ تھا

القابات

لقب خواجہ خواجگان ، امام الاولیاء ، امام المحدیثین ۔

ابتدائی حالات

ابتدا میں آپ جواہرات بیچا کرتے تھے۔ اس لیے حسن لولوئی کے نام سے مشہور تھے۔ اس پیشے سے آپ نے بہت روپیہ کمایا۔ لیکن جب عشق الہی کا غلبہ ہوا تو سارا روپیہ راہ خدا میں لٹا دیا اور گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر عبادت میں مشغول ہو گئے۔ خوف الہی سے ہر وقت روتے رہتے تھے۔ کثرت گریہ کے باعث آنکھوں میں گڑھے پڑ گئے تھے۔ مزاج میں انکسار بہت تھا۔ آپ کے نزدیک زہد کی بنیاد حزن و الم ہے۔تصوف میں خوف و الم کا مسلک آپ ہی سے منسوب ہے۔ تمام اکابر صوفیاءآپ کو شیخ الشیوخ مانتے ہیں۔ آخر عمر میں بصرہ میں سکونت اختیار کر لی ۔

خرقہ خلافت

آپ علی بن ابی طالب کی بیعت سے مشرف ہوئے اور ان سے خرقہ فقر پایا۔ شاہِ ولایت امیرالمومنین علی بن ابی طالب نے حسن بصری کو وہ خرقۂ خاص مع کلاہِ چہار ترکی عنایت فرمایا جو انہیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عطا ہوا تھا اور ساتھ ہی اپنی نگاہِ فقر سے ظاہری و باطنی علومِ اسرارِ الٰہیہ عطا کر کے خلافتِ کبریٰ سے نوازااور ذکرِ کلمہ طیبہ بطریق نفی اثبات جیسا کہ علی کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حاصل ہوا تھا، وہ آپ کو سکھایا اور آپ کے ذریعہ سے وہ طریقہ تمام دنیا میں رائج ہوا۔

امام مزی تہذیب الکمال میں لکھتے ہیں یونس بن عبید اللہ نے کہا کہ میں نے حسن بصری سے پوچھا ابو سعید آپ روایت بیان کرتے ہوئے یہ کیوں فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاحالانکہ یقیناً آپ نے ان کا عہد نہیں پایا تو انہوں نے جواب دیا اے بھتیجے تم نے مجھ سے وہ بات پوچھی ہے جو تم سے پہلے مجھ سے کسی اور نے نہیں پوچھی۔ اگر میرے نزدیک تمہاری خاص حیثیت نہ ہوتی تو میں تمہیں بیان نہ کرتا۔ میں جس زمانے میں ہوں وہ تمہارے سامنے ہے (وہحجاج بن یوسف کا دور تھا)۔ ہر وہ روایت جس میں تم نے مجھ سے سنا کہ میں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا وہ دراصل علی بن ابی طالب سے مروی ہے، مگر یہ کہ میں ایسے زمانے میں ہوں جس میں علی بن ابی طالب کا تذکرہ مجبوراً نہیں کر سکتا۔

تذکرۃ الاولیاء میں خواجہ شیخ فرید الدین عطارلکھتے ہیں کہ خواجہ حسن بصری نے ایک سو بیس صحابہ کرام کی زیارت کی جن میں سے ستر بدری صحابہ تھے۔

سلسلہ قادریہ اور سلسلہ چشتیہ آپ کے وسیلہ سے علی بن ابی طالب سے جاملتا ہے۔ تصوف میں آپ ایک خاص مقام حاصل ہے۔ سنت نبوی کے سخت پابند تھے۔

علمی مقام

امام حسن بصری تفسیر و حدیث میں امام تسلیم کیے جاتے ہیں۔ علمِ ظاہر و باطن کے علاوہ آپ زہد و ریاضت میں بھی کامل تھے۔ شب و روز یادِ الٰہی میں مصروف رہتے۔ منقول ہے کہ ستر برس تک سوائے عذرِ شرعی کے آپ کا وضو نہ ٹوٹا اور آپ کبھی بے وضو نہ رہے۔ یہاں تک کہ مرتبۂ کمال تک پہنچے۔ آپ خشیتِ الٰہی کے سبب اس قدر گریہ کرتے کہ آپ کی آنکھیں کبھی خشک نہ دیکھی گئیں، یہاں تک کہ روتے روتے آنکھوں میں گڑھے پڑ گئے۔ حضرت امام حسن بصری کا معمول تھا کہ ہفتہ میں ایک بار وعظ فرمانے کے علاوہ زیادہ وقت تنہائی اور گوشہ نشینی میں گزارتے۔ آپ کا وعظ اکثر دل کے خطروں اور اعمال کی خرابیوں اور نفس کے وسوسوں و خواہشات سے متعلق ہوا کرتا تھا۔ آپ کے وعظ میں لوگوں کی کثیر تعداد شریک ہوتی جن میں اپنے وقت کے تمام علما و اولیاء شامل ہوتے۔ رابعہ بصری بھی آپ کے مواعظ سے اکتسابِ فیض کرتیں۔ جب آپ کا ذکر محمد باقر کے سامنے ہوتا تو وہ فرماتے حسن کا کلام انبیا علیہم السلام کے کلام کے مشابہ ہے۔ بلال بن ابی بردہ فرمایا کرتے تھے میں نے حسن بصری سے زیادہ کسی کو صحابہ کرامؓ سے مشابہ نہیں پایا۔ ایک شخص نے کسی بزرگ سے سوال کیا کہ حسن بصری کو ہم لوگوں پر کس وجہ سے بزرگی اور سرداری ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ تمام مخلوق اس کے علم کی حاجت مند ہے اور اس کو سوائے خالق کے کسی کی حاجت نہیں۔ دین میں سب اس کے محتاج ہیں، اس سبب سے وہ سب کا سردار ہے۔

وصال

یکم رجب 110ھ نواسی89 سال کی عمر میں بصرہ میں انتقال کیا۔آپ کا وصال 4 محرم الحرام ( 8-اپریل 729ء) بروز جمعتہ المبارک کو111ھ ہوا۔ آپ کا مزار پُر انوار بصرہ (عراق) سے نو میل مغرب کی طرف مقام زبیر پر واقع ہے۔