اقتباسات

حضرت سید شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمتہ اللہ علیہ سندھی زبان میں مرثیہ امام حسین ع کے بانی

یومِ وصال 14 صفر
277واں عرس مبارک
حضرت سید شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمتہ اللہ علیہ
سندھی زبان میں مرثیہ امام حسین ع کے بانی

شاہ عبداللطیف بھٹائی رح کی ولادت 18 نومبر 1689ء بمطابق 6 صفر المظفر 1101ھ کو موجودہ ضلع مٹیاری کی تحصیل ہالا میں ہوئی۔ آپ کے والد محترم سید حبیب شاہ ہالا حویلی میں رہتے تھے۔ اور موصوف کا شمار اس علاقے کے برگزیدہ افراد میں ہوتا تھا۔

شاہ صاحب کی پیدائش کے متعلق مشہور ہے کہ سید حبیب شاہ نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں لیکن اولاد سے محروم رہے۔ آپ نے اپنی اس محرومی کا ذکر ایک درویش کامل سے کیا، جن کا اسم گرامی عبداللطیف بتایا جاتا ہے۔ موصوف نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ ان شاء اللہ آپ کی مراد بر آئے گی۔ میری خواہش ہے کہ آپ اپنے بیٹے کا نام میرے نام پر عبداللطیف رکھیں۔ خدا نے چاہا تو وہ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے یکتائے روزگار ہو گا۔ ( علاقہ پوٹھوہار کے کاظمی مشہدی سادات کی سینہ بہ سینہ آنی والی روایات کے مطابق یہ بزرگ شہنشاہ فقر حضرت سید شاہ عبداللطیف کاظمی المشہدی رح المعروف بری امام سرکار رح {1026 ھ / 1617 ع تا 1117 ھ / 1706ع } مزار نور پور شاہاں اسلام آباد تھے جن کے پاس سید حبیب شاہ دعا کی غرض سے آئے تھے اور بیٹے کی خوشخبری لے کر واپس گئے .راقم عرض پرداز ہے کہ یہ بات زمانے کے اعتبار سے بھی بالکل درست میچ کرتی ہے کیونکہ بھٹائی سرکار کی ولادت کے وقت بری امام 63 برس کے تھے )

سید حبیب شاہ کی پہلی بیوی سے ایک بچہ پیدا ہوا۔ درویش کی خواہش کے مطابق اس کا نام عبداللطیف رکھا گیا۔ لیکن وہ بچپن میں ہی فوت ہو گیا۔ پھر اسی بیوی سے جب دوسرا لڑکا پیدا ہوا تو اس کا نام پھر عبداللطیف رکھا گیا۔ یہی لڑکا آگے چل کر درویش کی پیشین گوئی کے مطابق واقِعی یگانہ روزگار ہوا۔

شاہ عبدالطیف بھٹائی کو "ست سورمیون کا شاعر” بھی کہا جاتا ہے۔

ابتدائی تعلیم

شاہ عبد اللطیف نے ابتدائی تعلیم نُورمحمد بھٹی سے حاصل کی جو بھٹ شاہ سے بارہ میل دور گاؤں وائی کے رہنے والے تھے ۔ اور مشہور مُدرس تھے۔ آپ نے اپنے والد شاہ حبیب سے دینی و روحانی تعلیم حاصل کی –

آباؤ اجداد ۔
آپ امام موسی کاظم ع کی اولاد میں سے تھے امام موسیٰ کاظم ع کے فرزند سید جعفر الخواری کی اولاد عہد عباسیہ میں آفغانستان کے شہر ہرات میں اباد ہوئی ۔ اور یہاں ایک طویل عرصہ گزارا ۔ انہیں سادات میں سید میر علی موسوی ہراتی تھے جو بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ اور آپ کا شمار اس علاقے کے معزز ترین افراد میں ہوتا تھا۔ 1398ء ، -801ھ میں جب امیر تیمور ہرات آیا، تو سید صاحب نے اس کی اور اس کے ساتھیوں کی بڑی خاطر و تواضع کی، ساتھ ہی بڑی رقم بطور نذرانہ پیش کی۔ تیمور اس حسن سلوک سے متاثر ہوا۔ سید صاحب اور ان کے بیٹوں کو اپنے ساتھ ہند لے آیا چار بیٹوں کو اجمیر ، ملتان ، بھکر اور سیہون کا حاکم مقرر کیا جبکہ میر علی اور حیدرشاہ کو مصاحبین خاص میں شامل کر کے اپنے ساتھ رکھا ۔ بعد ازاں سید حیدر شاہ بھی اپنے والد بزرگوار اور تیمور کی اجازت سے گھومتے پھرتے مستقل طور پر سندھ میں آ گئے اور ہالا کے علاقے میں شاہ محمد زمیندار کے مہمان ہوئے۔ شاہ محمد نے آپ کی کچھ اس طرح خدمت کی کہ وقتی راہ و رسم پر خلوص محبت میں بدل گئی۔ کچھ دنوں بعد اس نے اپنی لڑکی فاطمہ کی شادی آپ سے کردی۔ چونکہ آپ کی ماں کا نام بھی فاطمہ تھا ، اس لئے شادی کے بعد اس نام کو سلطانہ سے بدل دیا گیا۔سید حیدر شاہ قریب قریب تین سال تک ہالا میں رہے پھر اپنے والد کی وفات کی خبر سن کر ہرات گئے جہاں تین چار سال تک رہنے کے بعد وہیں وفات پا گئے۔ کہتے ہیں جب سید صاحب ہرات روانہ ہوئے تو آپ کی اہلیہ حاملہ تھیں انہوں نے چلتے وقت یہ وصیت کی تھی کہ اگر میری عدم موجودگی میں بچہ پیدا ہوا تو لڑکا ہونے کی صورت میں اس کا نام میر علی اور لڑکی ہو تو فاطمہ رکھا جائے۔ چنانچہ لڑکا پیدا ہوا اور وصیت کے مطابق اس کا نام میر علی رکھا گیا۔میر علی ثانی نے دو شادیاں کی ایک شادی ہالا خاندان میں کی جس کےبطن سے سید شرف الدین پیدا ہوئے جن کی اولاد شرف پوترا مشہور ہوئی ۔دوسری شادی ترک خاندان میں کی جس کے بطن سے سید احمد شاہ پیدا ہوئے ۔ جن کی اولاد میرن پوترا کہلاتی ہے ۔ سید شرف الدین کے فرزند سید عبدالمومن شاہ اور ان کے سید لعل محمد شاہ تھے سید لعل محمد شاہ کے گھر میں سندھی زبان کے مشہور شاعر اور عارف کامل سید شاہ عبدالکریم بلڑی پیدا ہوئے ۔سید شاہ عبدالکریم کے فرزند سید شاہ جمال اور ان کے سید عبدالقدوس شاہ تھے ۔ سید عبدالقدوس شاہ کے فرزند سید حبیب اللہ شاہ المعروف سید حبیب شاہ تھے جو شاہ عبداللطیف بھٹائی رح کے والد محترم تھے ۔

حالات زندگی
شاہ عبداللطیف بھٹائی کی ولادت کے کچھ دنوں بعد ان کے والد اپنے آبائی گاؤں چھوڑ کر کوٹری میں آکر رہنے لگے۔ پانج چھ سال کی عمر میں آخوند نور محمد کی مشہور درسگاہ میں تحصیل علم کے لئے بھیجے گئے۔عام روایت ہے کہ شاہ صاحب نے الف کی سوا کچھ اور پڑھنے سے صاف انکار کردیا۔

جن دنوں شاہ حبیب کوٹری میں آ کر آباد ہوئے ان دنوں کوٹری میں مرزا مغل بیگ ارغون کا ایک معزز خاندان سکونت پزیر تھا۔ شاہ حبیب کی پاکبازی اور بزرگی نے مغل بیگ کو بہت متاثر کیا۔ کچھ دنوں بعد وہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ مریدوں میں شامل ہو گئے۔ جب کبھی مرزا کے گھر میں کسی کو کوئی بیماری ہوتی شاہ حبیب کو دعائے صحت کے لئے بلایا جاتا۔ گو کہ مرزا کے گھر میں سخت قسم کا پردے کا رواج تھا لیکن شاہ حبیب کے لئے اس رسم کو بالکل ختم کردیا گیا۔ گھر کی مستورات بلا تکلف ان کے سامنے آجاتیں اور حسب ضرورت دعا تعویذ لے کر آنے والی بلاؤں کو ٹالتیں۔ آپ نے سندھی شاعری سے لوگوں کی اصلاح کی۔
کہا جاتا ہے کہ آپ نے ہمیشہ عشق رسول ص اور مودت اھلبیت ع کا درس دیا ۔ اپنے کلام میں جا بجا اپنے اجداد آئمہ طاہرین ع کی مدح سرائی کی ۔ آپ نے بھٹ شاہ ایک ٹیلے پر درخت کے نیچے بیٹھ کر لوگوں کو شہدائے کربلا کا زکر سنایا ۔ خود بھی گریہ و زاری کی اور لوگوں کو بھی رلایا ۔ آپ شہداء کربلا کی یاد میں تمام عمر سیاہ لباس میں ملبوس رہے ۔ شاہ جو رسالو آپ ہی کی ایک عظیم کوشش ہے۔

وفات

آپ 1752ءمیں 63 سال کی عمر میں بھٹ شاہ میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔آپ کا مزار پرانوار آپ کے عقیدتمند کلہوڑا خاندان سے غلام رسول جو سندھ کے حاکم نے تعمیر کروایا ۔ تعمیر نو ناصر خان ٹالپر نے اپنے عہد میں کی ۔اپ کی اپنی اولاد نہیں تھی ۔ لیکن خاندان کے دیگر اقربا کی اولادیں موجود ہیں ۔ آپ کے مزار کے سجادہ نشین سید وقار حسین لطیفی ہیں ۔

کلام

آپ کے کلام کو "شاہ جو رسالو” کا نام دیا گیا ۔

شاہ جو رسالو کی مختلف چیپٹر (جنہیں سُر کہا جاتا ہے) ہیں۔

سر کلیان، اس سر میں رب تعالی‘ کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے
سر یمن کلیان، اس سر میں رب تعالی‘ کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے
سر کھنبھاٹ، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصا بیان کیا گیا ہے
سر سریراگ، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصا بیان کیا گیا ہے
سر سامونڈی، اس سر میں ملاحوں کی ھمت حوصلا بیان کیا گیا ہے
سر سھنی ، اس سر میں سھنی میھار کا قصا بیان کیا گیا ہے
سر سسئی آبری، اس سر میں سسئی پُنھون کا قصا بیان کیا گیا ہے
سر معذوری، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصا بیان کیا گیا ہے
سر دیسی، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصا بیان کیا گیا ہے
سر کوهیاری ، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصا بیان کیا گیا ہے
سر حسینی، اس سر میں حضرت حسین کا قصا بیان کیا گیا ہے
سر لیلا چنیسر، اس سر میں لیلا چنیسر کا قصا بیان کیا گیا ہے
سر مومل رانو، اس سر میں مومل رانو کا قصا بیان کیا گیا ہے
سر مارئی، اس سر میں عمر مارئی (ماروی) کا قصا بیان کیا گیا ہے
سر کاموڈ، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصا بیان کیا گیا ہے
سر گھاتو، اس سر میں ملاحوں کی ھمت حوصلے کا قصا بیان کیا گیا ہے
سر سورٹھ، اس سر میں سورٹھ اور بادشاھ رائے ڈیاچ کا قصا بیان کیا گیا ہے
سر آسا، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصا بیان کیا گیا ہے
سر رپ، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصا بیان کیا گیا ہے
سر کھاھوڑی، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصا بیان کیا گیا ہے
سر بروو سندھی، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصا بیان کیا گیا ہے
سر رامکلی، اس سر میں جوگی فقراء کا قصا بیان کیا گیا ہے
سر کاپائتی، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصا بیان کیا گیا ہے
سر پورب، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصا بیان کیا گیا ہے
سر کارایل، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصا بیان کیا گیا ہے
سر پربھاتی، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصا بیان کیا گیا ہے
سر ڈهر، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصا بیان کیا گیا ہے
سر بلاول، اس سر میں ۔۔۔۔۔۔۔ قصا بیان کیا گیا ہے

آپ نے شہداء کربلا ع کی یاد میں مرثیہ کہا ۔ آپکو سندھی زبان میں مرثیہ کا بانی کہا گیا ہے
آپ کی ایک مشہور رباعی جو چہاردہ معصومین ع کے متعلق کہی آپ کے مزار پر کندہ ہے ۔
درج ذیل ہے ۔
گل محمد ؐ گل علی ؑ و گل فاطمہ خیرالنسا ؑ
گل حسن ؑ گل حسین ؑ و گل زین العبا ؑ
گل باقر ؑ گل جعفر ؑ گل موسی ؑ و رضا ؑ
گل تقی ؑ گل نقی ؑ گل عسکری ؑ و گل مہدی ء خدا

عالمی روحانی تحریک
انجمن سرفروشان اسلام پاکستان کراچی ڈویژن