اقتباسات

فرمان حضرت سیدناریاض احمدگوھرشاھی مدظلہ العالٰی (پنجاب میں داتاصاحب کاولیوں میں ایسامقام ہےجیسےآسمان پرسورج)

عرس حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ
فرمان حضرت سیدناریاض احمدگوھرشاھی مدظلہ العالٰی
(پنجاب میں داتاصاحب کاولیوں میں ایسامقام ہےجیسےآسمان پرسورج)

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللّٰہ تعالٰی عَلَیْہ سلسلہ جنیدیہ میں بیعت ہوئے. یہ وہی سلسلہ ہے جس میں حضورغوث الاعظم محی الدین سیّد عبدالقادرجیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی بیعت ہوئے تھے. حضرت داتاگنج بخش رَحْمَۃُاللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے مرشد گرامی حضرت سیدنا ابوالفضل محمد بن حسن خُتُلى عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی تھے جوحضرت شیخ ابو الحسن على حُصرى کے مرید وہ حضرت سیدنا شیخ ابوبکر شبلى کے وہ حضرت سیدنا جنید بغدادى کے وہ حضرت سیدنا سرى سقطى کے وہ حضرت سیدنا معروف کرخی کے وہ حضرت سیدنا داؤد طائی کے وہ حضرت سیدنا حبیب عجمى کے وہ حضرت سیدنا ابوسعیدحسن بصرى کےمریدتھےحضرت سیدنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی وہ جلیل القدرہستی ہیں جو براہِ راست امیرالمؤمنین حضرت سیدنا على المرتضی شیرخداکَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے شرف بیعت اورخلافت کی دولت سے مالامال تھے. حضرت داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو امام اعظم ابو حنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے محبت و عقیدت تھی ان کی محبت و عقیدت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں میں ایک روز سفر کرتا ہوا ملک شام میں مؤذن رسول حضرت سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے روضے پر حاضر ہوا وہاں میری آنکھ لگ گئی اور میں نے اپنےآپ کو مکہ معظمہ پایا. کیا دیکھتا ہوں کہ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم قبیلہ بنى شیبہ کے دروازے پر موجود ہیں اور ایک عمر رسیدہ شخص کو کسی چھوٹے بچے کی طرح اُٹھائے ہوئے ہیں میں فرطِ محبت سے بے قرار ہو کر آپ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کى طرف لپکا اور آپ کے مبارک قدموں کو بوسہ دیا دل ہی دل میں اس بات پر بڑا حیران بھی تھا کہ یہ ضعیف شخص کون ہے اتنے میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبوب دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم قوتِ باطنى اور علمِ غیب کے ذریعے میری حیرت و استعجاب کی کیفیت جان گئے اور مجھے مخاطب کرکے فرمایا یہ امام اعظم ابوحنیفہ ہیں اور تمہارے امام ہیں حضرت داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اپنا یہ خواب بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس سے مجھے معلوم ہوگیا کہ حضرت سیِّدُنا امام اعظم ابوحنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا شمار ان لوگوں میں سے ہے جن کے اوصاف شریعت کے قائم رہنے والے احکام کى طرح قائم و دائم ہیں یہى وجہ ہے کہ حُسنِ اَخلاق کے پیکر مَحبوبِ رَبِّ اَکبر صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان سے اس قدر محبت فرماتے ہیں اور آپ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جو ان سے محبت ہے اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ جس طرح آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے خطا ممکن نہیں اسى طرح حضرت سیِّدُنا امام اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے بھى خطا کا صدورنہیں ہوسکتا. حضرتِ داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے حصولِ معرفت کى خاطر بے حد ریاضت و عبادت کى حُصولِ علم کی خاطر سفر کی صعوبتیں برداشت کیں. رضائے الٰہى کے لئے اُونی لباس پہنا, محبتِ الٰہى میں فقرو فاقہ اختیار کیا اور عشقِ حقیقى میں ثابت قدمی کی خاطر مصائب و مشکلات میں صبروضبط سے کام لیا. آخرکار اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے فضل سے آپ کی معرفت کی تکمیل ہوئی جب آپ کے پیر و مرشد حضرت سیِّدُنا ابوالفضل محمدبن حسن خُتُلی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کی نظرِ ولایت نے دیکھا کہ میرے مریدِ خاص کے علمِ ظاہری و باطنی سے مخلوق خدا کے فائدہ اٹھانے اور ان کی صحبت سے فیض پانے کا وقت آگیا ہےتو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے حکم دیا کہ تم مرکز الاولیا لاہور روانہ ہوجاؤ اور وہاں جا کر رُشد و ہدایت کا فریضہ انجام دو. حضرت سیِّدُنا داتا على ہجویرى نے مرشد کاحکم سن کر عرض کی حضور وہاں تو پہلے ہی میرے پیر بھائی اور آپ کے مریدحضرت شاہ حسین زنجانى قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی موجود ہیں اور وہ تو قطب بھی ہیں تو پھر مجھے وہاں روانہ کرنے کی کیا حکمت….
پیر صاحب نے فرمایا تم اس بات کو رہنے دو اور فوراً مرکزالاولیا لاہور روانگی کی تیاری کرو. اس زمانہ میں غزنى سے لاہور تک کا راستہ کافى دشوار گزار تھا لہٰذا آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ مرشدِ کریم سے رخصت ہو کر پہلے اپنے وطن غزنى آئے اور وہاں سے حضرت احمد حمادی کرخی اور حضرت ابو سعید ہجویری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا کو ساتھ لے کر تین افراد کے قافلہ کى صورت میں مرکزالاولیا لاہور کى طرف چل دیئے اوربڑی مشقتوں سے پہاڑى راستے طے کرتے ہوئے پہلے پشاور اورپھر مرکزالاولیا لاہور میں آپ کی آمد ہوئی. جس دن آپ نے مرکز الاولیا لاہور شہر میں قدم رکھا اسی دن آپ نے ایک جنازہ دیکھا. لوگوں سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ جنازہ مرکز الاولیا لاہور کے قطب حضرت شاہ حسین زنجانى قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّبَانِی کا ہے. اس وقت آپ کو اپنے اس سوال کا جواب مل گیا جو آپ نے اپنے پیر و مرشد سے سوال کیا تھا کہ جب مرکز الاولیا لاہور میں پہلے ہی ایک قطب موجود ہیں تو میرے جانے کی کیا ضرورت اورمرشد کے حکم کی حکمت بھی معلوم ہوگئی.
اس واقعے سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ اگر مرشدِ کامل کسی بات کا حکم دیں اور ہمیں بظاہر اس کاکوئی فائدہ نظر نہ آئے یا حکمت معلوم نہ ہو تب بھی آنکھ بند کرکے اِس یقین کے ساتھ تعمیلِ حکم کرنا چاہئے کہ مرشد ِکامل نے حکم دیا ہے تو کوئی نہ کوئی حکمت و مصلحت ضرور ہوگی.
حضرت سَیّدُناداتا علی ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ نہ صرف علم و فضل کے اعلیٰ مرتبے پر فائز تھے بلکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے بہت مقرب ولی اور صاحبِ کثیرُالکرامات بھی تھے.
عالمی روحانی تحریک
انجمن سرفروشان اسلام(رجسٹرڈ)پاکستان