اقتباسات

تمام عالمِ اسلام کو ماہِ شعبان المعظّم کاچاندمبارک ہو۔

تمام عالمِ اسلام کوماہِ_ شعبان المعظّم کاچاندمبارک_ہو-

ماہِ شعبان میں روزے کی حکمتیں

ماہِ شعبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ نفلی روزے رکھنے کے کئی اسباب اور کئی حکمتیں بیان کی گئی ہیں، علامہ محب طبری نے چھ حکمتیں بیان فرمائی ہیں (عمدة القاری ۱۱/۱۱۹)، جن میں سے چار حکمتیں وہ ہیں جن کی طرف احادیث میں بھی اشارہ کیا گیا ہے، انھیں کو یہاں ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:

رمضان کی تعظیم اور روحانی تیاری

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ:”اَیُّ الصَّوْمِ افضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ؟ قالَ شعبانُ لِتَعْظِیْمِ رمضَانَ“ ترجمہ: رمضان المبارک کے بعد افضل روزہ کون سا ہے؟ ارشاد فرمایا: رمضان کی تعظیم کے لیے شعبان کا روزہ، الخ (ترمذی شریف ۱/۱۴۴، باب فضل الصدقہ) یعنی رمضان المبارک کی عظمت، اس کی روحانی تیاری، اس کا قرب اور اس کے خاص انوار و برکات کے حصول اور ان سے مزید مناسبت پیدا کرنے کا شوق اور داعیہ ماہِ شعبان میں کثرت کے ساتھ نفلی روزے رکھنے کا سبب بنتا تھا اور شعبان کے ان روزوں کو رمضان کے روزوں سے وہی نسبت ہے جو فرض نمازوں سے پہلے پڑھے جانے والے نوافل کو فرضوں سے ہوتی ہے۔ (الطائف المعارف لابن رجب ۱/۱٣، معارف الحدیث ۴/۱۵۵)

اللّہ تعالیٰ کی طرف اعمال کا اٹھایا جانا

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شعبان کا مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان کا مہینہ ہے، لوگ اس کی فضیلت سے غافل ہیں؛ حالاں کہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال پروردگارِ عالم کی جانب اٹھائے جاتے ہیں، لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل بارگاہِ الٰہی میں اس حال میں پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔ (شعب الایمان حدیث ۳۸۲۰، فتح الباری ۴/۲۵۳)

مرنے والوں کی فہرست کا ملک الموت کے حوالے ہونا

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ماہِ شعبان میں اس کثرت سے روزے کیوں رکھتے ہیں؟ ارشاد فرمایا: اس مہینے میں ہر اس شخص کا نام ملک الموت کے حوالے کر دیا جاتا ہے جن کی روحیں اس سال میں قبض کی جائیں گی لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا نام اس حال میں حوالے کیا جائے کہ میں روزے دار ہوں۔(مسند ابو یعلی حدیث ۴۹۱۱، فتح الباری ۴/۲۵۳ٌ

ہر مہینے کے تین دن کے روزوں کا جمع ہونا

ایک حکمت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً ہر مہینے تین دن یعنی ایامِ بیض(تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ)کے روزے رکھتے تھے(نسائی شریف ۱/۲۵۷) لیکن بسا اوقات سفر و ضیافت وغیرہ کسی عذر کی وجہ سے چھوٹ جاتے اور وہ کئی مہینوں کے جمع ہوجاتے، تو ماہِ شعبان میں ان کی قضا فرماتے؛ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ سے حدیث شریف مروی ہے کہ:”کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یَصُوْمُ ثَلاثَةَ ایامٍ من کُلِّ شَہْرٍ فَرُبَّمَا اَخَّرَ ذٰلِکَ حَتّٰی یَجْتَمِعَ عَلَیْہِ صَومُ السَّنَةِ فَیَصُوْمُ شعبانَ“ (روضة المحدثین ۲/۳۴۹، نیل الاوطار ۴/۳۳۱)۔

*فائدہ: مندرجہ بالا احادیث شریفہ سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کئی حکمتوں کی وجہ سے شعبان میں کثرت کے ساتھ روزے رکھتے تھےاس کے ساتھ ساتھ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اِذَا بَقِیَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلاَ تَصُوْمُوْا (ترمذی شریف ۱/۱۵۵، جامع الاحادیث ۲/۴۴۵) یعنی جب آدھا شعبان باقی رہ جائے تو روزے مت رکھو۔ تو علماء نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اس حدیث شریف میں ممانعت ان لوگوں کے لیے ہے جن کو روزہ کمزور کرتا ہے، ایسے لوگوں کو اس حدیث شریف میں یہ حکم دیا گیا کہ نصف شعبان کے بعد روزے مت رکھو؛ بلکہ کھاؤ پیئو اور طاقت حاصل کرو؛ تاکہ رمضان المبارک کے روزے قوت کے ساتھ رکھ سکو اور دیگر عبادات نشاط کے ساتھ انجام دے سکو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ طاقت ور تھے، روزوں کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کمزوری لاحق نہیں ہوتی تھی؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نصف شعبان کے بعد بھی روزے رکھتے تھے اور امت میں سے جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہیں اور روزے ان کو کمزور نہیں کرتے وہ بھی نصف شعبان کے بعد روزے رکھ سکتے ہیں، ممانعت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کو کمزوری لاحق ہوتی ہے۔ (فتح الباری ۴/۲۵۳، تحفة الالمعی ۳/۱۱۱)
فائدہ: ماہِ شعبان کے روزے صحیح روایات سے ثابت ہیں، لہٰذا شعبان کے کم از کم پہلے نصف حصے میں روزے رکھنے چاہئیں اور اس سنت کو زندہ کرنا چاہیے۔ اگرچہ یہ روزے نفلی ہیں نہ رکھنے پر کوئی مواخذہ نہیں۔

نشاءاللّہ شبِ برآت 18مارچ بروز جمعہ اور ماہانہ پندرھویں شریف 19 مارچ بروز ہفتہ کو ہوگی

عالمی روحانی تحریک
انجمن سرفروشان اسلام پاکستان