اقتباسات

24 رجب یوم فتح خیبر —پیغمبر(ص) نے فرمایا: علی (ع) کہاں ہیں؟

24 رجب یوم فتح خیبر — پیغمبر(ص) نے فرمایا: علی (ع) کہاں ہیں؟
خیبر چند قلعوں کے مجموعے کا نام تھا، جہاں کے لوگوں کا مشغلہ کھیتی باڑی کرنا اور مویشی پالناتھا، وہ علاقہ چونکہ بہت ہی زرخیز تھا لہٰذا اس کو حجاز کے غلّےکا گودام کہا جاتا تھا۔ خیبریوں کی اقتصادی حالت بہت اچھی تھی جس کا پتہ اس غذا اور اسلحوں کے اس ذخیرے سے لگایا جاسکتا ہے جو مسلمانوں کے ہاتھوں ان قلعوں کی فتح کے بعد سامنے آیا تھا۔ یہ قلعے نظامی اعتبار سے مستحکم اور مضبوط بنے ہوئے تھے جن کے اندر موجود فوجیوں کی تعداد دس ہزار تھی اسی وجہ سے یہودی اپنے کو سب سے طاقتور سمجھتے تھے اور یہ تصور کرتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر ان سے جنگ کرنے کی ہمت اور طاقت نہیں ہے۔

٦ھ میں سلام بن ابی الحقیق جو بنی نضیر کا ایک سردار تھا اور خیبر کے یہودیوں کی لیڈر شب اس کے ہاتھ میں آگئی تھی اس نے قبیلۂ غطفان اوردوسرے مشرک قبیلوں کو جمع کر کے مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کی خاطر بڑی فوج تیار کرلی اس کی ان فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے مسلمانوں کے ہاتھوں اس کے قتل ہو جانے کے بعد خیبریوں نے اس کی جگہ اسیر ابن زارم کو اپنا سردار چن لیا اس نے بھی اسلام دشمنی کی وجہ سے ان قبائل کو اسلام کے خلاف اکسایا۔

پیغمبر اکرمۖ نے گزشتہ دشمنیوں اور جھگڑوں کو مصالحت کے ساتھ حل کرنے کے لئے عبد اللہ بن رواحہ کی سرپرستی میں ایک وفد اس کے پاس بھیجا تاکہ اس کو راضی کرسکے وہ جب عبد اللہ بن رواحہ اور اپنے کچھ یہودی ساتھیوں کے ساتھ ایک وفد کی صورت میں مدینہ کی طرف آرہا تھا تو راستے میں اپنے اس فیصلے سے نادم ہوا اور اس نے سوچا کہ عبد اللہ کو قتل کردے، چنانچہ طرفین کی اس چھڑپ میں وہ اور اس کے ساتھی مارے گئےاور اس طرح پیغمبر کی یہ مصالحت آمیز کوشش کارگر نہ ہوسکی۔

ان تمام سازشوں اور فتنوں کے علاوہ موجودہ دور کے ایک مورخ کے بقول اس وقت یہ خطرہ بھی پایا جاتا تھا کہ خیبر کے یہودی، مسلمانوںسے پرانی دشمنی کی بناپر اور بنی قینقاع، بنی نضیر اور بنی قریظہ کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے ایران یا روم کے آلۂ کار بن سکتے ہیں اور ان کے اشارے پر مسلمانوں پر حملہکر سکتے ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب صلح حدیبیہ کے بعد جنوبی علاقے کے خطرات کی طرف سے مطمئن ہوگئے تو آپ نے ٧ھ کے آغاز میں ١٤٠٠، افراد پر مشتمل، لشکر کے ساتھ، یہودیوں کی گوش مالی کے لئے شمال کی طرف روانہ ہوئے اور اسلامی فوج کے لئے ایسے راستے کا انتخاب کیا جس سے غطفان جیسے طاقتور قبیلے کا رابطہ جس کا اس وقت خیبریوں سے معاہدہ تھا خیبریوں سے ٹوٹ گیا ، جس کے بعد ان کے درمیان ایک دوسرے کی امداد اور تعاون کا کوئی امکان باقی نہیں رہ گیا۔ یہودیوں پر اچانک اور ان کی بے توجہی سے فائدہ اٹھا کر حملہ کرنے کی حکمت عملی کے نتیجہ میں راتوں رات قلعۂ خیبر اسلامی فوج کے محاصرے میں آگیا اور جب صبح ہوئی تو یہودیوں کے سردار اس خطرہ کی طرف متوجہ ہوئے۔

البتہ پھر بھی مسلمانوں اور خیبریوں کی یہ جنگ برابر کی لڑائی نہیں تھی کیونکہ وہ لوگ بہت ہی مضبوط و مستحکم اور مورچہ بند قلعوں کے اندر تھے اور انھوں نے قلعوں کے دروازے بند کر رکھے تھے اور میناروں کے اوپر سے تیر اندازی کر کے یا پتھر برسا کر اسلامی فوج کو قلعہ کی دیوار سے نزدیک نہیں ہونے دے رہے تھے چنانچہ ایک حملے میں اسلامی فوج کے پچاس سپاہی زخمی ہوگئے۔

دوسری طرف سے ان کے پاس کافی مقدار میں خوراک کا ذخیرہ موجود تھا مگر اس محاصرہ کے طولانی ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے پاس خوراک کا ذخیرہ کم ہوگیاانجام کار نہایت دشواریوں اور زحمتوں کے بعد خیبر کے قلعے یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے قبضہ میں آنے لگے لیکن آخری قلعہ جس کا نام قموص تھا اوراس کا سپہ سالار مرحب تھا جو یہودیوں کا مشہور پہلوان بھی تھا یہ قلعہ آخر تک کسی طرح فتح نہ ہوسکا اور اسلامی فوج کے سپاہی اس پر قبضے نہ کرسکے۔ ایک روز پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسلامی فوج کا پرچم ابوبکر اور دوسرے روزعمر کے حوالے کیا اور فوج کو ان کے ساتھ یہ قلعہ فتح کرنے کے لئے روانہ کیا لیکن دونوں افراد کسی کامیابی اور فتح کے بغیر رسول خداؐ کے پاس پلٹ کر واپس آگئے آپ نے یہ صورت حال دیکھ کر ارشاد فرمایا:

کل میں یہ پرچم اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوںخداوند عالم اس قلعہ کو فتح کرائے گا وہ ایسا شخص ہے جو خدا اور رسول کو دوست رکھتا ہے اور خدا اور اس کا رسول بھی اسے دوست رکھتے ہیں وہ کرار غیر فرار ہوگا” اس رات پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تمام صحابہ کی یہی آرزو تھی کہ کل پیغمبر، اسلامی فوج کا پرچم اس کے حوالے کردیں جب سورج طلوع ہوا، پیغمبر نے فرمایا: علی (علیہ السلام) کہاں ہیں؟ سب نے عرض کی کہ علی (علیہ السلام) کو آشوب چشم ہے اور وہ آرام کر رہے ہیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کو طلب کیا اور آپ کی آنکھوں کو حضرت علی (علیہ السلام) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کے مطابق روانہ ہوئے اور ایک دلیرانہ جنگ میں مرحب کو قتل کیا اور بے نظیر و لاجواب شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مستحکم او رمضبوط قلعے کو فتح کرلیا۔ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس فتنہ اور فساد اور سازشوں کے اڈے یعنی خیبر کی فتح میں چند اسباب اور عوامل کارفرما تھے جن میں سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بہترین سپہ سالاری اور جنگی حکمت عملی (جیسے دشمن کی غفلت سے فائدہ اٹھانا دشمن سے متعلق خبریں اور ان کے قلعوں کی اندرونی معلومات حاصل کرنا) اور بالآخر حضرت علی (علیہ السلام) ـ کی بے نظیر شجاعت کا بھی اس میں کافی اہم کردار تھا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کی اس بہادری اور فداکاری کو اس انداز سے سراہا کہ اس دور کے ہر مسلمان بچے بچے کی زبان پر آپ کی بہادری کا کلمہ تھا اور اس کے مدتوں بعد تک آئندہ نسلوں کو بھی یہ واقعہ معلوم تھا اور اس دور کی تاریخ میں اسے اتنا عیاں اور روشن سمجھا جاتا تھا کہ معاویہ نے اپنی حکومت میں حضرت علی (علیہ السلام) ـ پر سب و شتم کو عام کرنے کے باوجود جب ایک دن سعد وقاص سے کہا کہ تم علی(علیہ السلام) پر سب و شتم کیوں نہیں کرتے ہو؟ تو اس نے کہا: میں یہ کام ہرگز نہیں کرسکتا ہوں، کیونکہ مجھے بخوبی یاد ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی ایسی تین فضیلتیں بیان فرمائی ہیں کہ میری آرزو اور تمنا ہے کہ کاش ان میں سے صرف ایک ہی فضیلت میرے اندر بھی پائی جاتی۔

ایک جنگ (تبوک) میں جاتے وقت پیغمبر صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو مدینہ میں اپنا جانشین بنادیا تھا تو انھوں نے پیغمبر صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا تھا کہ آپ نے مجھے شہر میں بچوں اور عورتوں کے ساتھ چھوڑ دیا! پیغمبر صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ” کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ تمہاری نسبت میرے ساتھ ویسی ہی ہو جو ہارون کو موسیٰ سے حاصل تھی (یعنی ان کی جانشینی اور خلافت) بس فرق اتنا سا ہے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا”۔

آپ نے جنگ خیبر میں فرمایا: کل میں پرچم اس شخص کے سپرد کروں گا جو خدا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دوست رکھتا ہوگا اور خدا اور پیغمبر بھی اس سے محبت کرتے ہوں گے اس دن ہم سب کی یہی آرزو تھی کہ یہ مقام اور منصب ہمیں مل جائے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: علی (علیہ السلام) کو بلاؤ! ان کو بلایا گیا جبکہ ان کی آنکھوں میں تکلیف تھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگایا اور آپ کی آنکھیں فوراً ٹھیک ہوگئیں اور آپ نے فوج کا علم ان کے حوالے کیا اور خدا نے ان کے سرپر قلعہ ٔ قموص کی فتح کا سہرا باندھا۔

جب مباہلہ سے متعلق قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ”فقل تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم”تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا اور کہا: ”خدایا! یہ میرے اہل بیت علیہم السلام ہیں

حضرت علی (علیہ السلام) ـ نے اس تاریخ ساز جنگ کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا : ”ہمیں جنگجوؤں، اسلحوں اور جنگی سازو سامان کے ایک پہاڑ (طوفان) سے مقابلہ کرنا پڑا، ان کے قلعہ نا قابل تسخیر اور ان کی تعداد بہت زیادہ تھی ان کے دلاور اور بہادر ہر روز قلعوں سے باہر آتے تھے، مبارز طلب کرتے تھے اور ہماری فوج کا جو شخص بھی میدان میں قدم رکھتا تھا مارا جاتا تھا جس وقت جنگ کی آگ بھڑک گئی اور دشمن نے مبارز طلب کیا ،ہمارے سپاہیوں کے ہاتھ پیر دہشت اور خوف کے مارے لرز نے لگے اور وہ ایک دوسرے کو عاجزانہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے سب نے مجھ سے آگے بڑھنے کےلئے کہا:
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی مجھ سے کہا کہ آگے بڑھو اور قلعہ پر حملہ کرو، میں نے قدم آگے بڑھایا اور ان کے جس پہلوان اور بہادر سے روبرو ہوا اس کو ہلاک کر ڈالا اور ان کے جس جنگجو نے میرا مقابلہ کرنا چاہا وہ زمین پر نظر آیا اور آخر کار وہ عقب نشینی پر مجبور ہوگئے ،اس کے بعد اس شیر کی طرح جو اپنے شکار کا پیچھا کر رہا ہو میں نے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ انھوںنے قلعے میں پناہ لے لی اور اس کے دروازے کو بند کر لیا، میں نے قلعہ کے دروازے کو اکھاڑ پھینکا اور تنہا قلعہ میں داخل ہوگیا … اس موقع پر خداوند عالم کے علاوہ میرا اور کوئی معاون و مددگار نہیں تھا۔

آخری قلعہ فتح ہونے کے بعد خیبریوںنے اپنی شکست تسلیم کرلی اور ہتھیار ڈال دئے اور جنگ تمام ہوگئی ۔ مورخین کے مطابق یہودیوں کے ٩٣ آدمی مارے گئے اور شہداء اسلام کی تعداد 13 یا 28 تھی۔

یہودیوں کا انجام

جب خیبر کے یہودیوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی تو انھوں نے اس بات کو دلیل بنا کر کہ وہ لوگ کھیتی باڑی کے ماہر ہیں، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ خواہش کی کہ وہ لوگ اپنے اس علاقہ میں اسی طرح باقی رہیں اور کھیتی باڑی کرتے رہیں۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی اس درخواست کو قبول فرما لیا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ ہر سال اپنی کھیتی باڑی اورغلہ کی آمدنی کا آدھا حصہ اسلامی حکومت کو ادا کریں گے اور جس وقت بھی آنحضرت کہیں ان لوگوں کواس ملک سے باہر جانا ہوگا. یہ معاہدہ حضرت عمر کی خلافت کے زمانہ تک اسی طرح باقی رہا مگر خلیفۂ دوم کے دور حکومت میں ان لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف پھر شورش کرنا چاہی تو حضرت عمر نے ان کو شام کی طرف جلاوطن کردیا۔

فدک
اہل خیبر کی شکست کے بعد، فدک کے یہودی کسی مقابلہ کے بغیر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے تسلیم ہوگئے اور خیبریوں کے معاہدے کی طرح، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایک معاہدہ کیا اور چونکہ فدک کسی جنگ کے بغیر فتح ہوا تھا لہٰذا اس کی آدھی آمدنی ”خالصہ” یعنی رسول خدا کی ذاتی ملکیت قرار پائی۔

عالمی روحانی تحریک
انجمن سرفروشان اسلام پاکستان