اقتباسات

خواجہ محمد سلیمان تونسوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ

خواجہ محمد سلیمان تونسوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ

ہمیشہ گهوڑے پر سوار ہوکر اپنے پیر و مرشد کی درگاہ میں تشریف لے جایا کرتے تھے اور آپ کے خلیفہ شمس الدین سیالوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ گهوڑے کی لگام پکڑ کر آگے آگے چلا کرتے تهے سواری کے دوران خواجہ تونسوی سرکار کی نظر اچانک ہی شمس الدین صاحب کے پاوں پر پڑی – دیکها پاوں سے خون بہہ رہا ہے – وقتی طور پر آپ نے خاموشی فرمائی – مگر کسی دوسرے موقع پر روانگی سے قبل شمس الدین صاحب کو یاد فرمایا – اپنے پاپوش مبارک (جوتے) عطا فرمائے – ننگے پاؤں نہیں چلنا – یہ جوتے پہن لیں اور گهوڑا تیار کر کے لے آئیں حجرہ مبارک سے باہر آکر شمس الدین صاحب نے وہ جوتے مبارک سر پر باندھ لئے – اور گهوڑا تیار کر کے پیش کر دیا – مرشدِ پاک سوار ہوگئے حسب معمول گهوڑے کی لگام پکڑے جارہے ہیں اور پاؤں ننگے ہیں – مرشدِ عالی کی نگاہ پاک اٹهی دیکها شمس الدین تو ننگے پاؤں جارہا ہے سوال فرمایا جوتے کدهر ہیں کیوں نہیں پہنتا – دست بستہ عرض گزار ہوئے حضور نے مجھے لولا کی تاج بخشا ہے -میں نے سر پر باندھ لیا ہے – میرا ادب کب برداشت کرسکتا ہے – کہ آپ کے پاؤں مبارک کے جوتے میں اپنے پاوں میں پہنوں – میں نے سر پر باندهے ہوئے ہیں – مرشد پاک نے فرمایا – گهوڑا روکو آپ نے روک لیا – مرشد عالی مقام نے اتر کر شمس الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو گلے مبارک لگایا اور فرمایا سلطان العارفین ہونگے اور تو شمس العارفین ہوگا – ادب کا یہ صلہ ملا کہ آج آپ کو شمس الدین کے نام سے کوئی نہیں پکارتا – بلکہ آپ شمس العارفین رحمتہ اللہ علیہ کے نام ہی سے موسوم ہیں – یہ محبت اور ادب ہی کا صلہ ہے –
( حوالہ..کنزالعرفان)
( مصنف…… حضور قبلہ صوفی رب نواز صاحب رحمۃ اللہ علیہ