اقتباسات

شہنشاہ کراچی حضرت سید عبداللہ شاہ غازی کا عرس مبارک

1293عرس_مبارک

#شہنشاہِ_کراچی

#نگہبانِ_کراچی#

حضرت_سیّدناعبداللّہ_شاہ_غازی#رحمت_اللّہ_علیہ#ذی_الحجّہ20_21_22حضرت عبد اللہ شاہ غازیؒ الاشتر کا مزار 1293 سال سے مرجع خلائق ہےکراچی کی پہچان کے لیے ویسے تو کئی ایسی تاریخی یادگاریں ہیں جنہیں اس شہر کا نشان قرار دیا جاسکتا ہے ، لیکن حضرت عبد اللہ شاہ غازی کا مزار بلاشبہ اس شہر کی قدیم ترین نشانی ہے جس پر اہلیان کراچی کو بالخصوص اور سند ھ کے شہریوں کو بالعموم فخر ہے، کہا جاتا ہے کہ گزشتہ 1300 سال سے کراچی کو کسی سمندری طوفان نے نقصان نہیں پہنچایا اور اس کا سبب حضرت کی ذاتِ مبارک ہے، سنہ98 ھ میں حضرت سیّد محمد نفس ذکیہ کے ہاں اسلام کے ایک درخشاں ستارے حضرت عبد اللّہ شاہ غازی رحمتہ اللّہ علیہ نے مدینہ منورہ میں آنکھ کھولی۔ آپ حسنی حسینی سیّد ہیں اور آپ کا شجرہ مبارک سیّد ابو محمد عبداللّہ الاشتر (عبداللّہ شاہ غازی رحمتہ اللّہ علیہ) بن سید محمد ذوالنفس الزکیہ بن سیّد عبداللّہ المحض بن سیّد حسن مثنیٰ بن سیّدنا حضرت سیّدنا امام حسن علیہ السّلام بن حضرت سیّدنا امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم تک جاتا ہے۔حضرت سیّدنا حسن مثنیٰ کی شادی حضرت سیّدہ فاطمہ صغریٰ بنت سیدنا حضرت امام حسینؑ سے ہوئی اسی وجہ سے آپ حسنی حسینی سیّد ہیں۔آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے والد صاحب کے زیر سایہ مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ علم حدیث پر عبور رکھتے تھے۔ اور کچھ مورخین نے آپ کو محدث بھی لکھا ہے۔اسلام کے پہلے مبلغ کی سندھ آمدبنو امیہ کی حکومت زوال پذیر ہوچکی تھی جب 138ھ میں عبداللّہ شاہ غازی رحمتہ اللّہ علیہ کے والد صاحب نے آپ کو اپنے بھائی حضرت ابراہیم کے پاس بصرہ بھیجا اور آپ وہاں سے ہوتے ہوئے سندھ کی جانب روانہ ہوئے۔ تاریخ الکامل’ جلد پنجم میں لکھا ہے کہ آپ خلیفہ منصور کے دور میں سندھ تشریف لائے۔ تحفتہ الکریم کے مصنف شیخ ابو تراب نے آپ کی سندھ میں موجودگی خلیفہ ہارون رشید کے دور سے منسوب کی ہے۔عبد اللّہ شاہ غازی کی تربتآپ کی سندھ آمد کے ضمن میں دو قسم کے بیان تاریخ سے ثابت ہیں۔ ایک یہ کہ آپ تبلیغ اسلام کیلئے تشریف لائے تھے اور دوسرے یہ کہ آپ علوم خلافت کے نقیب کی حیثیت سے (ملاحظہ ہو تاریخ الکامل لا بن الشت’ ابن خلدون’ طبری اور میاں شاہ مانا قادری کی تحریریں) تاجر کے روپ میں آئے تھے۔ تاجر اس لئے کہا گیا کہ آپ جب سندھ آئے تو اپنے ساتھ بہت سے گھوڑے بھی لائے تھے۔ آپ نے یہ گھوڑے اپنے کم و بیش بیس مریدوں کے ہمراہ کوفہ سے خریدے تھے۔ آپ کی آمد پر یہاں کے مقامی لوگوں نے آپ کو خوش آمدید کہا اور سادات کی ایک شخصیت کواپنے درمیان پاکر بہت عزت اور احترام کا اظہار کیا۔ آپ بارہ برس تک اسلام کی تبلیغ میں سرگرداں رہے اور مقامی آبادی کے سینکڑوں لوگوں کو مشرف با اسلام کیا۔والد کی شہادتحضرت عبداللّہ شاہ غازی رحمتہ اللّہ علیہ کے سندھ قیام کے دوران گورنر سندھ کو خبر آئی کہ آپ رحمتہ اللّہ علیہ کے والد صاحب نے مدینہ منورہ میں اور ان کے بھائی حضرت ابراہیم نے بصرہ میں عباسی خلافت کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ 145ھ میں یہ اطلاع آئی کہ آپ کے والد حصرت سیّد محمد نفس ذکیہ مدینہ منورہ میں 15 رمضان المبارک کو اور اسی سال آپ کے چچا حضرت ابراہیم بن عبداللّہ 25 ذیقعد (14فروری 763ء) کو بصرہ میں شہید کردیئے گئے۔گورنر سندھ کی بیعت اور آپ کی تعظیمحضرت عبداللّہ شاہ غازی رحمتہ اللّہ علیہ کے والد صاحب اور چچا کی شہادت کے بعد عباسی خلافت کے مرکز (خلیفہ منصور) سے آپ کی گرفتاری کے احکامات بھی صادر ہوئے۔ مگر چونکہ آپ کے حصّے میں میدان جنگ میں شہادت لکھی گئی تھی لہذا آپ کی گرفتاری تو عمل میں نہیں آسکی۔ حضرت حفص بن عمر گورنر سندھ آپ کی گرفتاری کے معاملے کو مسلسل ٹالتے رہے۔ان کا خیال تھا کہ اس طرح کچھ وقت گزر جائے گا اور خلیفہ منصور غازی شاہ رحمتہ اللّہ علیہ کی گرفتاری کے معاملے کو بھول جائے گا مگر جو لوگ اقتدار سے لگاؤ رکھتے ہیں وہ کسی طرح کا خطرہ مول نہیں لیتے بلکہ چھوٹے سے چھوٹے خطرے کو بھی برداشت کرسکتے۔ چنانچہ خلیفہ منصور کے دل سے ہرگز بھی عبداللّہ شاہ غازی رحمتہ اللّہ علیہ کی گرفتاری کا خیال ماند نہیں پڑا۔ حالانکہ گورنر سندھ حضرت حفص بن عمر نے اہل بیت سے محبت کے جذبے کے تحت یہ بھی خلیفہ کو کہا کہ حضرت عبداللّہ شاہ غازی رحمتہ اللّہ علیہ میری مملکت کی حدود میں نہیں ہیں لیکن خلیفہ کو اس پر بھی اطمینان نہیں ہوا۔لہذا اُس نے 151ھ میں عمر بن حفض کو سندھ کی گورنری سے ہٹا کر اُن کی جگہ ہشام بن عمر کو گورنر مقرر کردیا اور نئے گورنر کو حکم دیا کہ حضرت عبداللّہ شاہ غازی کو گرفتار کرکے بغداد بھیجے لیکن وہ بھی حضرت کا مرید ہوگیا اور حفاظت کی غرض سے خود سے دور کردیاگورنر سندھ حضرت حفص نے اپنی محبت’ عقیدت اور سادات سے لگاؤ اور بیعت کرلینے کے بعد آپ کو بحفاظت ایک ساحلی ریاست میں بھیج کر وہاں کے راجہ کا مہمان بنایا۔ یہ راجہ اسلامی حکومت کا اطاعت گزار تھا۔ اس نے آپ کی آمد پر آپ کو خوش آمدید کہا اور انتہائی عزت اور قدر و منزلت سے دیکھا۔ آپ چار سال یہاں ان کے مہمان رہے۔ اس عرصہ میں آپ نے پہلے کی طرح اسلام کی تبلیغ جاری رکھی اور سینکڑوں لوگوں کو اسلام سے روشناس کرایا۔ لاتعداد لوگ آپ کے. مریدین بن کر آپ کے ساتھ ہوگئے۔سندھ میں اسلام کی تبلیغسندھیوں کے بنجر دل کی زمین میں سب سے پہلے حضرت عبدالّلہ شاہ غازی رحمتہ اللّہ علیہ نے ہی اسلامی بیج بویا پھر اس کی آبیاری کی اور محبت’ اخوت اور بردباری سے دلوں کو گرمایا اور ایمان کی زرخیزی سے روشناس کروایا۔ذکرِ اللّہ سے لوگوں کے قلوب گرمائےوفاتروایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبداللّہ شاہ غازی شکار کی غرض سے جنگلوں میں جارہے تھے تو کسی سبب فوجوں نے اُن سے اچانک لڑائی شروع کردی۔ اچانک کسی ظالم کی تلوار آپ کے سرِمبارک پر لگی جس سے زخمی ہوکر گر پڑے ، اسی اثنا میں آپ کے ساتھیوں کے حملے سے مخالف افواج بھاگنے پر مجبور ہوگئیں۔ جب آپ کے ساتھی آپ کے قریب پہنچے تو آپ جام شہادت نو ش کرچکے ۔ روایت کےمطابق یہ 20 ذوالحج 151 ھ کا دن تھا ۔عالمی روحانی تحریکانجمن سرفروشان اسلام (رجسٹرڈ) پاکستانشعبئِہ نشرواشاعت سندھ#1293عرس_مبارک#شہنشاہِ_کراچی#نگہبانِ_کراچی#حضرت_سیّدناعبداللّہ_شاہ_غازی#رحمت_اللّہ_علیہ#ذی_الحجّہ20_21_22حضرت عبد اللہ شاہ غازیؒ الاشتر کا مزار 1293 سال سے مرجع خلائق ہےکراچی کی پہچان کے لیے ویسے تو کئی ایسی تاریخی یادگاریں ہیں جنہیں اس شہر کا نشان قرار دیا جاسکتا ہے ، لیکن حضرت عبد اللہ شاہ غازی کا مزار بلاشبہ اس شہر کی قدیم ترین نشانی ہے جس پر اہلیان کراچی کو بالخصوص اور سند ھ کے شہریوں کو بالعموم فخر ہے، کہا جاتا ہے کہ گزشتہ 1300 سال سے کراچی کو کسی سمندری طوفان نے نقصان نہیں پہنچایا اور اس کا سبب حضرت کی ذاتِ مبارک ہے، سنہ98 ھ میں حضرت سیّد محمد نفس ذکیہ کے ہاں اسلام کے ایک درخشاں ستارے حضرت عبد اللّہ شاہ غازی رحمتہ اللّہ علیہ نے مدینہ منورہ میں آنکھ کھولی۔ آپ حسنی حسینی سیّد ہیں اور آپ کا شجرہ مبارک سیّد ابو محمد عبداللّہ الاشتر (عبداللّہ شاہ غازی رحمتہ اللّہ علیہ) بن سید محمد ذوالنفس الزکیہ بن سیّد عبداللّہ المحض بن سیّد حسن مثنیٰ بن سیّدنا حضرت سیّدنا امام حسن علیہ السّلام بن حضرت سیّدنا امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم تک جاتا ہے۔حضرت سیّدنا حسن مثنیٰ کی شادی حضرت سیّدہ فاطمہ صغریٰ بنت سیدنا حضرت امام حسینؑ سے ہوئی اسی وجہ سے آپ حسنی حسینی سیّد ہیں۔آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے والد صاحب کے زیر سایہ مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ علم حدیث پر عبور رکھتے تھے۔ اور کچھ مورخین نے آپ کو محدث بھی لکھا ہے۔اسلام کے پہلے مبلغ کی سندھ آمدبنو امیہ کی حکومت زوال پذیر ہوچکی تھی جب 138ھ میں عبداللّہ شاہ غازی رحمتہ اللّہ علیہ کے والد صاحب نے آپ کو اپنے بھائی حضرت ابراہیم کے پاس بصرہ بھیجا اور آپ وہاں سے ہوتے ہوئے سندھ کی جانب روانہ ہوئے۔ تاریخ الکامل’ جلد پنجم میں لکھا ہے کہ آپ خلیفہ منصور کے دور میں سندھ تشریف لائے۔ تحفتہ الکریم کے مصنف شیخ ابو تراب نے آپ کی سندھ میں موجودگی خلیفہ ہارون رشید کے دور سے منسوب کی ہے۔عبد اللّہ شاہ غازی کی تربتآپ کی سندھ آمد کے ضمن میں دو قسم کے بیان تاریخ سے ثابت ہیں۔ ایک یہ کہ آپ تبلیغ اسلام کیلئے تشریف لائے تھے اور دوسرے یہ کہ آپ علوم خلافت کے نقیب کی حیثیت سے (ملاحظہ ہو تاریخ الکامل لا بن الشت’ ابن خلدون’ طبری اور میاں شاہ مانا قادری کی تحریریں) تاجر کے روپ میں آئے تھے۔ تاجر اس لئے کہا گیا کہ آپ جب سندھ آئے تو اپنے ساتھ بہت سے گھوڑے بھی لائے تھے۔ آپ نے یہ گھوڑے اپنے کم و بیش بیس مریدوں کے ہمراہ کوفہ سے خریدے تھے۔ آپ کی آمد پر یہاں کے مقامی لوگوں نے آپ کو خوش آمدید کہا اور سادات کی ایک شخصیت کواپنے درمیان پاکر بہت عزت اور احترام کا اظہار کیا۔ آپ بارہ برس تک اسلام کی تبلیغ میں سرگرداں رہے اور مقامی آبادی کے سینکڑوں لوگوں کو مشرف با اسلام کیا۔والد کی شہادتحضرت عبداللّہ شاہ غازی رحمتہ اللّہ علیہ کے سندھ قیام کے دوران گورنر سندھ کو خبر آئی کہ آپ رحمتہ اللّہ علیہ کے والد صاحب نے مدینہ منورہ میں اور ان کے بھائی حضرت ابراہیم نے بصرہ میں عباسی خلافت کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ 145ھ میں یہ اطلاع آئی کہ آپ کے والد حصرت سیّد محمد نفس ذکیہ مدینہ منورہ میں 15 رمضان المبارک کو اور اسی سال آپ کے چچا حضرت ابراہیم بن عبداللّہ 25 ذیقعد (14فروری 763ء) کو بصرہ میں شہید کردیئے گئے۔گورنر سندھ کی بیعت اور آپ کی تعظیمحضرت عبداللّہ شاہ غازی رحمتہ اللّہ علیہ کے والد صاحب اور چچا کی شہادت کے بعد عباسی خلافت کے مرکز (خلیفہ منصور) سے آپ کی گرفتاری کے احکامات بھی صادر ہوئے۔ مگر چونکہ آپ کے حصّے میں میدان جنگ میں شہادت لکھی گئی تھی لہذا آپ کی گرفتاری تو عمل میں نہیں آسکی۔ حضرت حفص بن عمر گورنر سندھ آپ کی گرفتاری کے معاملے کو مسلسل ٹالتے رہے۔ان کا خیال تھا کہ اس طرح کچھ وقت گزر جائے گا اور خلیفہ منصور غازی شاہ رحمتہ اللّہ علیہ کی گرفتاری کے معاملے کو بھول جائے گا مگر جو لوگ اقتدار سے لگاؤ رکھتے ہیں وہ کسی طرح کا خطرہ مول نہیں لیتے بلکہ چھوٹے سے چھوٹے خطرے کو بھی برداشت کرسکتے۔ چنانچہ خلیفہ منصور کے دل سے ہرگز بھی عبداللّہ شاہ غازی رحمتہ اللّہ علیہ کی گرفتاری کا خیال ماند نہیں پڑا۔ حالانکہ گورنر سندھ حضرت حفص بن عمر نے اہل بیت سے محبت کے جذبے کے تحت یہ بھی خلیفہ کو کہا کہ حضرت عبداللّہ شاہ غازی رحمتہ اللّہ علیہ میری مملکت کی حدود میں نہیں ہیں لیکن خلیفہ کو اس پر بھی اطمینان نہیں ہوا۔لہذا اُس نے 151ھ میں عمر بن حفض کو سندھ کی گورنری سے ہٹا کر اُن کی جگہ ہشام بن عمر کو گورنر مقرر کردیا اور نئے گورنر کو حکم دیا کہ حضرت عبداللّہ شاہ غازی کو گرفتار کرکے بغداد بھیجے لیکن وہ بھی حضرت کا مرید ہوگیا اور حفاظت کی غرض سے خود سے دور کردیاگورنر سندھ حضرت حفص نے اپنی محبت’ عقیدت اور سادات سے لگاؤ اور بیعت کرلینے کے بعد آپ کو بحفاظت ایک ساحلی ریاست میں بھیج کر وہاں کے راجہ کا مہمان بنایا۔ یہ راجہ اسلامی حکومت کا اطاعت گزار تھا۔ اس نے آپ کی آمد پر آپ کو خوش آمدید کہا اور انتہائی عزت اور قدر و منزلت سے دیکھا۔ آپ چار سال یہاں ان کے مہمان رہے۔ اس عرصہ میں آپ نے پہلے کی طرح اسلام کی تبلیغ جاری رکھی اور سینکڑوں لوگوں کو اسلام سے روشناس کرایا۔ لاتعداد لوگ آپ کے. مریدین بن کر آپ کے ساتھ ہوگئے۔سندھ میں اسلام کی تبلیغسندھیوں کے بنجر دل کی زمین میں سب سے پہلے حضرت عبدالّلہ شاہ غازی رحمتہ اللّہ علیہ نے ہی اسلامی بیج بویا پھر اس کی آبیاری کی اور محبت’ اخوت اور بردباری سے دلوں کو گرمایا اور ایمان کی زرخیزی سے روشناس کروایا۔ذکرِ اللّہ سے لوگوں کے قلوب گرمائےوفاتروایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبداللّہ شاہ غازی شکار کی غرض سے جنگلوں میں جارہے تھے تو کسی سبب فوجوں نے اُن سے اچانک لڑائی شروع کردی۔ اچانک کسی ظالم کی تلوار آپ کے سرِمبارک پر لگی جس سے زخمی ہوکر گر پڑے ، اسی اثنا میں آپ کے ساتھیوں کے حملے سے مخالف افواج بھاگنے پر مجبور ہوگئیں۔ جب آپ کے ساتھی آپ کے قریب پہنچے تو آپ جام شہادت نو ش کرچکے ۔ روایت کےمطابق یہ 20 ذوالحج 151 ھ کا دن تھا

انجمن سرفروشان اسلام (رجسٹرڈ) پاکستان