اقتباسات

سر کی آنکھ سے ہو یا دل کی آنکھ سے ہو ’’بصر‘‘ اور ’’بصیرت‘‘ کہتے ہیں۔‘‘

دیدارِ مصطفیٰﷺ

تحریر: غزالی زماں احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمتہ اللہ علیہ

بمقام: عید گاہ
بتاریخ: ۲۸؍اپریل۱۹۷۸ء

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یٰاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا o
صَدَقَ اللّٰہُ مَوْلَانَا الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ وَنَحْنُ عَلٰی ذِالِکَ لَمِنَ الشَّاہِدِیْنَ وَ الشَّاکِرِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔

محترم حضرات!
حاصل زندگی وہی لمحات ہیں جو اللہ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ کی حاضری میں گزر جائیں۔
الحمد للّٰہ الحمد للّٰہ ! آپ یہ سوچیں گے کہ ہر مومن ہر اہلِ محبت تو حاضر نہیں ہو سکتا۔ وہ ان لمحاتِ زندگی کو کیسے پائے؟
اس کے متعلق ایک بات عرض کرتا ہوں۔ قرآن ایسی کتاب ہے جس میں ہر سوال کا جواب ہے۔ میں نے جو آیت کریمہ آپ کے سامنے تلاوت کی، اس آیت کے ساتھ دوسری آیت کو ملا لیجیئے
یٰاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا o وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًاo (پ۲۲: سورئہ احزاب: آیت ۶۵)
’’اے نبی! بے شک ہم نے آپ کو مشاہدہ کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا اور (عذاب سے) ڈرانے والا بنا کر بھیجا اور اللہ کی طرف سے اس کے حکم سے بلانے والا اور روشن کرنے والا آفتاب۔‘‘
اس آیت مقدسہ میں صرف لفظ ’’شَاہِدًا‘‘ پر اگر غور کیا جائے تو اس سوال کا جواب ہمارے سامنے واضح طور پر آ جاتا ہے۔ ’’شَاہِدًا‘‘ شہادت مشہود سے بنا ہے۔ اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ شہادت اور شہود کے معنیٰ ہیں
الحضور مع المشاہدۃ
شہادت اور شہود کیا ہے؟ الحضور یعنی حاضر ہونا مع المشاہدہٗ صرف حاضر ہونا نہیں بلکہ مشاہدہ کے ساتھ حاضر ہونا۔ یعنی جانتے ہوئے دیکھتے ہوئے حاضر ہونا۔
اما بالبصر او بالبصیرۃ (۱)
’’سر کی آنکھ سے ہو یا دل کی آنکھ سے ہو ’’بصر‘‘ اور ’’بصیرت‘‘ کہتے ہیں۔‘‘
تو واضح ہوا کہ سر کی آنکھ سے یا دل کی آنکھ سے دیکھنے اور سننے او رحاضر ہونے والے کو ’’شَاہِدٌ‘‘ کہتے ہیں۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔
قرآن مجید میں دوسرے مقام پر فرمایا
وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَّلَمُوْآ اَنْفُسَہُمْ جَآئُ وْکَ (سورئہ النساء: آیت ۶۴)
یعنی اے ایمان والو! اگر تم اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھو تو میرے محبوب کے پاس آ جاؤ۔
یہاں فرمایا
یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا
وہاں ایمان والوں کو فرمایا کہ تم حاضر ہو جاؤ اور یہاں فرمایا، ’’اے پیارے نبی (ﷺ)! بے شک آپ شاہد ہیں۔‘‘ پیارے میں نے خود تجھ کو حاضر بنا کر بھیجا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ یہ جو حاضر ہو سکتے ہیں۔ وہ حاضر ہو جائیں اور جو نہیں ہوسکتے، میرا محبوب خود حاضر ہے اور شاہد کس پر ہے؟ شاہد کے معنیٰ
’’الشہود والشہادۃ الحضور مع المشاہدۃ اما بالبصر او بالبصیرۃ‘‘
یعنی ’’دیکھنے سننے کے ساتھ حاضر ہونا، یہ شہادت اور شہود ہے جو جانتے ہوئے، دیکھتے ہوئے، سنتے ہوئے حاضر ہونے والا ہو، وہ شاہد ہے۔‘‘
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
میرے پیارے حبیب (ﷺ)! ہم نے آپ کو جانتے ہوئے، دیکھتے ہوئے، سنتے ہوئے حاضر ہونے والا بنا کر بھیجا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو یہاں خود شاہد بنایا اور وہاں فرمایا، ’’جاء وک‘‘ تم حاضر ہو جاؤ جو حاضر ہو سکتے ہیں، وہ حاضر ہو جائیں اور جو حاضر نہیں ہو سکتے ان کے لئے میرے محبوب خود حاضر ہیں۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔
میرے پیارے دوستو اور عزیزو!
اسی مضمون کو قرآن کی اس آیت میں بیان فرمایا
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ (الاحزاب: آیت ۶)
یعنی میرے محبوب خود سنتے ہوئے جانتے ہوئے دیکھتے ہوئے ہیں۔ اگر تم حاضر ہو سکتے ہو تو تم حاضر ہو جاؤ اور جو حاضر نہیں ہو سکتے تو میرا محبوب حاضر ہے۔ کہاں حاضر ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ حضور کہاں حاضر ہیں؟ اللہ فرماتا ہے ’’مِنْ اَنْفُسِہِمْ‘‘ تمہاری جانیں تمہارے پاس ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری جانیں دور ہیں مصطفیٰ اس سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔
میرے آقا سرورِ عالم نورِ مجسم محمد رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ کا شاہد ہونا جو حقیقت میں اس منصب کی نشاندہی ہے کہ حضور اکرم ﷺ تمام کائنات کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے۔ یاد رکھئے جو کسی پر رسول بنا کر بھیجا جائے وہ اس پر ضرور شاہد ہوتا ہے جو جس کی طرف رسول بنا کر بھیجا جائے وہ مرسل علیہ یعنی جس کی طرف وہ رسول بن کر آئے ضرور حاضر بنا کر بھیجا جاتا ہے۔
قرآن کریم نے ایک حقیقت ظاہر فرمائی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا (بقرہ: ۱۴۳)
سبحان اللّٰہ! حضور شاہد اور شہید کس پر ہیں؟
میں نہیں کہتا تمام تفسیریں اٹھا کر دیکھ لو۔ میں اس وقت امام فخر الدین رازی کی تفسیر کبیر کی عبارت تمہارے سامنے پڑھ دیتا ہوں۔ آپ اندازہ لگا لیجئے۔ امام رازی نے
یٰاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰـکَ شَاہِدًا
کی تفسیر میں لکھا ہے کہ پیارے محبوب جس کی طرف آپ رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں، میں نے ان سب پر آپ کو شاہد بنا کر بھیجا ہے۔
یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ آپ کسی ایک آدمی یا ایک شے کے رسول ہیں بلکہ علم المعانی کا قاعدہ ہے کہ شبہ فعل کا مفعول کبھی حذف کیا جاتا ہے کہ اس کا حذف کرنا عموم پر دلالت کرتا ہے کہ اگر کسی ایک کو ذکر کیا جائے تو خاص ہو جاتا ہے۔ دلیل یہ ہے کہ کس کس پر ذکر کیا جائے کہ پیارے آپ فلاں پر شہید ہیں، فلاں پر حاضر ہیں۔ آپ تو ساری کائنات پر حاضر ہیں۔ بلکہ میرے آقا مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ ساری کائنات پر حاضر ہیں بلکہ خالق کائنات پر بھی حاضر ہیں۔
اب آپ رسول سے پوچھیں قرآن بھی جواب دے گا او رحدیث پاک بھی جواب دے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْرًا
’’بڑی برکت والا ہے وہ جس نے فیصلہ کرنے والی کتاب اپنے (مقدس) بندے پر اتاری تاکہ وہ تمام جہانوں کے لئے ڈرانے والا ہو۔‘‘
حدیث پاک میں ارشاد ہوا
ارسلت الی الخلق کافۃ (۲)
’’میں تو ساری مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘
اس لئے میں خالق کائنات پر مرسل ہونے کی حیثیت سے اس نسبت سے حاضر ہوں کہ میرا کسی وقت بھی میرے رب سے تعلق منقطع نہیں ہوا اور ان کی شان یہ ہے کہ
حضور خدا کی بارگاہ سے کبھی بھی جدا نہیں ہوئے، ہر وقت خدا کی بارگاہ میں حاضر ہیں اور خدا کی بارگاہ میں ایک طرف حاضر ہیں اور دوسری طرف مخلوق کائنات پر حاضر ہیں۔ نہ وہ خالق کائنات سے دور ہیں اور نہ کائنات سے دور ہیں۔ امام رازی نے فرمایا
شاہدًا علی من ارسلت الیہم
’’جس کی طرف آپ رسول بنا کر بھیجے گئے، آپ ان پر شاہد بنا کر بھیجے گئے۔‘‘
ساری کائنات پر میرے آقا سرورِ عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ شاہد ہیں۔ اگر یہ بات ثابت ہو گئی تو سمجھ لیں کہ شاہد کے معنی حاضر ہونے کے ہیں۔ تو معلوم ہوا کہ جو وہاں حاضر نہیں ہو سکتا تو آپ اس پر حاضر اور شہید ہیں۔
لیکن اب اس حجاب کو اٹھانا ہو گا۔ جو حجاب اس کے اور جمالِ مصطفی کے درمیان حائل ہے۔ یہ نہ سمجھے کہ میں حضور کو نہیں دیکھ رہا تو حضور حاضر نہیں ہیں۔ یہ سمجھیں کہ حضور تو حاضر ہیں مگر میرے اندر اتنا نور نہیں ہے کہ میں حضور کو دیکھ لوں میری آنکھوں پر حجاب پڑا ہوا ہے۔ جمالِ مصطفی نظر نہیں آتا اب اس حجاب کو اٹھانا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ دیکھو! صحن میں سورج کی دھوپ کیا ہے؟ یہ سورج کی روشنی ہے۔ سورج کا غیر تو نہیں ہے۔ اگر سورج کی روشنی سورج کا غیر ہو تو سورج کہیں بھی ہو روشنی آپ اٹھا کر لے جائیں۔ مگر نہیں لے جا سکتے کیونکہ وہ سورج کا غیر نہیں ہے۔ اگر سورج کی روشنی قریب ہے۔ یہاں حاضر ہے موجود ہے لیکن اگر آپ شامیانہ لگا دیں تو سچ کہتا ہوں وہ دھوپ یا روشنی آپ پر نہ ہوگی۔ تو پتہ چلا کہ اگر شامیانہ تم نے لگا لیا، یہ تمہارا اپنا فعل ہے۔ کیونکہ تم نے خود اپنے آپ کو اس سے حجاب میں لے لیا۔ اگر شامیانہ ہٹا دیا تو سورج کی شعاع تمہارے پاس ہو گی۔ بس یہی فرق ہے کہ ہم اگر غفلت کا حجاب ہٹا دیں تو مصطفی ﷺ تو حاضر ہیں ہی۔ یہ مت کہو کہ حضور حاضر نہیں ہیں بلکہ یہ کہو کہ ہم نے خود اپنے اوپر حجاب ڈال لیا ہے۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔
میرے دوستو اور عزیزو!
مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ پر اگر کوئی حجاب غفلت کو اٹھاتے ہوئے حاضر ہو جائے تو اس سے بڑھ کر کوئی خوش نصیب نہیں ہے اور اگر حجاب غفلت کو اٹھا کر خود مصطفی کے حضور حاضر ہونے کی استطاعت نہیں ہے تو خود آقا دو عالم سرور کونین کو حاضر پائے گا۔
حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مدارج النبوت شریف میں فرمایا ہے کہ اگر تو حضور کو دیکھنا چاہتا ہے تو حضور کا حلیہ مبارک خوب ذہن میں قائم کر لے کہ حضور تاجدار مدنی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ کا حلیہ مبارک یعنی آپ کی پیشانی ایسی ہے۔ آپ کے بال مبارک، حضور کی مبارک آنکھیں ایسی ہیں۔ سرکار کی انگشت اقدس، لب مبارک اور دندان مبارک ایسے ہیں۔ حضور کا سینہ مبارک اور پائے اقدس ایسے ہیں۔ المختصر حضور ﷺ کا حلیہ مبارک ذہن میں بٹھا لو۔ اس کے بعد کمالِ محبت کے ساتھ، کمالِ عشق کے ساتھ حضور پر درود پڑھنا شروع کر دو اور کھو جاؤ حضور کے اس حلیہ مبارک کے اندر کھو کر یہ سمجھو کہ حضور مجھے دیکھ رہے ہیں۔ میرا عشق جان رہے ہیں۔ حضور میرا درود شریف سن رہے ہیں۔ جب یہ عمل منتہا کو پہنچے گا تو نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ حجاب دور ہو جائے گا۔ کھلم کھلا سرکار تمہارے سامنے ہوں گے۔
اور تم سرکارِ دو عالم ﷺ کو ان آنکھوں سے دیکھ لو گے۔ آخر میں حضرت عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں
تو صحابہ کرام کے درجہ پر فائض ہو جائے گا۔ اب ایک علمی بات ہے۔ جس کا بیان کرنا ضروری ہے۔ تاکہ لوگوں کی غلط فہمی دور ہو سکے۔ انہوں (شیخ عبد الحق محدث) نے فرمایا، کہ تو صحابہ کے درجہ پر فائز ہو جائے گا، یہ نہیں فرمایا کہ تو صحابی ہو جائے گا، صحابی ہونا اور بات ہے۔ صحابہ کے درجہ پر فائز ہونا اور بات ہے۔ شہید ہونا اور بات ہے، شہید کے درجہ پر فائز ہونا اور بات ہے۔
حضور ﷺ نے فرمایا، جس نے سچے دل سے شہادت کو طلب کیا اور سچے دل سے شہادت مانگی تو اللہ تعالیٰ اس کو شہیدوں کی منزلت پر پہنچا دے گا۔ اگرچہ اپنے بستر پر کیوں نہ مر جائے۔ (۳)
شہید وہ ہوتا ہے جو اللہ کی راہ میں جان دے، زخمی ہو، اسے بغیر غسل دئیے، اسی لباس میں جنازہ پڑھ کر دفن کیا جاتا ہے، جبکہ وہ شہید اکبر ہوتا ہے۔ دوسری طرف فقہی اور اصطلاحی شہید کو ایسے دفن نہیں کیا جاتا بلکہ غسل بھی دیتے ہیں، کفن بھی دیا جاتا ہے، جنازہ کے بعد دفن کیا جاتا ہے۔ جس کے دل میں سچی شہادت کا جذبہ ہوگا، اسے شہید تو نہیں کہیں گے مگر شہید کا درجہ پائے گا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔
بس یہی بات شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی کہ تو صحابی نہیں ہو جائے گا بلکہ درجہ صحابیت پر فائز ہو سکتا ہے اور صحابی کے لئے شرط یہ ہے کہ رسول اکرم سید عالم ﷺ کی حیات ظاہری میں حضور کی وفات سے قبل ایمان کی حالت میں حضور کو دیکھ لے اور ایمان پر خاتمہ ہو جائے ’’وہ صحابی ہوتا ہے۔‘‘
علماء کا قول ہے کہ کچھ لوگ ایسے تھے جو حضور کی حیات ظاہری میں حضور کا دیدار نہیں کر سکے لیکن جب سوموار کو سرکار کا وصال ہوا اور لوگوں کو خبر ملی تو وہ دور دراز سے آئے۔ سرکارِ دو عالم ﷺ بدھ کے دن قبر کے اندر دفن ہوئے تو اس عرصہ میں لوگوں نے حضور کو دیکھا۔ جنہوں نے حیاتِ ظاہری میں نہیں دیکھا، ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ان کے بارے میں یہ حکم ہے کہ وہ صحابی کے درجہ کو تو پا لیں گے مگر صحابی نہیں کہلائے جائیں گے۔ تو پتہ چلا کہ شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے علمی بات فرمائی۔ ایک قید لگا کر تمام اعتراضات دور کر دئیے۔ یہ نہیں فرمایا کہ ’’تو صحابی شوی‘‘ بلکہ فرمایا کہ تو صحابی کے درجہ پر فائز ہو جائے گا۔ معلوم ہوا کہ حضور کو وفات شریف کے بعد دیکھنا ممکن ہے۔ جو کوئی اس نوعیت سے دیکھے جو شاہ صاحب نے فرمایا ہے تو خدا کی قسم! اس نے دونوں جہاں کی نعمتیں لوٹ لیں۔
حضور کا حلیہ مبارک پکا ذہن میں بٹھا کر بے ساختہ درود پڑھا اور پڑھتا رہا۔ حتیٰ کہ کمال کو پہنچ گیا۔ حجاب خود بخود اٹھ گیا اور اس نے حضور کا جمال دیکھ لیا۔
یٰاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا
جو لوگ مدینے نہیں جا سکتے انہیں غم نہیں کرنا چاہئے۔ انہیں گھر بیٹھے مصطفی ﷺ کی زیارت ہو سکتی ہے۔ مگر کوئی ہو بھی تو سہی۔

آنکھ والا تیرے جلوے کا تماشا دیکھے!
دیدئہ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے؟

میرے عزیزو اور دوستو!
یہ حدیث بخاری شریف اور مسلم شریف میں ہے۔ وہ یہ کہ
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من رانی فی المنام فسیرانی فی الیقظۃ
’’حضور ﷺ نے فرمایا، جس نے مجھے خواب میں دیکھا، وہ ضرور مجھے جاگتے میں دیکھے گا۔‘‘
یہ سرکار کا فرمان ہے۔ یہ حدیث مختلف سندوں میں ہے ایک اور مقام پر ہے
من رانی فقد راء الحق (۴)
سوال : – سوال یہ ہے کہ بہت سے اللہ کے بندے ایسے ہیں، جنہوں نے خواب میں حضورکی زیارت فرمائی اور بیداری میں حضور نظر نہیں آئے تو یہ بات کیسے پوری ہو گی کہ حضور نے فرمایا، ’’جس نے مجھے خواب میں دیکھا وہ مجھے جاگتے میں ضرور دیکھے گا۔‘‘
جواب:- علامہ ابن حجر مکی ہاشمی رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ حدیثیہ میں نقل فرماتے ہیں کہ حضور کو خواب میں دیکھنے والے تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو خاص الخواص قسم کے ہیں۔ جو عشق اور محبت میں کامل اور جامع ہیں۔ ان کے عشق انسانیت، اسلام اور ایمان کے اعلیٰ درجات پر ہیں۔ یہ لوگ خواب اور بیداری میں اکثر حضور کو دیکھتے ہیں۔ یہ ان کا ظرف عالی ہے۔
ان کے بڑے ظرف کی وجہ سے آقا کی زیارت کے بعد کوئی بات ان کے نقصان میں نہیں نکلتی۔ ایسے لوگوں میں سے شیخ ابو العباس المرسی ہیں، فرماتے ہیں
ولو حجب عنی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم طرفۃ عین ما عددت نفسی من المسلمین (۵)
’’اگر ایک پلک کی مقدار میں بھی سرکار کو نہ دیکھوں تو میں اس آن اپنے آپ کو مسلمان نہیں سمجھتا۔‘‘
دوسرا طبقہ خواص کا ہے اور وہ حضور کی جاگتے ہوئے زیارت کرتے ہیں، ان کو بھی کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ زیارتِ حبیب ﷺ کے سبب آگے چل کر ان کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
تیسرے وہ لوگ ہیں جو ہم جیسے گناہ گار ہیں، ہمارا ظرف اتنا نہیں۔ ہم اگر حضور کو خواب میں دیکھ لیں تو سرکار اپنا وعدہ ضرور پورا فرمائیں گے۔ مگر اس طرح نہیں جیسے خاص الخواص اور خواص کے لئے ہوا کرتا ہے۔ کیونکہ اگر حضور ایسے ہی زیارت فرما دیں تو نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ چھوٹے برتن میں زیادہ چیز انڈیل دی جائے تو نقصان ہے۔
اور میرے آقا امت پر ’’رؤف رحیم‘‘ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ
تمہاری ادنیٰ تکلیف میرے محبوب کو بڑی شاق ہے۔ ایمان والو! تمہاری چھوٹی سی تکلیف بھی میرے محبوب کو شاق ہے۔ ’’بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘ وہ تو تمام مومنین کے لئے کمال درجہ ’’رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘ ہیں۔
اگر ہم جیسے گناہ گاروں کو حضور خواب میں زیارت کرا دیں تو سرکار اپنا وعدہ ضرور پورا فرمائیں گے۔ مگر ہمارے ظرف کے مطابق تاکہ ہمیں نقصان نہ پہنچے۔ اور وہ کیسے ہو گا؟ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ ہم جیسے گناہ گار کو اگر حضور اپنا جمال دکھا دیں تو وعدہ ضرور پورا فرمائیں گے مگر ’’قبل از موت‘‘ موت سے کچھ پہلے۔
آنکھ دیکھتی ہو گی، جمالِ مصطفی ﷺ کو مگر بول نہ سکے گا تاکہ کہیں زبان ایسی بات نہ کہہ دے کہ نقصان ہو جائے۔ آقا ’’رَؤُوْفٌ رَّحِیْم‘‘ ہیں۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
یٰاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا
اگر تم حاضر نہیں ہو سکتے تو میرا محبوب خود شاہد و حاضر ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں اللہ سب کو اپنے پیارے حبیب کی زیارت سے مشرف فرمائے۔ جمالِ مصطفی کا جلوہ ہر مسلمان کو دکھائے۔ اللہ سب کی مشکلیں آسان فرمائے۔ اللہ ہمیں اسلام پر استقامت عطا فرمائے۔ خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

والحمد للّٰہ رب العالمین ۔