عمربِن عبدالعزیز رحمت اللّہ علیہ کے مزار مبارک کو شہید کرنے کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔۔امیر کراچی عبدالسلیم
عمربِن عبدالعزیز رحمت اللّہ علیہ کے مزار مبارک کو شہید کرنے اور اسکی بے حرمتی کرنے پر
عالمی روحانی تحریک انجمن سرفروشان اسلام پاکستان کراچی ڈویژن کے امیر عبدالسلیم گوہر کی جانب سے اظہار افسوس اور تشویش عبدالسلیم گوہر نے فرمایا اس قسم کی ناقابل تلافی حرکت کرنے والے مسلمان کہلانے کے حقدار نہیں ہوسکتے
دل کو چیر دینے والا واقعہ
حضرت عمر بن عبدالعزیز (رحمۃاللہ علیہ) خلافت کا کام کر کے اپنے گھر آئے اور آرام کرنے کے لئیے لیٹے ہی تھے کہ بیوی نے غمگین لہجے میں کہا،
یا امیر المومنین اگلے ہفتے عید آرہی ہے بچہ نئی پوشاک کے لئے بہت بے چین ہے ابھی روتے ہوئے سویا ہے،
حضرت عمر بن عبد العزیز (رحمتہ اللّٰہ علیہ) نے سر جھکا کر فرمایا، تمہیں تو معلوم ہے کہ مجھے تو صرف سو درہم ماہوار ملتے ہیں، جس میں گھر کا خرچہ بڑی مشکل سے پورا ہوتا ہے،
بیوی نے کہا، جی وہ تو میں سمھجتی ہوں آپ بیت المال سے قرض لے لیں،
حضرت عمر بن عبد العزیز (رحمتہ اللّٰہ علیہ) نے فرمایا کہ بیت المال پر تو صرف غریبوں، یتیموں، فقیروں اور بیواؤں کا حق ہے، میں تو صرف اس کا امین ہوں،
بیوی بولی، بےشک میرے سرتاج آپ کی بات سچ ہے مگر بچہ تو ناسمجھ ہے اس کے آنسو نہیں دیکھے جاتے،
حضرت عمر بن عبدالعزیز (رحمتہ اللّٰہ علیہ) بولے اگر تمھارے پاس کوئی چیز ہے تو اسے فروخت کر دو بچے کی خوشی پوری ہو جائے گی،
بیوی بولی، یاامیرالمومنین میرے تمام زیورات آپ نے بیت المال میں جمع کر ادیئے ہیں۔ بلکہ میرا قیمتی ہار بھی جو میرے والد نے مجھے تحفہ دیا تھا آپ نے وہ بھی جمع کروا دیا، اب تو میرے پاس آپ کی محبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے،
امیر المومنین نے سر جھکا لیا بڑی دیر تک سوچتے رہے،
اپنے ماضی میں جھانکنے لگے وہ بچپن جوانی خوش پوشی نفاست جو لباس ایک بار پہنا دوبارہ پہننے کاموقعہ نہ ملا جس راستے سے گزرتے خوشبوؤں سے معطر ہو جاتا،
یہ سوچتے سوچتے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگے،
بیوی نے اپنے ہر دل عزیز شوہر کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو کہنے لگی مجھے معاف کر دیں،
میری وجہ سے آپ پریشان ہو گے،
فرمایا: کوئی بات نہیں،
پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز (رحمتہ اللّٰہ علیہ) نے بیت المال کے نگران کے لئیے ایک خط لکھ کر اپنے ملازم کو دیا اور فرمایا کہ ابھی جاؤ اور یہ خط نگران کو دے کر آؤ،
اس خط میں لکھا تھا کہ مجھے ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی بھیج دو،
ملازم نے جوابی خط لا کر امیرالمومنین کو دیا جس میں لکھا تھا،
اے خلیفۃ المسلمین آپ کے حکم کی تعمیل سر آنکھوں پر لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ ایک ماہ تک زندہ رہ سکتے ہیں،
جب یہ آپ کو معلوم ہی نہیں تو پھر غریبوں کے مال کی حق تلفی کیوں پیشگی اپنی گردن پہ رکھتے ہیں،
آپ نے جواب پڑھا تو زاروزار رونے لگے اور فرمایا کہ نگران نے مجھے ہلاکت سے بچالیا۔
اگلے ہفتے دمشق کے لوگوں نے دیکھا امراء کے بچے نئے حسین کپڑے پہن کر عید گاہ جارہے تھے مگر امیر المومنین کے بچے پرانے دھلے ہوے کپڑوں میں ملبوس اپنے والد کا ہاتھ پکڑے عید گاہ جارہے تھے،
بچوں کے چہرے چاند کی طرح چمک رہے تھے کیونکہ آج ان کی نظر فانی دنیا کی وقتی خوشی پر نہیں بلکہ جنت کی ابدی تمنا کے احساس نے انہیں سر شار کر دیا تھا،
دنیا والو !! ایسے تھے ہمارے بادشاہ، اللّہ پاک ان کو مصطفیٰ کریم (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کی شفاعت نصیب فرمائے۔
آمین ثم آمین یا ربّ العالمین
انشاء اللّه آپ کا دشمن بے موت ذلیل و خوار مارا جائے گا
آمین
عالمی روحانی تحریک
انجمن سرفروشان اسلام پاکستان کراچی ڈویژن