اقتباسات

20جمادی الثانی ظہورِپُرنورسلطان الفقراوّل خاتونِ جنت حضرت سیّدہ فاطمتہ الزہرہ سلام اللّہ علیھا

20جمادی الثانی ظہورِپُرنورسلطان الفقراوّل خاتونِ جنت حضرت سیّدہ فاطمتہ الزہرہ سلام اللّہ علیھا
شہزادیٔ عالم،دخترِ رسولِ مقبولؐ، ہمسرِعلیؓ ،مادرِحسنین کریمینؓ، خاتونِ محشر،خاتونِ جنت،سیّدۃالنساحضرت فاطمتہ الزہرہ سلام اللّہ علیھاکی ولادت بعثتِ نبوی صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تقریباـ پانچ سال قبل 20جمادی الثانی کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔اُس وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عمر مبارک 35سال تھی اور یہ وہ وقت تھا جب خانہ کعبہ کی تعمیر ِ نو ہو رہی تھی اور حجر ِاسود کا معاملہ پیش آگیا۔ نبی اکرم صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس معاملہ کو اپنی کمال ذہانت، بصیرت اور حکمتِ عملی سے اتنے احسن طریقے سے حل فرمایاکہ جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔
اس واقعہ سے حضرت فاطمتہ الزہراسلام اللّہ علیھا
کے مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ سلام اللّہ علیھا کی ذات کتنی بابرکت ہے کہ آپ سلام اللّہ علیھا
کی ولادت کے مبارک موقع پر قریش بہت بڑی لڑائی سے بچ گئے۔شہزادیٔ کونین حضرت فاطمہ زہراسلام اللّہ علیھا
کی آمد نے جہالت اور فرسودہ روایات کی تاریکی کو تنویر سے بدل دیا۔
آپ سلام اللّہ علیھا کا اسمِ گرامی ’فاطمہ‘ ہے۔ فاطمہ کا مطلب ہے نارِ جہنم سے بچانے والی ۔ سیّدہ حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا
کے بہت سے القابات ہیں۔ تمام القابات کسی نہ کسی واقعہ سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کا مطلب بھی بہت شاندار ہے۔آپ سلام اللّہ علیھا کے القابات میں سے سب سے زیادہ مشہور و معروف یہ ہیں:
۱۔ زہرا: کلی ۔جنت کی کلی ۔
۲۔ بتول : اللّہ کی سچی اور بے لوث بندی۔ اللّہ کی راہ میں دنیا سے قطع تعلق کر لینے والی
۳۔ سیّدۃ النساء العالمین: سارے جہانوں کی عورتوں کی سردار
۴۔ سیّدۃ النساء اہل الجنتہ: جنت کی عورتوں کی سردار
۵۔ بِضعۃ الرسول: جگر گوشہ ء رسولؐ
۶۔ البضعۃ النبویۃ: نبیؐ کی لخت ِ جگر
۷۔ راضیہ: اللّہ اور اس کے رسولؐ کی رضا پر راضی رہنے والی
۸۔ مرضیہ: اللّہ اور اس کے رسولؐ کی مرضی پر چلنے والی
۹۔ طاہرہ: پاک باز خاتون
۱۰۔ مطہرہ: پاک صاف خاتون
سیّدہ زہرہ طیبہ طاہرہ
جانِ احمدؐ کی راحت پہ لاکھوں سلام
جن کی طہارت وپاکیزگی کو اللّہ پاک نے بیان فرمایا ہے ان کی عظمت و رفعت و توصیف کو الفاظ کا جامہ پہنانا بہت مشکل ہے۔

شاعر(میر انیس) نے کیا خوب کہا ہے:
کاغذ پہ پہلے سورہ مریم ؑکا دم کروں
تب فاطمہؓ کی عصمت و عفت رقم کروں
حضرت فاطمہ رضی اللّہ عنہا سب سے چھوٹی صاحبزادی ہونے کے باعث بچپن ہی سے اپنے والد جنابِ رسول اللّہ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی لاڈلی تھیں۔ حضورنبی اکرم صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب اعلانِ نبوت فرمایا تو وہی قریش جو آپ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کو صادق و امین کے لقب سے جانتے تھے آپ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جان کے دشمن بن گئے اور آپ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہر ممکن ایذا رسانی سے حق گوئی سے روکنے کی کوشش کی۔اس وقت حضرت فاطمة الزہرا سلام اللّہ علیھا کی عمر تقریباً پانچ سال تھی۔ یعنی آپ سلام اللّہ علیھا نے جب سے ہوش سنبھالا تب ہی سے سخت ترین حالات کا سامنا کیا۔ آپ سلام اللّہ علیھا کا بچپن کھیل کود کی بجائے قریش ِ مکہ کی ستم ظریفیاں دیکھتے اور برداشت کرتے گزرا۔
امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اللّہ علیہ نے حضرت عبد اللّہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ سے روایت نقل کی ہے کہ بعثت کے ابتدائی زمانے میں ایک دن ابو جہل نے سیّدہ فاطمہ سلام اللّہ علیھا
کو کسی بات پر تھپڑ مار دیا۔ آپ سلام اللّہ علیھا روتی ہوئی اپنے والد محترم جناب رسول اللّہ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آئیں اور ابو جہل کی شکایت کی۔ آپ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’بیٹی جائو اور ابو سفیان کو ابو جہل کی اس حرکت سے آگاہ کرو۔‘‘ حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللّہ علیھا ابو سفیان کے پاس گئیں اور سارا واقعہ سنایا۔ ابو سفیان نے سیّدہ فاطمہ الزہرا سلام اللّہ علیھا
سے فرمایا کہ جس طرح اس نے تمہارے چہرے پر تھپڑ مارا تم بھی اس کے منہ پر تھپڑ مارو۔ چنانچہ سیّدہ فاطمہ سلام اللّہ علیھا نے ابو جہل کے منہ پر تھپڑ مارا اور پھر گھر جاکر یہ بات حضور نبی اکرم صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بتلائی۔ آپ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دعا فرمائی:
’’الٰہی ! ابو سفیان کے اس سلوک کو نہ بھولنا۔‘‘
علمائے کرام لکھتے ہیں کہ یہ حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللّہ علیھا کی نسبت سے کی گئی اس دعا کا ہی نتیجہ تھا کہ ابو سفیانؓ فتح مکہ کے موقع پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا کی کمسنی میں ایک مرتبہ نبی اکرم صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کعبہ معلّٰی کے قریب نماز ادا کر رہے تھے۔ ابوجہل کے کہنے پر عقبہ بن ابی معیط نے اونٹ کی اوجھ (اوجھڑی) لا کر آنحضرت صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کندھوں کے درمیان ڈال دی جبکہ آپ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم سجدے کی حالت میں تھے۔ ابو جہل اور اس کے ساتھی یہ منظر دیکھ کر ہنستے ہنستے ایک دوسرے پر گرتے تھے۔ جونہی یہ خبر حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا کو پتہ چلی تو آپ سلام اللّہ علیھا بے چینی کے عالم میں نبی پاک صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس پہنچیں اور غلاظت کو آپ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دور فرما دیا۔
جوں جوں رسول اللّہ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم اللّہ کی واحدانیت کا نعرہ بلند کرتے چلے گئے توں توں کفارِ مکہ کے روّیے سخت سے سخت تر اور مظالم روز بروز بڑھتے چلے گئے ۔ یہ فطری عمل ہے کہ بچے ایسے کشیدہ حالات کا گہرا اثر لیتے ہیں لیکن ان سب حالات کے باوجود سیّدہ فاطمہ سلام اللّہ علیھا نے ہمیشہ حضور نبی اکرم صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہمّت بندھائی۔ کبھی اپنے والد گرامی جنابِ رسول اللّہ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اس عظیم مشن سے ہٹنے کی ضد نہیں فرمائی۔
حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا بچپن سے ہی نہایت ذہین ، فطین اور تنہائی پسند طبیعت کی مالک تھیں۔ وقتاً فوقتاً نبی اکرم صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے ایسے سوالات پوچھتی تھیں جن سے آپ
سلام اللّہ علیھاکی ذہانت و فطانت اور اللّہ کی طرف رغبت کا اظہار ہوتا تھا۔ ایک روز سیّدہ فاطمہ الزہرہ سلام اللّہ علیھا نے بڑی معصومیت سے اپنی والدہ حضرت خدیجۃالکبریٰ رضی اللّہ عنہا سے سوال کیا کہ ہم جس خدا کی عبادت کرتے ہیں کیا اُسے دیکھ بھی سکتے ہیں؟ یعنی اپنے ربّ کی معرفت کی جستجو بچپن ہی سے آپ سلام اللّہ علیھاکے رگ و پے میں رچی بسی تھی۔
نبی کریم صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم وجہ تخلیق ِ کائنات اور اللّہ کی محبوب ترین ہستی ہیں جبکہ نبی پاک صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبوب ترین ہستی حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا ہیں۔ رسول اللّہ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی خوشنودی‘ رضا اور ناراضی کو اپنی پیاری بیٹی کی خوشنودی‘ رضا اور ناراضی سے مشروط کردیا اور فرمایا:
’’فاطمہؓ میرے جگرکا ٹکڑاہیں جس نے اس کو غضبناک کیا اس نے مجھ کو غضبناک کیا ۔‘‘(صحیح بخاری، متفق علیہ)
حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا کی عمر مبارک جب 15سال کی ہوئی تو آپ سلام اللّہ علیھا کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنی شہزادی کی تربیت خالص درویشا نہ اور فقیرانہ ماحول میں فرمائی۔یہی وجہ تھی کہ آپ فقر کی تمام منازل ابتدائی عمر میں ہی طے فرما چکی تھیں۔
نبی اکرم صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم جو بات ایک مرتبہ آپ سلام اللّہ علیھا کو سکھا تے تو اس کو یاد رکھتیں۔آپؑ نبی کریم ؐ کی ایک ایک عادت کو انتہائی غور سے دیکھتی تھیں اور اپنے آئینہ قلب پر منعکس کرتی چلی جاتی تھیں۔ آپ سلام اللّہ علیھاچال ڈھال میں بالکل رسول اللّہ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مشابہ تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں ’میں نے اُٹھنے بیٹھنے اور عبادات و اطوار میں حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا سے زیادہ کسی کو رسول اللّہ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مشابہ نہیں دیکھا۔‘‘ (ترمذی)

حضرت مسروق ؓ روایت کرتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓنے فرمایا: ’’ہم حضور اکرم صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ازواجِ مطہرات آپ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس جمع تھیں اور کوئی ایک بھی ہم میں سے غیر حاضر نہ تھی اتنے میں حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا وہاں تشریف لائیں تو اللّہ کی قسم! اس کا چلنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چلنے سے ذرّہ بھر مختلف نہ تھا۔‘‘ (متفق علیہ)
نبی اکرم صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے اور اہل ِ خانہ میں سے کوئی نہیں گیا پھر کچھ عرصے بعد اللّہ کے حکم سے اہل ِ خانہ کو بھی مدینہ منورہ بلوا لیا۔
2ہجری میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی پیاری اور لاڈلی صاحبزادی کا نکا ح اللّہ کے حکم سے حضرت مولاعلیؑ کرم اللّہ وجہہ سے فرمایا۔ حضرت عبداللّہ بن مسعود رضی اللّہ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اللّہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں فاطمہؑ کا نکاح علیؑ سے کروں۔ (طبرانی)
سیّدہ فاطمہ سلام اللّہ علیھا
صبر و رضا کا پیکر تھیں ۔ حضرت علیؑ مالی طور پر اتنے مستحکم نہ تھے مگرسرورِ کائناتؐ کی لختِ جگر ‘سیّدۃ النساء حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا نے کبھی شکوہ کا ایک حرف بھی اپنی زبان سے نہ نکالا۔گھر کے تمام کام کاج آپؑ خود اپنے دست ِ مبارک سے سر انجام دیتی تھیں اس کے باوجود کبھی بھی خدا کی ذات اور اسکے ذکر سے غافل نہیں ہوتی تھیں۔کام کاج کر کے آپؑ کے ہاتوں میں چھالے پڑ جاتے لیکن آپ سلام اللّہ علیھا اللّہ کی رضا پر راضی رہتی تھیں۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بیان ہے :
’’میں فاطمہ(سلام اللّہ علیھا) کو دیکھتا تھا کہ کھانا بھی پکا رہی ہیں اور خدا کا ذکر بھی ساتھ ساتھ کرتی جارہی ہیں۔ چکی بھی پیس رہی ہیں اور لبوں پرآیاتِ قرآنی کا ورد بھی جاری ہے۔‘‘
حضرت امام حسن علیہ السّلام سے روایت ہے ’’میں نے اپنی ماں کو شام سے صبح تک عبادت کرتے اور خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے دیکھا لیکن انہوں نے اپنی دعائوں میں اپنے لیے کبھی کوئی درخواست نہ کی۔
‘‘علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

آں ادب پروردئہ صبر رضا
آسیا گردان و لب قرآں سرا
مفہوم: انہوں نے صبر و رضا کی تربیت گاہ میں پرورش پائی جب وہ چکی چلا رہی ہوتیں تو ان کے لبوں پر قرآن کی تلاوت ہوتی۔
ابنِ عباس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روایت کرتے ہیں : چار خواتین اپنے زمانے کی دنیا کی سردار ہیں: مریم ؑبنت ِ عمران، آسیہؑ بنت ِ مزاحم زوجہ فرعون ، خدیجہؓ بنتِ خویلد، فاطمہ بنتِ محمدؐ اور ان کے درمیان سب سے زیادہ افضل حضرت فاطمہؓ ہیں۔(الدر المنثور از سیوطی)
اس بارے میں شاعر ِ مشرق علامہ اقبالؒ لکھتے ہیں :

مریمؑ از یک نسبت عیسیٰ ؑ عزیز
از سہ نسبت حضرت زہراؓ عزیز
ترجمہ : یعنی مریم ؑعیسیٰ ؑکے حوالے سے ایک ہی نسبت سے بزرگ و عزیز ہیں جبکہ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا تین نسبتوں سے بزرگ و عزیز ہیں۔
جب آیت ِ تطہیر(ترجمہ: اے اہلِ بیتؓ! اللّہ تعالیٰ ارادہ فرماتا ہے کہ تم سے ’’رجس‘‘ کو دور رکھے اور تمہیں پاک و طاہر کر دے) کا نزول ہوا توآپ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حیدرِ کرار رضی اللہ عنہٗ سیّدہ فاطمتہ الزہرؓا، حسنؓ اور حسینؓ کو بُلاکر اپنے دائیں بائیں اور آگے بٹھا کر اپنی مبارک کملی میں چھپا لیااور بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا ’’یااللّہ!یہ میرے اہل ِ بیتؓ ہیں تو اِن سے ہر آلودگی کو دور کردے اور انہیں خوب اچھی طرح پاکیزہ فرما دے۔‘‘
اُم المومنین حضرت سلمہ رضی اللّہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسولِ خدا صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم نے میرے گھر میں حضرت فاطمتہ الزہراسلام اللّہ علیھا ؛ حضرت حسنؑ و حسینؑ اور حضرت علیؑ کرم اللّہ وجہہ کو بلایا اور ان سب کو کملی میں لے کر خدا تعالیٰ کے حضور میں دعا فرمائی: ’’یا اللّہ ! یہ میرے اہل ِ بیتؓ ہیں تو ان سے ہر آلودگی کو دور کر کے خوب پاکیزہ فرما دے۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھاسے اس قدر پیار اور محبت تھا کہ جب آپ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم سفر پر تشریف لے جاتے سب سے آخر پر آ پؑ سے ملاقات فرماتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے توبھی سب سے پہلے آپؑ سے ملاقات فرماتے۔
مستدرک علی الصحیحین میں امام حاکم نیشا پوری نقل کرتے ہیں: رسول اللّہ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے مرضِ موت میں حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا سے فرمایا: بیٹی ! کیا تم خوش نہیں کہ تم اُمت ِاسلام اور تمام عالم کی عورتوں کی سردار ہو؟(یہ حدیث مسلم بخاری نے بھی نقل کی ہے)

فاطمہؓ بنت ِ محمد مصطفیؐ
فاطمہؓ روحِ رسولؐ دوسرا
فاطمہؓ شان رسولِؐ ہاشمی
فاطمہؓ جانِ رسولِؐ ہاشمی
ملکہ ٔ ملک سخاوت فاطمہؓ
منبعٔ نور و ہدایت فاطمہؓ
مطلع چرخ کرامت فاطمہؓ
مرجع انوار و رحمت فاطمہؓ
فاطمہؓ سر جلوۂ تقدیس است
رشک ِ مریم ؑ، غیر تِ بلقیس ؑ ہست
فاطمہؓ نورِ نگاہِ مصطفیؐ
خانہ اُو جلوہ گاہِ مصطفیؐ
(علامہ صائم چشتیؒ)

آپ سلام اللّہ علیھاکی حیاتِ طیبہ کاہر لمحہ اور آپؑ کی شخصیت کاہر پہلو گواہ ہے کہ آنحضرت صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد آپ سلام اللّہ علیھا پر فقرتمام ہوا اور جہاں فقر تمام ہو وہاں اللّہ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اسی لیے اقبالؒ نے فرمایا:

رشتہ آئینِحق زنجیر پاست
پاس فرمان جنابِ مصطفیؐ است
وگرنہ گرد تربتش گردیدے
سجدہ ہا بر خاک او پاشیدے
مفہوم:اللّہ کے قانون (شریعت) کی ڈوری ان (اقبالؒ)کے پیر کی زنجیر اور رسول اللّہ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فرمان کا پاس انہیں روک رہا ہے ورنہ حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا کا عظیم رتبہ اور ان سے والہانہ عقیدت کا جذبہ انہیں مجبور کر رہا ہے کہ وہ ان کے مزار ِ مقدس کا طواف کریں اور اس پر سجدہ نچھاور کریں۔
جس طرح سرکارِ دو عالم صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تما م عمر اپنی امّت کا غم ہی ستاتا رہا بالکل اسی طرح آپ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زیر سایہ تربیت پانے والی جگر گوشہ ء رسولؐ، طیبہ طاہرہ سیّدہ زہرہ حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا بھی اپنے والد محترم کی امّت کی غم خواری وہمدردی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی تھیں۔ باوجود یہ کہ آپ سلام اللّہ علیھا دنیاوی مال و دولت کو گھر میں نہ رکھتی تھیں اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بنو سلیم سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے ختم المرسلین حضرت محمد مصطفی صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوکر کلمہ شہادت پڑھا۔خدا کی وحدانیت اور محبوبِ خدا کی رسالتؐ پر مہر تصدیق ثبت کی اور دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔معلم کائناتؐ نے اس شخص کو دین ِ اسلام کی بنیادی باتیں سکھانے کے بعد پوچھا’’کیا تمہارے پاس کھانے پہننے کے لیے کچھ ہے یا نہیں؟‘‘اس نو مسلم نے عرض کی ’’یا رسو ل اللّہ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم! میرے پاس نہ کھانے کو کچھ ہے ‘نہ سواری کا کوئی بند وبست ہے اور نہ ہی میرے پاس پہننے کو لباس پورا ہے۔‘‘آنحضور صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:’’پھر تو تم مسکین ہوئے اور تمہاری مدد ضروری ہے۔‘‘ بعد ازاں آپ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دعوت دی کہ وہ اس کارِخیر میں حسب ِتوفیق حصّہ لیں اور خدا کے حضور اپنے درجات کی بلندی کا سامان کریں۔ سرورِ کائنات صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دعوتِ سخاوت و عنایت پر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللّہ عنہٗ نے اس مسکین شخص کو اپنی اونٹنی دے دی۔ حضرت علیؑ کرم اللّہ وجہہ نے اپنا عمامہ اتار کر اس کے سر پر رکھ دیاجبکہ حضرت سلمان فارسی رضی اللّہ عنہٗ اس شخص کو لے کر اس کی خوراک کا بندوبست کرنے کے لیے نکلے ،چند گھروں سے دریافت کیامگر وہاں سے کچھ نہ مل سکا۔ آخر حضرت سلمان فارسی رضی اللّہ عنہٗ نے حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا کے دروازے پر دستک دی۔ حضرت فاطمہ
سلام اللّہ علیھا نے جب سارا ماجرہ سنا توآپؑ اس مسکین شخص کے کھانے کے لیے بے چین بے قرار ہو گئیں ۔ سائل کو اپنے گھر سے حسب ِ معمول خالی نہیں جانے دینا چاہتی تھیں مگر اپنا یہ حال تھا کہ گھر میں سب کا تیسرا فاقہ تھا۔ بچے بھوکے سوئے ہوئے تھے اور خود آپؑ بھوک کی شدت سے کمزوری و نقاہت کی صبر آزما تصویر بنی ہوئی تھیں مگر آپ سلام اللّہ علیھا نے فرمایا: اے سلمان فارسیؓ! چاہے کچھ بھی ہو میں سائل کو خالی ہاتھ نہیں جانے دوں گی۔ میرے پا س ایک چادر ہے ۔ اسے شمعون یہودی کے پاس لے جائواور اس کو کہو کہ یہ چادر فاطمہ بنتِ محمدؐ نے بھیجی ہے اور وہ کہہ رہی ہیں کہ یہ چادر رکھ کر اس کے بدلے کچھ اجناس دے دو تاکہ یہ مسکین اپنا پیٹ بھر سکے۔‘‘ جب حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ حسب ِ ارشاد شمعون یہودی کے پاس چادر لے کر پہنچے تو وہ ماجرا سن کر حیرت زدہ رہ گیاکہ تمام گھر والے فاقہ سے ہیں مگر فاطمہ بنت ِ محمدؐ نے سائل کوخالی ہاتھ نہ لوٹایا۔ کہنے لگا ’’اے سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ! یقینا یہ وہی لوگ ہیں جن کی خبر توریت میں دی گئی ہے ۔ تم گواہ رہناکہ میں نے حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھاکے والد مکرم کی رسالت و نبوتؐ کا اقرار کیا اور ان پر ایمان لایا۔‘‘ اس کے بعد اس نے وہ چادر واپس کردی اور کچھ غلہ حضرت سلمان فارسی رضی اللّہ عنہٗ کو فی سبیل اللّہ دے دیاتاکہ وہ اس مسکین کی خوارک کا بندوبست کرسکیں ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللّہ عنہٗ وہ غلہ لے کر فوراً حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام واقعہ بیان کیا۔ حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا نے بغیر کسی توقف کے اس غلے کواپنے ہاتھ سے فاقے کی حالت میں چکی میں پیسا۔ آٹا گوندھا، روٹیاں پکائیں اور حضرت سلمان فارسی رضی اللّہ عنہٗ کو دیاتاکہ وہ مسکین کو کھلائیں ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللّہ عنہٗ نے حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا سے درخواست فرمائی کہ وہ اس میں سے چند روٹیاں اپنے بچوں کے لیے رکھ لیں مگر خاتونِ جنت حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ جو چیز میں فی سبیل اللّہ دے چکی ہوں اب اس میں سے کچھ لینا قطعاً جائز نہیں، چاہے میرے بچوں کو کچھ اور وقتوں کا فاقہ ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑے ۔حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا کی اس بے لوث سخاوت کے متعلق اقبال فرماتے ہیں:

بہر محتاجے دلش آں گونہ سوخت
با یہودے چادر خود را فروخت
ترجمہ: ایک محتاج کی محتاجی دور کرنے کی خاطر آپ رضی اللّہ عنہا کے دل میں اس قدر تڑپ اُٹھی کہ آپ نے اپنی چادر ایک یہودی کے پاس فروخت کر دی۔
آپ سلام اللّہ علیھاکی حیات ِ مبارکہ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جن سے ان کے عشقِ الٰہی ‘ خوف ِ خدا ‘ماسویٰ اللّہ سے بے رغبتی اور عشق و اطاعتِ رسول صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کا درس ملتا ہے،غرض یہ کہ سیّدہ فاطمہ سلام اللّہ علیھا نے اللّہ اور اُس کے رسول صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رضا کے حصول کے لیے دنیا کی ہر لذّت سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔
حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بے حد محبت فرماتی تھیں۔ آپؑ کو حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کی جدائی کا بہت صدمہ ہوا۔ تمام کتب ِ سیرت متفق ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد کسی نے سیّدہ فاطمہ سلام اللّہ علیھا کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحلت کے بعد آپؑ کو اتنا صدمہ ہوا کہ آپؑ بھی زیادہ عرصہ حیات نہ رہ سکیں اور3رمضان المبارک 11ہجری کو 29سال کی عمر میں ظاہری دنیا سے پردہ فرما گئیں۔ وفات سے پہلے حضرت اسماء بنت ِ عمیس ؓ کو بُلا کر فرمایا :میرا جنازہ لے جاتے وقت اور تدفین کے وقت پردے کاپورا لحاظ رکھنا اور سوائے اپنے اور میرے شوہر کے کسی اور سے میرے غسل میں مدد نہ لینا۔ تدفین کے وقت زیادہ ہجوم نہ ہونے دینا۔ جنازہ میں بہت کم لوگوں کو شرکت کا موقع ملا کیونکہ آپؑ کی وفات رات کے وقت ہوئی اور حضرت علیؑ کرم اللّہ وجہہ نے آپؑ کی وصیت کے مطابق رات کو ہی دفن کیا۔ نمازِ جنازہ حضرت عباسؓ نے پڑھائی اور آپ سلام اللّہ علیھا دارِ عقیل کے ایک گوشہ میں مدفن ہوئیں۔ آپ سلام اللّہ علیھا سے ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سلسلہ نسب چلا۔ حضرت جابر رضی اللّہ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ہر ماں کی اولاد کا عصبہ (باپ) ہوتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتی ہے‘سوائے فاطمہ کے بیٹوں کے ‘کہ میں ہی اُن کا ولی اور میں ہی اُن کا نسب ہوں۔‘‘(امام حاکم)
حضرت فاطمہ سلام اللّہ علیھا کی ظاہری زندگی بھی بے مثال تھی اور آپ سلام اللّہ علیھا کا باطنی مقام بھی بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔آپؑ ؓ کے اُس مقام سے کم ہی لوگ آگاہ ہیں ۔ آپؑ کا شمار اُن باعزت و باوقار ہستیوں میں ہوتا ہے جن کو ’’سلطان الفقر‘‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو تمام اولیا کرام میں سب سے ممتاز ہیں اور ان کا قدم تمام اولیا اللّہ، غوث و قطب کے سر پر ہے۔ ان ہستیوں کی تعداد سات ہے، جب تک یہ ہستیاں دنیا میں تشریف نہیں لائیں گی قیامت برپا نہیں ہو گی۔ ان ہستیوں کے رازسے سب سے پہلے حضرت سخی سلطان باھُو ؒنے پردہ اٹھایا۔ آپ ؒ اپنی مشہو رِ زمانہ تصنیف رسالہ روحی شریف میں ان ہستیوں کا ذکر فرماتے ہیں:
ترجمہ : جان لے کہ جب نورِ احدی صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وحدت کے گوشۂ ِ تنہائی سے نکل کر کائنات (کثرت) میں ظہور کا ارادہ فرمایا تو اپنے حسن کی تجلی کی گرم بازاری سے (تمام عالموں کو) رونق بخشی‘ اِس کے حسن ِ بے مثال اور شمعِٔ جمال پر دونوں جہان پروانہ وار جل اُٹھے اور میم احمدی(صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا نقاب اُوڑھ کر صورتِ احمدی اختیار کی ‘ پھر جذبات اور ارادات کی کثرت سے سات بار جنبش فرمائی جس سے سات ارواحِ فقرا باصفا فنا فی اللّہ ‘ بقا باللّہ تصورِ ذات میں محو‘ تمام مغزبے پوست حضرت آدم ؑ کی پیدائش سے ستر ہزار سال پہلے ‘ اللّہ تعالیٰ کے جمال کے سمند ر میں غرق آئینہ یقین کے شجررونما ہوئیں۔ انہوں نے ازل سے ابد تک ذاتِ حق کے سواکسی چیز کی طرف نہ دیکھااور نہ غیر حق کو کبھی سنا۔وہ حریم ِ کبریا میں ہمیشہ وصال کا ایسا سمندر بن کر رہیں جسے کوئی زوال نہیں۔ کبھی نوری جسم کے ساتھ تقدیس و تنزیہہ میں کوشاں رہیں اور کبھی قطرہ سمندر میں اور کبھی سمندر قطرہ میں ‘ اوراِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ کے فیض کی چادر ان پر ہے۔پس انہیں ابدی زندگی حاصل ہے اور وہ اَلفَقْرُ لَا یُحْتَاجُ اِلٰی رَبِّہٖ وَلَا اِلٰی غَیْرِہٖ غَیْرِہٖ کی جاودانی عزت کے تاج سے معزز و مکرم ہیں۔ انہیں حضرت آدمؑ کی پیدائش اور قیامِ قیامت کی کچھ خبر نہیں۔ ان کا قدم تمام اولیا اللّہ ‘ غوث و قطب کے سر پر ہے۔ اگر انہیں خدا کہا جائے تو بجا ہے اور اگر بندہ خدا سمجھا جائے تو بھی روا ہے۔ اس راز کو جس نے جانا اس نے پہچانا، اُن کا مقام حریم ِ ذاتِ کبریا ہے۔ انہوں نے اللّہ تعالیٰ سے سوائے اللّہ تعالیٰ کے کچھ نہ مانگا، حقیر دنیا اور آخرت کی نعمتوں ، حور و قصور اور بہشت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور جس ایک تجلی سے حضرت موسیٰ ؑ سراسیمہ ہو گئے اور کوہِ طور پھٹ گیا تھا‘ ہر لمحہ ‘ ہر پل جذبات انوار ِ ذات کی ویسی تجلیات ستر ہزار بار ان پر وارد ہوتی ہیں لیکن وہ دم مارتے ہیں اور نہ آہیں بھرتے ہیں بلکہ مزید تجلیات کا تقاضا کرتے رہتے ہیں۔وہ سلطان الفقر (فقر کے بادشاہ) اور دونوں جہانوں کے سردار ہیں ۔ ان میں ایک خاتونِ قیامت (فاطمتہ الزہرا رضی اللّہ عنہا)کی روح مبارک ہے۔ ایک حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللّہ عنہٗ کی روح مبارک ہے۔ ایک ہمارے شیخ، حقیقت ِ حق، نورِ مطلق‘ مشہور علی الحق حضرت سیّد محی الدین عبدالقادر جیلانی محبوبِ سبحانی قدس سرہُ العزیز کی روح مبارک ہے۔ اور ایک سلطانِ انوار سِرّالسرمد حضرت پیر عبدالرزاق فرزند حضرت پیر دستگیر (قدس سرہُ العزیز) کی روح مبارک ہے ‘ ایک ھاھویت کی آنکھوں کا چشمہ سِرّاسرارِ ذات ِ یاھُو فنا فی ھُو فقیر باھُو ؒ(قدس سرہُ العزیز) کی روح مبارک ہے۔ اور دو ارواح دیگر اولیا کی ہیں۔
پیرومرشدحضرت سیّدناریاض احمدگوھرشاھی مدظلہ العالٰی فرماتے ہیں ان میں سے ایک روح مبارک ساتویں سلطان الفقر حضرت امام مہدی علیہ السّلام کی ہے اور جب امام مہدی علیہ السّلام آئیں گے تو وہ چھٹے سلطان الفقر کا اعلان فرمائیں گے
اللّہ تعالیٰ نے جب انسان کی تخلیق فرما کر اسے اشرف المخلوقات کے مرتبہ پر فائز کیا تو اس شرف میں عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں کی۔ اللّہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنے نور سے نورِ محمدیؐ کو جدا کیا اور پھر اس نورسے تمام مخلوقات کی ارواح تخلیق فرمائیں یعنی تمام ارواح کی بنیاد نورِ محمدی صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی بنا اس نورِ محمدی صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جو سات اوّلین ارواح حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے ستر ہزار سال پہلے پیدا ہوئیں انہیں سلطان الفقر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان سات ارواح میں سے جو روح حالت ِ بشریت میں سب سے پہلے اس دنیا میں ظاہر ہوئی وہ خاتونِ جنت حضرت بی بی فاطمة الزہرہ سلام اللّہ علیہا کی روح مبارک ہے۔ امانت ِ الٰہیہ کی پہلی وارث کو حاصل یہ شرف تمام مومن خواتین کے سر پر تاج کی طرح ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نہ صرف حقیقی وارث ایک خاتون ہیں بلکہ ان کی پہلی محرم راز ‘ سچی عاشق اور ان پر ایمان لانے والی پہلی ہستی بھی ایک خاتون یعنی حضرت خدیجہ رضی اللّہ عنہا ہی ہیں۔
آپ صل اللّہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نعمت ِ فقر کی وجہ سے سیّدہ فاطمة الزہرہ سلام اللّہ علیھا کے متعلق فرمایا’’فاطمہؓ مجھ سے ہے ‘‘اور فرمایا :
فاطمہؑ میرے جسم کا ٹکڑا ہے پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ (متفق علیہ )
آپؑ بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔
آپؑ ایمان لانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔
بے شک تمہاری ناراضگی پر اللّہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اور تمہار ی رضا پر راضی ہوتا ہے۔(متفق علیہ)

جس نے آپ سلام اللّہ علیہا کو ایذا دی اس نے رسول اللّہؐ کو ایذا دی۔
فاطمہؑ دنیا کی بہترین عورت ہے۔
ان فاطمہ قد احصنت فرجھا فحر مھا اللہ وذریتھا علی النار
ترجمہ :بے شک فاطمہؓ پاک دامن ہے۔آپ کو اور آپ کی اولاد کو اللّہ تعالیٰ نے جہنم پر حرام فرمادیا ہے۔ (المستدرک حاکم صفحہ 523الامن والعی238‘ اشرف الموبد 44‘ مراۃ شرح مشکوٰۃ 4528)

عالمی روحانی تحریک
انجمن سرفروشان اسلام (رجسٹرڈ)پاکستان