اقتباسات

کام قلب، روح و عقل کو آزاد کروائے بنا ممکن نہیں ،

انسان کا” آزادانہ ارادہ”، تب ہوتا ہے جب وہ ہر خواہش، توقع، چاہت، پسند، ناپسند، تعصب، غضب، لزت و شہوت سے جدا رب تعالیٰ کی پسند کیمطابق ہوتا ہے، اور جب اس کا” دل”، رب تعالیٰ سے جڑاو میں رہتے حق کیساتھ کھڑا ہوتا ہے اور اس منزل تک اپنے ارادے، کی تربیت اور اپنی زات سے ابھر کر رب کی پسند کو اپنانے کی تربیت گاہ یہ زندگی، یہ رشتے، حالات واقعات، آزمائش و امتحانات ہیں ۔ ۔ ۔

"آزادی رائے” کا حقیقی مطلب، جب انسان کا شعور، قلب و روح رب تعالیٰ کی حکمت و پسند کے تابع، حق کیساتھ جڑی ہو پھر خواہ وہ اپنی زات، چایت، پسند، اپنے یا اپنوں کیخلاف ہی کیوں نہ کھڑا ہو یہ بہت مشکل کام ہے کیونکہ انسان اپنی یا اپنوں کی چاہتوں کے اسیر ہیں، انسان واسطے بہت ضروری ہے کہ اپنی زات کی تعمیر پہ دھیان دے، جسکا ظاہر اور باطن ایک ہو، جسکی روشنی ،نور اور روح ایک ہو یہ اتنا آسان نہیں ہے پر یہی ھدف زندگی ہے کہ انسان اپنے "منفی خول ” ‘ سے چھٹکارا پائے، اپنی ہر پسند، چاہت، توقع کے برعکس اپنی زات کی مخالفت کرے تاکہ زندگی کے درست اور حقیقی زا٨قے کو لمس کر سکے ۔ ۔ ۔

آج بیشترانسان اپنی زات کے منفی اظہار کو اپنی چاہت، توقعات، پسند، ناپسند سمجھتے ہیں جبکہ اپنی زات کا اصلی اظہار کرنے کی شدید کوشش کی ضرورت ہے جہاں انسان کی فکر، قلب، روح، انسان کے جزبات و احساسات سب رب تعالیٰ کی پسند کے تابع ہوں ۔ ۔ ۔

یہ کام قلب، روح و عقل کو آزاد کروائے بنا ممکن نہیں ، انسان کا اصلی رشتہ رب سے ہے یا خود سے ہے اور یہ بات سمجھ لینا اور شے ہے، اپنا پانا اور شے اور نبھا پانا درست رنگوں میں خود کیساتھ، خود کے تعلق بہت جدا نزل اسکے واسطے اپنے خلاف کھڑا ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، اپنی زات کو کھینچ کر درست راہ پہ لانے کی اور اپنی زات سے دوستی اور اخلاص نبھانے کی کہ تم صرف رب کے ہو اور تو خود کے بھی نہیں ہو اور رب کی بندگی و غلامی کا مطلب اپنی زات کی اسیری سے مکمل بازیابی اور رب کی اطاعت ہوتی ہے پھر چاہے یہ احساس میرے خلاف ہی کیوں نہ ہو ۔ ۔ اور چاہے تو اس باعث سب میرے خلاف ہی کیوں نہ ہوں ۔ ۔ ۔