اقتباسات

حضرت سیدنا ریاض احمد گوہر شاہی مدظلہ عالی کا خطاب اسمِ ذات کانفرنس اکتوبر 1996 ، نشتر پارک کراچی

عالمی روحانی تحریک انجمن سرفروشان اسلام پاکستان
بانی و سرپرست اعلیٰ حضرت سیدنا ریاض احمد گوہر شاہی مدظلہ عالی کا خطاب
اسمِ ذات کانفرنس
اکتوبر 1996 ، نشتر پارک کراچی

اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم

عزیز ساتھیو! السلام علیکم

شہر کراچی میں اس سے پہلے بھی کئی خطاب ہو چکے ہیں۔ ان خطابوں کا مقصد کوئی سیاست نہیں ہے۔ کسی فرقے کی دِل آزاری نہیں ہے، کوئی حکومت پر نقطہ چینی نہیں ہے، دِ ل والے ہیں جن کے لئے یہ پیغام پیش کیا جاتا رہا ہے۔ وہ سنتے رہے اور ہم سناتے رہے ۔ آج سے پندرہ سال قبل پہلا خطاب گولیمار میں ایک چھوٹے سے کمرے میں ہوا جس میں چار آدمیوں نے شرکت کری تھی۔ پھر وہ پیغام لاکھوں دِلوں کو چیرتا ہوا پوری دُنیا میں پھیل گیا۔

اب کچھ دِنوں سے یہ اشارے ہو رہے تھے۔ اس پیغام کو غیر مذاہب میں بھی عام کر دو۔ ہم سوچ رہے تھے

جب اپنے اس علم کو سمجھنے سے قاصر ہیں تو ہندو، سکھ، عیسائی ، وہ اس علم کو کیسے سمجھیں گے۔

سوچا کہیں غلط اشارے نہ ہوں کیونکہ بہت سے لوگوں کو غلط اشارے ہو چکے ہیں ۔ مرزا غلام احمد ان غلط اشاروں کی وجہ سے کافر گردانا گیا ورنہ اُس میں کافر والی کوئی اور بات نہ تھی۔

لطیف آباد (حیدرآباد میں)جمعہ کی نماز کے بعد ایک آدمی کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ لوگو! ٹھہرو، اور اعلان سنو! مجھے ابھی ابھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا ہے ”اعلان کر دے تو نبی ہے اور لوگوں کو کہو کہ یہ تمھیں نبی تسلیم کریں“ ۔ لوگوں نے سمجھایا بجھایا کہ نبی تو ایک ہی ہیں۔ آخر زمان نبی ہیں۔ اور تو کوئی نہیں ہو سکتا وہ کہنے لگا ٹھیک ہے پھر نماز کی نیت کرتا ہوں۔ اُس نے دوبارہ دو نفل پڑھے اور پھر کہنے لگا : ابھی ابھی اشارہ ہوا ہے ”ان لوگوں کو کہو کہ تو واقعی ہی نبی ہے، اگر یہ تجھ کو نہیں مانتے ہم ان کو ابھی معجزہ دکھاتے ہیں“ ۔ لوگوں نے جوتے اُٹھائے اور اُس کو مارنا شروع کر دیا۔ شاید یہی معجزہ تھا۔ کچھ دِنوں کے بعد وہ ہمیں ایک حجام کی دکان پر ملا تو پوچھا تمھاری نبوت کا کیا ہوا۔ کہنے لگا جوتے کھانے کے بعد مجھے محسوس ہو اکہ وہ شیطانی دھوکہ تھا۔ ہمیں بھی اس قسم کے کئی اشارے ہوئے اور وہ جس علم کے اشارے ہوئے وہ علم بھی ہمیں باطن میں پڑھا دیا گیا۔

شریعت کا علم، اس کا کوئی وقت نہیں ہے۔ جب داڑھی پوری ہو جائے اور پانچ نمازیں پڑھنا شروع کردے وہ شریعت ہے۔

پھر، وہ طریقت کاعلم ہے۔ یہ جو اندر کی مخلوقیں ہیں ان کو بارہ سال ان کو طاقت پہنچاتے ہیں۔ پھر اُس طاقت سے جب وہ

جسم سے نکل کر حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جاتی ہیں تو پھر وہ طریقت کا علم ہے۔ اس کے بعد پھر حقیقت کا علم ہے

کہ حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم اُن روحوں کو بذات خود تعلیم دیتے ہیں۔ اس کے بعد پھر معرفت کا علم ہے۔ کہ سات دِنوں میں اللہ کا دیدار کرایا جاتا ہے۔

ہم سوچ رہے تھے ، اگر یہ اشارے غلط ہوئے تو ہمارا حال بھی مرزا غلام احمد کی طرح ہوگا۔ اگر یہ اشارے صحیح ہوئے تو پھر شاہ منصور کی طرح ہم کو بھی سولی پر لٹکا دیا جائے گا۔ مجبور تھے ، کیا کریں ۔ آخر ہمت کری اور اُن اشاروں کے تجربات کرنا شروع کر دئیے۔ اسلامی ممالک کے علاوہ یورپ اور امریکہ یہاں کا وزٹ کیا ۔ ہندوﺅں، سکھوں، عیسائیوں کو اُس علم کا بتایا وہ کہنے لگے ”یہ علم تو ہماری کتابوں میں بھی موجود ہے ، ہمیں اس کے اشارے اپنی کتابوں میں ملتے ہیں۔ ہم تو اس کی تلاش میں تھے“۔ جب اُن کو وہ علم بتایا گیا تو اُن کے دل بھی اللہ اللہ کرنے شروع ہو گئے۔اب ہمیں یقین ہو گیا ، یہ اللہ کی طرف سے اشارہ تھا۔ کیونکہ کسی کا بھی دِل خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو بغیر اللہ کی رضا کے اللہ اللہ نہیں کر سکتا۔ پھر لوگوں نے ، جب مطمئن ہو گئے، ہمیں مندروں اور گردواروں کی دعوت دی۔ وہاں بھی جا کر ہم نے خطاب کیا ۔

حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضور پا ک صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دو علم حاصل ہوئے اک تو میں نے بتا دیا اگر دوسرا بتاﺅں تو تم مجھے قتل کر دو۔

جب ہم نے بھی اُس علم کی کچھ باتیں عوام میں پہنچائیں تو ہمارے پر بھی واجب القتل کے فتوے لگنا شروع ہو گئے۔

ہمارا عقیدہ تھا کہ جب تک کوئی کلمہ نہ پڑھے مسلمان نہیں ہو سکتا۔ مسلمان ہو گا تب اُس کا دِل اللہ اللہ کرے گا۔ وہ علم کہتا تھا اللہ ہر چیز پر قادر ہے جس کو چاہے نوازدے وہ علم کہتا ہے کہ خواہ کوئی کافر ہو کوئی بھی ہو جس کے دِل میں اللہ اللہ شروع ہوجائے گی ایک دِن وہ اللہ کی طرف جھک ہی جائے گا۔ جس جماعت کے ساتھ اللہ ، وہ بھی اُس جماعت کے ساتھ مل ہی جائے گا۔ وہ علم کیا تھا۔ اُس کےلئے بھٹ شاہ فرماتے ہیں

نماز روزہ کم سُٹو او رستہ کوئی دوجو

یہ جو انسان کا جسم بنایا گیا اس جسم کے اندر بھی کچھ مخلوقیں ڈالی گئیں، سات مخلوقیں ڈالی گئیں۔ اُن کا نام لطائف ہے۔ حدیث شریف میں باقاعدہ اُن کے نام ہیں۔ قلب، روح ،سری ،خفی، اخفیٰ ، انا ،نفس۔ کسی کا کام دیکھنے کے لئے، کسی کا کام چلنے کےلئے، کسی کا کام سونے کے لیے، کسی کا بولنے کے لئے، کسی کا سننے کےلئے۔ اک مخلوق ،جس کا کام صرف اللہ اللہ کرنے کے لئے۔ چھ مخلوقیں رحمانی تھیں اک مخلوق اس میں شیطانی آگئی جس کےلئے بلہے شاہ نے فرمایا اس نفس پلیت نے پلیت کیتا اسان منڈھوں پلیت نہ ہاسے۔ جب وہ نفس اس جسم میں آیا تو یہ جسم ناپاک ہوا۔ وہ مٹی(جس سے آدم تخلیق کئے گئے) بھی ناپاک نہیں تھی وہ باقی مخلوقیں بھی ناپاک نہیں تھیں۔ جب وہ نفس آیا پھر یہ جسم ناپاک ہوگیا۔

مجدد صاحب فرماتے ہیں ”مبتدی (ابتداءکرنے والے ) کو چاہیے کہ وہ پہلے اللہ کا ذکر کرے ، اپنا نفس پاک کرے۔ قرآن اُن لوگوں کے پڑھنے کے قابل نہیں جن کے نفس کتے ہیں“۔ فرماتے ہیں”جب نفس پاک ہو جائے ، پھر قرآن پڑھے“ ۔ اُس وقت اک لمحہ فکریہ سو سالہ عبادت سے بہتر ہے۔ اُس وقت قرآن اُس کے اندر اُترے گا۔

اس وقت بہتر فرقے ہیں، پتہ نہیں کتنے فرقے ہیں۔ حضور پا ک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کوئی فرقہ نہیں تھا۔ نہ سُنی نہ شیعہ نہ وہابی۔

حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صرف اُمتی تھے۔ حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں امتی وہ ہے جس میں نور ہے۔

حدیث شریف میں بھی ہے قیامت کے دِن اُمتوں کی پہچان نور سے ہوگی۔ اب یا تو اُمتی تھے یا وہ تھے جن میں نور نہیں تھا وہ منافق تھے ۔

جو مساجد بھی چھوڑ کر چلے گئے تھے وہ خوارج تھے۔

اب وہ جو نور ہے وہ انسان کے جسم میں کیسے آتا ہے؟ اک مسلمان ہے اک مومن ہے۔ مسلمان جو ہے وہ تسبیح سے اللہ اللہ کرتا ہے۔ جس طرح پتھر پتھر سے ٹکراتا ہے ،چنگاری اُڑتی ہے۔ اسی طرح جب اللہ اللہ سے ٹکراتا ہے تو نور بنتا ہے۔ لیکن وہ جو نور بنتا ہے و ہ انگلیوں میں، اندر تو نہیں جاتا ہے نا۔ وہ جو کام آیا تو یومِ محشر میں کام آئے گا نا، ابھی تو تمھارے کسی کام کا نہیں ہے نا۔ اسی طرح اک طرح کی تسبیح تیرے اندر چل رہی ہے۔ وہ تیرا دِل بھی ٹک ٹک کر رہا ہے۔ جب اُس دِل کی ٹک ٹک کےساتھ اللہ اللہ ملاتے ہیں تو پھر وہ جو نور ہے وہ باہر نہیں جاتا۔ سیدھا خون میں جاتا ہے نا۔ خون میں ہوتا ہوا نسوں میں چلا جاتا ہے نا۔ نسوں سے ہوتا ہوا پھر وہ نور اُن روحوں تک پہنچ جاتا ہے جو تمھارے اندر ہیں۔ پھر وہ روحیں بیدار ہو کر اللہ اللہ شروع دیتی ہیں۔ پھر تم سوتے رہو گے اللہ اللہ ہوتی رہے گی۔ قبر میں چلا جائے، وہاں بھی اللہ اللہ ہوتی رہے۔ یومِ محشر تک اللہ اللہ ہوتی رہے گی۔ جب وہ نور روحوں تک پہنچتا ہے اک سے دوسری تیسری، باری باری سب روحیں اللہ اللہ شروع کر دیتی ہیں۔ پھر یہی مسجد، یہی کعبہ، یہی گلِ گلزار جنت۔ جب نس نس میںوہ نور جاتا ہے، وہ نفس شیطان ہے وہ ناف میں بیٹھا ہواہے، وہ نور اُسکو گھیر لیتا ہے۔ وہ نور کی گرمی سے، نور کی زیادتی(کثرت) سے، وہ نفس بھی پاک ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جب وہ نفس پاک ہو جاتا ہے تو انسان مکمل ہی پاک ہوجاتا ہے۔

ہر وقت جب اللہ اللہ ہوتی رہتی ہے اللہ کا نور اس دِل میں اکٹھا ہو جاتا ہے۔ جب نور اس دِل میں اکٹھا ہو جاتا ہے ، اللہ اور تمھارے درمیان جو وسیلہ تمھارا دِل ہے یہ ایک ٹیلیفون ہے ٹیلیفون تب کام آتا ہے جب اس میں بجلی ہو، یہ( دِل ) ٹیلیفون تب کام آتا ہے جب اس میں نور ہو۔ جب اس میں نور آتا ہے پھر تمھارے اندر کا ٹیلیفون آن ہو جاتا ہے ۔پھر تم جہاں بات کروگے سیدھے اوپر، نماز پڑھو گے سیدھی اوپر، تلاوت کروگے سیدھی اوپر۔ اُس وقت نماز مومن کا معراج بن جائے گی، اُس ٹیلیفون کے ذریعے۔سورہ حجرات میں ہے ، اعراب نے کہا ہم ایمان لے آئے اللہ تعالیٰ نے کہا اِن کو کہو تم اسلام لے آئے مومن تب بنو گے جب نور تمھارے دِل میں اُترے گا۔ اب جب تمھارے دِل میںنور آیا تو تم مومن ہوگئے۔ جب یہ نور دِل میں اکٹھا ہوگا جبکہ یہ (دِل) مقنا طیس ہے اور اس سے نسبت (رکھتا) ہے۔ چھوٹی چھوٹی سوئییں پھینکو (مقناطیس) اُن کو کھنچ لیتا ہے۔ اسی طرح جب اس دِل میں نور آتا ہے پھر نماز پڑھتے ہیں اُس کا نور اندر، قرآن پڑھتے ہیں اُسکا نور بھی اندر۔

قرآن مجید میں کہیں نہیں لکھا تو نماز پڑھ ۔ یہی لکھا ہوا ہے تو نماز قائم کر۔

اگر تو نماز پڑھتا ہے، جب تو نماز پڑھتا ہے اپنے آپ کو مومن سمجھتا ہے نا۔ جب نماز چھوڑ کر چلا جاتا ہے پھر وہی ہیرا پھیری ہے۔ جب تمھارا دِ ل منور ہو جائے گا پھر نماز تمھارے اندر جائیگی نا۔ پھر تو نماز پڑھتا ہے تب بھی مومن، سوتا ہے تب بھی مومن، کاروربار میں بھی مومن ہے نا۔ جب ہر وقت اللہ اللہ ہوگی، تمھارے دِل میں بھی اللہ اُس دِل میں اللہ ۔ سارے نوری ہو گئے۔ یہ ایک نوری رشتہ قائم ہو گیا نا ۔ وہ جو خونی رشتے ہیں نا ابھی مرتضٰے بھٹو بہن کے سخت مخالف تھے بہن بھی مخالف تھی دُنیاوی لحاظ سے لیکن خونی لحاظ سے بہن ( بھائی کی موت پر)سسکیاں لے کر روئی نا۔ اسی طرح نوری رشتے آپس میں قائم ہو جاتے ہیں پھر وہ کبھی نہیں چاہتے مومن بھائی اک دوسرے کو نقصان پہنچائیں۔ قرآن مجید فرماتا ہے
ھدی المتقین

میں ہدائت کرتا ہوں پاکوں کو۔

اب جب وہ اندر سے پاک ہو جاتا ہے پھر وہ عالم (سکالر) ہے۔ پھر وہ قرآن پڑھتا ہے، قرآن اُس کے اندر جاتا ہے نا۔ اُس وقت علامہ اقبال فرماتے ہیں قاری نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں ہے قرآن۔ اب جس طرح تو قرآن کی تعظیم کرتا ہے اسی طرح اُ س (عالم ) کی تعظیم تیرے اوپر فرض ہے ۔ تو قرآن کو پیٹھ نہیں کرتا تو اُس کو کیوں پیٹھ کرتا ہے ۔ اُس کو عالمِ ربانی کہتے ہیں۔انھیں عالموں نے کافروں کو مسلمان بنایا ہے نا۔

اور جن عالموں نے بغیر پاک ہوئے نفس کی پاکیزگی کے بغیرقرآن سے ہدائت لینے کی کوشش کی وہ تو گمراہ ہوگئے نا۔ بہتر فرقے بنانے کے ذمہ دار وہی ہیں نا۔

اب اس عالم ربانی کے اندر قرآن گیا۔اب وہ (عالمِ سو) بھی عالم ہے ، وہ بھی قرآن پڑھتا رہتا ہے لیکن قرآن اُس کے اندر نہیں اُترا۔کافی عرصہ قرآن پڑھا ، آخر فتوے لگائے۔ چلو اُنھیں تو اللہ مل گیا، ہمیں نہیں ملا۔ ہم دُنیا کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ پھر اُس نے کیا کیا؟ ایک جماعت بنا لی، اُس کا ایک اسلامی نام رکھ لیا۔ قرآن کو بغلوں میں لیا پھر سیاست میں نکل پڑے۔ اُس کےلئے بلہے شاہ نے فرمایا کھا کے سار مُکر گئے جنہاں دے بغل وچ قرآن۔ صبح کہتے ہیں عورت حکومت نہیں کر سکتی شام کوکہتے ہیں عورت حکومت کر سکتی ہے۔لوگوں نے پوچھا مولوی صاحب یہ دو باتیں کیوں؟ (کہا)یہی تو سیاست ہے۔ لوگوں نے کہا دین دار لوگوں کو سیاست زیب نہیں دیتی۔

وہ کہنے لگے علامہ اقبال نے کہا جُدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔

اُنھوں (علامہ اقبال)نے کہا ہے دین اور سیاست جُدا جُدا نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے تو سیاسی لیڈروں کے لئے کہا تھا

کہ اگر تمھارے سے دین جُدا ہوگیا تو تم چنگیزی بن کر رہ جاﺅ گے۔اِنھوں نے اِس کو اپنی سیاست میں گھڑ لیا نا۔

پانچ چھ سال لوگوں کو بھی سیاست میں لگا لیا۔اگر کُرسی ملی تو مولوی صاحب کو ملی نا۔ وہ جو پانچ چھ سال لگے رہے اُن کو کیا ملا؟ اگر وہ پانچ چھ سال اللہ اللہ ہی کرتے رہتے، سخی سلطان باہو فرماتے ہیں میں کسی مدرسے میں نہیں پڑھا۔ میں نے صرف قرآن کا پہلا لفظ اللہ ہی لے لیا ہے۔ اللہ اللہ کرتا رہا۔ اللہ ہی سے میرا سینہ منور ہوگیا۔ جب حضور پاک نے چمکتا ہو ا سینہ دیکھا تو سینے سے سینہ ملایا تو سارا علم خود بخود اس میں آگیا۔ وہ جو پانچ چھ سال اللہ اللہ کا ثواب مل جاتا۔ اب وہ کہنے لگے آپ کی جماعت میں بھی گئے ۔ نمازیں بھی پڑھیں، سیاست بھی کری لیکن ہم کو اللہ تو نہیں ملا۔ مولوی صاحب نے کہا اب تم ایسا کرو اب تم جہاد کرو۔ یہ جہاد کیا ہوتا ہے؟ وہ بشر کہتے ہیں حضور پاک کو، وہ نور کہتے ہیں حضور پاک کو۔جاﺅ اب تم اُن کو مارو ، وہ تم کو ماریں گے۔ یہی جہاد ہے نا۔ اب یہ فرقہ واریت ایسے ہی مولویوں کی پیداوار ہے نا۔ حکومت کوشش کرتی ہے کہ فرقہ واریت ختم ہوجائے۔کس طرح ختم ہوجائے؟ وہ جماعتیں بھی گئیں۔ وہ مولویوں کے اندر نفس ، وہ بھی اُسی طرح کافر موجو د ہے وہ کس طرح ایک ہو جائیں۔ ہاں سیاست ، کرُسی کے لئے ایک ہو سکتے ہیں لیکن اللہ کے لئے کبھی بھی ایک نہیں ہو سکتے۔

اُن کے لئے یہی ہے کہ کوئی حضرت علی جیسا امیر المومنین آجائے۔ اُنھوں نے ایسے ہی پانچ ہزار عابدوں زاہدوں کو قتل کرا دیا تھا
اور جو بچے تھے اُنھیں حضرت حسن بصری کی صحبت میں بھیج دیا تھا۔ جاﺅ اُن سے تعلیم حاصل کرو، اُن کی صحبت میں رہو تاکہ تمھارے نفس پاک ہوں۔ جب اُن کے نفس پاک ہوئے اُس وقت وہ عمامہ جُبے دستار پہننے کے قابل ہوئے
نفس پاک ہونے کے بعد وہ منبرِ حضور کے قابل ہوئے۔ اُنھوں نے نمازیں پڑھائیں۔

یہ نفس دو طرح سے پاک ہوتے ہیں۔ یا تو جس طرح ہمارے داتا صاحب ، خواجہ صاحب جنگلوں میں چلے گئے، باقی ولی بھی جنگلوں میں چلے گئے۔جب یہ نفس پاک ہوئے تب دُنیا میں آئے، پھر دُنیا کے لئے مستفیض ہوئے۔ یہ کام تو یہ لوگ نہیں کر سکتے۔ یا کسی ولی کی صحبت میں رہیں۔ اُسکی نظروں میں رہیں۔ تب بھی یہ نفس پاک ہو جاتا ہے۔ جس طرح بہاﺅالدین نقش بندی امیر کلال کی خدمت میں رہے۔اور مولانا روم شاہ شمس کی غلامی میں رہے۔ اُن غلامیوں اور خدمتوں سے اُنکے نفس پاک ہوئے ۔ بہت بڑے ولی ہوئے تو
مولانا روم نے کہا مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم تا غلام شمس تبریزی نہ شد۔

مولوی اُس وقت تک مولانا روم نہیں بن سکتا جب تک کسی شمس تبریز کی غلامی

میں نہ آئے۔

ہمیں لوگوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے جو عالمِ حق ہیں، ربانی ہیں، جن کے اندر نور ہے ہم اُن کے خادم ہیں۔ جو نور سے دور ہیں، جن کے اندر شیطان ہے، ہمارا اُن سے جہاد ہے۔ اُن کے لئے حضور پاکﷺ نے بھی فرمایا: جاہل عالم سے ڈرو اور بچو۔ صحابہ نے پوچھا عالم بھی اور جاہل بھی ؟آپ نے فرمایا جس کی زبان عالم دِل سیاہ یعنی جاہل ۔ اگر تم ان کے نزدیک جاﺅ گے یہ تمھیں فرقوں میں مبتلا کردیں گے۔

جب تمھارے دِلوں میں اللہ اللہ شروع ہوجائیگی ، تمھارے دِلوں میں اللہ کا نور آجائے گا۔ جب پھر تم امام مہدی علیہ السلام کے سامنے جاﺅ گے تو تمھارا نور، نور سے واصل ہو جائیگا ۔ اب تھوڑے بہت اور راز ہیں۔ راز تو بہت سے ہیں لیکن تھوڑے تھوڑے کھولنا چاہتے ہیںہم ۔ جب اس کے اندر نور آجاتا ہے، یہ مومن ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر ولائت شروع ہو تی ہے۔ ولائت کیا ہے؟ تم نے دیکھا ہوگا ، رات کو سوتے ہو، خواب میں کسی دوسرے شہر میں گھومتے ہو۔ وہ تم نہیں ہوتے تمھارے اندر کی مخلوق ہوتی ہے نا۔ وہ تمھارا نفس ہے۔ وہ بچپن ہی سے شیطانی غذا کی وجہ سے طاقتور ہے نا۔ تم سو جاتے ہو وہ شیطانوں میں گھومتا رہتا ہے۔ باقی جو مخلوقیں ہیں جب اُن کو نور کی غذا ملتی ہے، نور کی غذا سے طاقت پکڑتی ہیں۔ اور پھروہ بھی سینوں سے نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ وہ شیطان نفس شیطانوں میں جاتا ہے۔ پھر جب یہ چیزیں، روحیں نکلتی ہیں رحمانی ہو کر رحمانیوں میں جاتی ہیں نا۔ سب سے پہلے یہ حضور پاک کے قدموں میں جا کر گرتی ہیں نا۔

اُس وقت بلہے شاہ فرماتے ہیں
لوکی پنچ ویلےعاشق ہر ویلے
لوکی مسیتی عاشق قدماں۔

جو لوگ پانچ وقت رب کی یاد کرتے ہیں۔ نماز بھی رب کی یا د ہے ، اُن کی انتہا مسجد ہے۔جو لوگ اس کے ساتھ اللہ اللہ کرتے ہیں وہ تو حضور پاکﷺ کے قدموں میں پہنچ جاتے ہیں نا۔ جب قدموں میں پہنچ جاتے ہیں ، اس سے پہلے شریعت ِ محمدی ہے۔ مومن تک شریعت محمدی ہے۔ اس کے بعد شریعت احمدی شروع ہو جاتی ہے نا۔ تم نے ضرور شریعت ِ احمدی کا نام سُنا ہوگا۔ اُس کی جو نماز ہوتی ہے نا وہ روحانی نماز ہوتی ہے۔

حضور پاک کا جو جسم مبارک ہے اُس کا نام محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم ، آپ کی جو روح

مبارک ہے اُس کا نام احمد ہے

اور آپ کا جولطیفہ اخفی ہے جس سے آپ بولتے ہیں اُس کا نام حامد ہے اور

آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا لطیفہ انا مخلوق جو دماغ والی ہے جس سے آپ نے دیدار کیا ہے

اُس کا نام محمود ہے۔

جب حضور پا ک شب ِ معراج میں گئے تو شبِ معراج میں جانے سے پہلے آپ نے بیت المقدس میں سب نبیوں ولیوں کی روحوں کو نماز پڑھائی تھی۔ جب آپ اوپر گئے ، اُس سے پہلے آپ نے نماز پڑھائی تھی نا۔ اوپر گئے تو کون سی نماز ملی ؟ وہ اوپر جا کرجو نماز ملی وہ ان نفسانی لوگوں کے لئے تھی۔ وہ جو نماز پڑھا کے گئے تھے وہ ان پاک لوگوں کے لئے تھی۔ اُس نماز میں آدم علیہ السلام بھی موجود تھے چھ ہزار سال ہو گئے تھے اُنہیں گزرے ہوئے۔

جب تمھاری روح پا ک ہو جاتی ہے، حضور پاک کے قدموں میں پہنچ جاتی ہے پھر اُس روح کو بھی وہ نماز میسر ہو جاتی ہے۔ پھر وہ نماز اُس وقت بھی تھی اور قیامت تک ہوتی رہے گی۔ وہ نماز حضور پاک اب بھی پڑھاتے ہیں۔ اُس وقت تک سر نہیں اُٹھاتے ہیں جب تلک اللہ جواب نہ دے، لبیک یا عبدی۔ جب حضور پا ک کے پیچھے نماز پڑھنا شروع ہو جاتا ہے وہ ولائت ہے چھوٹی ولائت ہے۔

اب تو تعویزوں والے، ِ استخارہ والے بھی ولی بن گئے لیکن حضور پاک کے پیچھے جو نماز پڑھتا ہے

اللہ جواب دیتا ہے ، لبیک یا عبدی۔ یہ ایک چھوٹی سی ولائت ہے۔

اس کے بعد پھر کیا ہوتا ہے کہ وہ جو مخلوقیں ہیں، ان میں اک مخلوق جس کانام لطیفہ انّا ہے، وہ قلب والی مخلوق حضور پاکﷺ کے پاس پہنچی اور یہ انا سیدھا اللہ کے پاس جاتا ہے۔ فرشتے روکتے ہیں نہیں رُکتا۔ کہتے ہیں جو کچھ بھی ہے بیت المعمور سے آگے جل جائے گا کہ بیت المعمور سے آگے فرشتے بھی نہیں جا سکتے۔ اور یہ بیت المعمور سے بھی آگے چلا جاتا ہے۔ وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں رب کی ذات ہے۔ظاہری جسم سے حضور پا کﷺ وہاں پہنچے اور ان مخلوقوں کے ذریعے ولی وہاں پہنچتے ہیں۔ جب کوئی ولی وہاں پہنچ جاتا ہے پھر اک دوسرے کو بڑے پیار سے دیکھتے ہیں، بڑے دور سے آیا ہے بڑا سفر کر کے آیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں تجھے دیکھ لوں تو مجھے دیکھ لے۔ اک دوسرے کو پیار سے دیکھتے ہیں۔ پھر وہ جو اللہ کا نقشہ ہے وہ اُس کے دل میں درج ہو جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کہتا ہے اب تو نیچے چلا جا، اب جو تجھے دیکھ لے وہ مجھے دیکھ لے۔ اب اُس کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔

اُس کے لئے سخی سلطان باہو نے فرمایا ہے:
مُرشد کا دیدار باہو مینوں لکھ کروڑاں حجاں ھو۔

اَب وہ شخص ہے جو ولی اللہ ہے۔ولی اللہ کا مطلب ہے اللہ کو دیکھے اور اُس سے باتیں کرے۔ اللہ کا دوست ہے۔

وہ ولی اللہ ہے نا۔ آج ہمارے ملک میں ہزاروں لوگ ولی اللہ بنے ہوئے ہیں۔ بغیر دیکھے اور بغیر باتیں کئے ۔

ایسے لوگوں کی محبت ایک کتے کو حضرت قطمیر بنا دیتی ہے اور ایسے لوگوں سے دشمنی بلیم باعور، بہت بڑے عابد کو اصحاب ِ کہف کے کتے کی شکل میں دوزخ میں لے جائے گی۔

بہت سے ولی یہیں آکے رُک جاتے ہیں ۔ یہ فنا فی اللہ کا سٹیج ہے۔ پھر جب یہاں رُکتے ہیں توکچھ خاص ولی ہوتے ہیں وہ اس سے آگے بھی جاتے ہیں
وہ جو اس سے آگے جاتے ہیں اُس کوحضور پا ک نے فرمایا۔ تو وہ ایک تیسرا علم ہے۔ پھر وہ آگے تک جاتے ہیں۔ پھر دیکھتے ہیں

کہ جن کے لئے شیعہ حضرات کہہ رہے تھے ، کب سے شور مچا رہے تھے کہ چالیس پارے ہیں۔ پھرجب وہ ولی اُس سے آگے جاتا ہے
پھر وہ دس پارے اُسکو ٹکراتے ہیں۔ پھرجب دس پارے ٹکراتے ہیں۔ پھر یہ قرآن مجید اور، اور وہ پارے کچھ اور۔

وہ کچھ اور بتاتا ہے تویہ کچھ اور بتا تے ہیں۔”یہ قرآن مجید فرماتا ہے اُٹھتے بیٹھتے حتیٰ کہ لیٹے لیٹے میرا ذکر کر۔ وہ پارے کہتے ہیں اپنا وقت ضائع نہ کر ۔ اُسی کو دیکھ لے نا اُس کی یا د آئے تو۔

یہ قرآن مجید فرماتا ہے نماز پڑھ ورنہ گنہگار ہو جائے گا۔ وہ کہتے ہیں اگر تو نے نماز پڑھی تو گنہگار ہو جائے گا۔

تو پوچھا کہ یہ کیسے؟ تو کہنے لگے فرض کیا تو رب کے دیدار میں ہے۔ رب سے باتیں کر رہا ہے نماز کا وقت آیا، رب کے دیدار کو چھوڑ کر نماز پڑھی تو گناہ ہی کیا نا! اُنھوں نے کہا جب نماز کا وقت آئے بس اُس کو دیکھ لے جسکی نماز ہے۔

ایک واقعہ ہے : ایک دفعہ مجدد الف ثانی مسجد میں گئے، دیکھا مسجد میں ایک آدمی سو رہا ہے۔آپ پھر نماز کے لئے گئے ، دیکھا سو رہا ہے۔آپ سمجھے نماز پڑھ کر سویا ہوگا۔ آپ عصر سے مغرب تک مسجد میں رہتے، مغرب کی اذان ہو رہی ہے، وہ سو رہا ہے۔ آپ نے اُس کو جھنجھوڑا ۔ بولے یا تومسجد سے نکل جا یا نماز پڑھ ۔وہ فوراً اُٹھا وضو کیا۔ نماز کھڑی ہونے والی تھی۔ بلند آواز سے کہا امام صاحب ٹھہر جائیں ۔ امام صاحب ٹھہر گئے ۔ اُس نے فوراً نیت کی دو رکعت سنت وقت فجر۔ لوگ دیکھتے ہیں ، فجر کا سماں ہوگیا۔ پھر ظہر کی نماز پڑھی ، ظہر کا سماں ہو گیا۔ پھر عصر کی نماز پڑھی ، اک راوی لکھتا ہے سورج واپس لوٹ آیا۔ اُس وقت اُس نے کہا مجدد صاحب! آپ تو صاحبِ نظر تھے ۔ بہتر تھا مجھے جگانے سے پہلے میرا حال دیکھ لیتے ۔ میں تو اُسی کے پاس تھا جسکی تم نمازیں پڑھتے ہو۔

پھر قرآن نے کہا ، کہ ذرا بھی پانی پیے گا تیرا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ اُس نے کہا دِن رات کھاتا پیتا رہے، تیرا روزہ کبھی نہیں ٹوٹے گا۔

پوچھا کس طرح؟ یہ روزے نفس پاک کرنے کے لیے ہوتے ہیں جب تیرا نفس پاک ہو جائے تو کھا پی یا نہ کھا تو سدا بہار روزے دار ہی ہے نا۔ اس کا بھی ایک واقعہ تھا۔ایک فقیر دریا کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اُس نے کچھ کھیر پکائی اُ س نے بیوی سے کہا دریا کے دوسرے طرف جو فقیر ہے اُس کو کھیر دے آ۔ وہ کہنے لگی بیچ میں پانی ہے میں کیسے جاﺅں گی۔ اُس نے کہا تم دریا سے کہنا مجھے اُس شخص نے بھیجا ہے جس نے بارہ سال تک اپنی بیوی کو ہاتھ نہیں لگایا۔ وہ تجھے راستہ دے دے گا۔ اُس نے کہا ابھی تین ماہ ہوئے بچی ہوئی ہے، یہ تو کیا کہہ رہا ہے۔اُس نے کہا جو میں نے کہا ٹھیک کہاجب بیوی دریا کے پاس گئی وہی الفاظ کہے ۔پانی اپنی جگہ سے ہٹ گیا۔دوسرے کنارے گئی پانی پھر چل پڑا ۔ اَب اُس فقیر کو کھیر دی۔ اُس فقیر نے کھیر کھائی ۔ اَب کہنے لگی میں واپس کیسے جاﺅں۔کہا کہ دریا کو یہ کہنا میں اُس کے پاس آرہی ہوں جس نے بارہ سال تک کچھ نہیں کھایا۔ کہنے لگی تونے ابھی میرے سامنے کھیر کھائی ۔ اُنھوں نے کہا تو اس بات کو چھوڑ دو۔ جب اُس نے دریا کو یہ الفاظ کہے پانی اپنی جگہ سے ہٹ گیا۔ وہ جب واپس خاوند کے پاس آئی ۔ کہا میں بڑی متعجب ہوں۔ تونے کہا میں نے بارہ سال تک بیوی کو ہاتھ نہیں لگایا۔ جب کہ تین مہنے ہوگئے بچی کو۔وہ کہتا ہے بارہ سال تک کچھ نہیں کھایا جب کہ میرے سامنے اُس نے کھیر کھائی۔ لیکن یہ بات سمجھ نہیں آئی تمھارے جھوٹوں میں اتنی تاثیر ہے ۔اُس نے کہا نہں! در اصل بات یہ ہے کہ میں بارہ سال ہوگئے نفس کی خاطر تجھے ہاتھ نہیں لگایا۔ صرف فرض سمجھ کر ہاتھ لگاتا تھا۔ اور وہ جو تھا اُس نے بھی بارہ سال تک نفس کی خاطر نہیں کھایا تھا۔ صرف زندہ رہنے کے لئے کھاتا رہا۔ جس طرح حضور غوث پا ک رضی اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ تم جیتے ہو کھانے کے لیے ہم کھاتے ہیں زندہ رہنے کے لئے ۔ تاکہ کچھ کھائیں اور اللہ کے فرائض ادا کرسکیں۔ آگے پھر حج آگیا ہے۔

یہ قرآن فرماتا ہے طاقت ہے تو حج پر ضرور جا۔ اُنھوں نے کہا کعبے ول اوہی جاندے جہڑے کم دے ہوندے چوچی۔

وہ کہتے ہیں کہ تو تو اشرف المخلوقات ہے ۔ اُس کو تو ابراہیم علیہ السلام نے گارے اور مٹی سے بنایا ہے۔ تجھے تو اللہ کے نورسے بنایا ہے ۔ تو اُس کعبے کی طرف کیوں جاتاہے۔ وہ کعبہ تیری طرف آئے نا۔ اسی بات کے او پر شاہ منصور کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔ بایزید بسطامی صاحب فرماتے ہیں: اک عرصے سے میں کعبے کا طواف کرتا رہا جب میں نے اللہ کو پا لیا اب کعبہ میرا طواف کرنا شروع ہوگیا۔ سخی سلطان باہو سے کسی نے پوچھا ، آپ کعبے میں کیوں نہیں جاتے حج کرنے کیوں نہیں جاتے؟ کہنے لگے کعبہ ادھر ہی گھومتارہتا ہے۔ اور وہی کعبہ رابعہ بصری کے طواف کرنے کو آیا تھا۔

یہ قرآن کہتا ہے کہ زکوة دے، ڈھائی پرسنٹ زکوة دے، وہ کہتا ہے ڈھائی پرسنٹ پاس رکھ ساڑے ستانوے پرسنٹ دے۔

اس قرآن سے پوچھا اللہ کدھر ہے کہنے لگا بہت دور ہے۔ بس نمازیں روزہ پڑھتا رہ۔ اُس کا دیدار بڑا مشکل ہے ،بہت ہی دور رہتا ہے۔

جب اُن پاروں سے پوچھا کہنے لگے اللہ تعالیٰ اسی دُنیا میں کھومتا رہتا ہے۔ وہ کبھی خواجہ کے روپ میں تو کبھی داتا کے روپ میں

وہ تو اسی دُنیا میں گھومتا رہتا ہے۔ وہ کہتے ہیں تم نے یہ حدیث نہیں پڑھی یہ اللہ تعالیٰ کی حدیث قدسی ہے

کہ میں بندے کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ، میں زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے۔

اب جواس علم کی ابتداءہے ۔ یہ تو انتہا ہے۔ یہ جو خُدا کا دیدار کر لیتے ہیں اُس کے بعد جو علم ملتا ہے یہ اُس علم کی بات ہے۔ اب اس علم کی ابتداءہے اک لکھ چوبیس ہزار نبی صفاتی اسماء والے مل کر بھی اسم ِ ذات والے کو نہیں پہنچ سکے ۔کیونکہ موسیٰ علیہ السلام یا رحمٰن ، عیسی علیہ السلام یا قدوس، سلیمان علیہ السلام یا وہاب ، داﺅد علیہ السلام یا ودودُ اور باقی نبی اپنے اولولعزم مُرسل کا کلمہ پڑھتے رہے۔

اک دِن موسیٰ علیہ السلام نے کہا : اے اللہ دیدار دے۔ جواب آیا تاب نہیں ہے۔ کہنے لگے کسی میں تاب ہوگی؟ جواب آیا اک میرا حبیب اور اُسکی اُمت۔

موسیٰ علیہ السلام کو جلال آگیا، میں نبی ہو کر بھی اُمتی کے برابر نہیں؟ جلوہ دے دیکھی جائے گی۔ جب جلوہ پڑا موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے۔

اب کیا وجہ ہے موسیٰ علیہ السلام اس دُنیا میں کوہِ طور پر بے ہوش ہوئے اور حضور پاک سامنے جا کر مسکر ا رہے ہیں؟ موسیٰ علیہ السلام
کے جسم میں یا رحمن کا صفاتی نور تھاتو ذات کی تا ب نہ لا سکے اور حضور پاک کے جسم مبارک میں اسم ذات کا ذاتی نور تھا۔ ذات، ذات کے سامنے مسکرائی۔وہ حضور پاک کے طفیل یہ اسم اس اُمت کو ملا ، تب اس کو فضیلت ہوئی۔اور اُمت اس اسم سے ڈرتی ہے۔

حدیث شریف میں ہے قیامت کو امتوں کی پہچان نور سے ہو گی۔ یہ یا رحمن کے نور سے چمک رہے تھے موسیٰ علیہ السلام کی اُمت۔ یا ودود سے چمک رہے ہیں داﺅد علیہ السلام کی امت اور یہ جو اللہ ھو سے چمک رہے ہیں یہی حضور پاک کی اُمت ہے یہ تمھار ا نشان ہے۔ ظاہری حساب سے بھی جو چیز زبان میں ہو، دِل میں ہو وہ سچا ہے۔ زبان میں اور دِل میں اور ، وہ منافقت ہے۔ اگر اللہ کے ساتھ بھی زبان اور ہے، میں اور دِل میں اور ہے وہ بہت بڑا منافق ہے۔ یقین کریں ذکر قلبی کے بغیر آپ کی نماز نہیں ہوتی۔

آپ کو شکائت ہے میں اتنی نمازیں پڑھتا ہوں میری دُعا قبول نہیں ہوتی۔ کیوں دُعا قبول ہو؟ نماز قبول ہو تو دعا قبول ہو۔

لیکن اُس سے آگے ایک اور حدیث ہے: لا صلواة الا بحضور قلب دِل کی حاضری کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی۔ یہ اُس نماز کا پوچھا جائے گا جس کے ساتھ دِل شامل ہے۔ نمازیں تین قسم کی ہیں۔ نماز صورت ہے،نماز حقیقت ہے، نمازِ عشق ہے۔ نماز صورت ہر فرقے والا پڑھتا ہے۔ یہ کوئی کمال نہیں ہے۔ یہ نماز دکھاوا ہی ہے۔ اس کے لئے نماز کہتی ہے ۔قُل ھو اللہ احد اور دِل کہتا ہے گھر میں آٹا نہیں ہے۔ اللہ الصمد دِل کہتا ہے بیوی بیمار ہے، لم یلد ولم یولد دِل کہتا ہے ڈیوٹی سے لیٹ ہوگیا ، چل۔ یہ نماز صور ت ہے ۔

مجدد صاحب فرماتے ہیں: ہر آدمی کی نماز صورت ، خاصانِ خُدا کی نماز حقیقت۔ فرماتے ہیں ہر آدمی کو چاہیے نماز حقیقت تلاش کرے۔

اب نماز حقیقت کیا ہے؟ نماز صورت مسلمان پڑھتا ہے، نماز حقیقت مومن پڑھتا ہے اور نماز ِ حقیقت کے لئے تمہیں سب سے پہلے اللہ اللہ سیکھنا ہوگا۔ یہ تمھارے قرآن کا پہلا لفظ ہے۔ الف سے اللہ اللہ کر، اگر اس کی جلالیت سے ڈرتا ہے، ل سے لا الہ الااللہ پڑھ ۔اگر اس کی بھی توفیق نہں ہے۔ م سے محمد رسول اللہ پڑھتا رہ۔ اسی سے ہی پا لے گا۔ ورنہ کتا ب میں لگا رہے۔ پتہ نہں یہ کتا ب تجھے گمراہ کرے یا ہدائت دے۔

یہ تمھارا پہلا رُکن بھی ہے۔ پہلا رکن کلمہ ، حدیث شریف: افصل الذکر کلمہ طیب ۔

اور قرآن فرماتا ہے، اُٹھتے بیٹھتے حتیٰ کہ کروٹوں کے بل میرا ذکر کر۔ خرید و فروخت میں بھی مجھ سے غافل نہ ہو۔

یہ تمھاری پہلی سُنت بھی ہے۔ حضور پاک غار ِ حرا میں جاکے کیا کرتے تھے۔ اُس وقت نمازیں تھیں ہی نہیں نا۔ وہ ذکر الٰہی کرتے تھے۔ پھر وہ مسلمان بنے، جب مسلمان بنے نمازیں اُس وقت بھی نہیں تھیں۔ نمازیں تو بعد میں اُتریں نا۔ اُس وقت لوگ کیا کیا کرتے تھے؟ وہ ہر وقت ذکر الٰہی کیا کرتے تھے۔ ذکر الٰہی سے ہی اُن کے سینے منور ہو گئے۔ پھر جب نمازیں اُتریں حلقوں میں نہیں اٹکیں، سیدھی سینوں میں گئیں نا۔ یہ تمھار پہلا رُکن ہے۔ جب تمھارے دِل میں اللہ اللہ شروع ہو جائے گی۔ پھر تم کوشش کروگے میں کام کاج کرتا رہوں ، اللہ اللہ ہوتی رہے۔ اسکو بولتے ہیں دست کار میں دِل یا رمیں۔ پھر کوشش کروگے اخبار رسالہ پڑھتا رہوں اللہ اللہ ہوتی رہے ۔ کامیابی ہو جائے گی۔ پھر کوشش کروگے نماز پڑھتا رہوں اللہ اللہ ہوتی رہے ۔اُس وقت زبان کہے گی قل ھو اللہ احد ۔ دِل کہے گا اللہ ہی اللہ ۔ اللہ الصمد دِل کہے گا اللہ ہی اللہ۔ لم یلد ولم یولد دِل کہے گا اللہ ہی اللہ۔ اب جو زبان میں ہے وہ دِل میں۔ زبان اقرار کر رہی ہے دِل تصدیق کر رہاہے۔ زبان ذکر مفصل میں ہے ، دِ ل ذکر مجمل میں ہے۔ زبان دلیل سے منوا رہی ہے اور دِل بغیر دلیل کے مان رہا ہے۔ اللہ ہی اللہ ۔زبان کا تصر ف ہے یہاں سے بولتے ہو امریکہ والے سُنتے ہیں اور دِل کا تصرف ہے یہاں گونجتا ہے اور عرشِ معلی والے سُنتے ہیں۔ تمھاری اس نماز کو یہ عرشِ معلی تک پہنچائے گا نا۔ یہ نماز مومن کا معراج ہے نا۔ آئے دِن یہی وعظ سنتے رہتے ہیں جس میں اللہ رسول کی محبت نہیں اُسکا ایمان مکمل نہیں۔ صرف تقریریں ہی سُنتے ہیں نا۔ دوائی کا پتہ بتاتے ہیں، دوائی تو نہیں دیتے نا۔ کب سے سُنتے آ رہے ہیں لیکن اُس دِل میںاللہ رسول کی محبت تو پیدا نہیں ہوئی نا۔

یہ لوگ خوامخواہ زبان سے جو محبت کر تے ہیں یہ مکار ہیں۔ محبت کا تعلق زبان سے نہیں محبت کا تعلق دِل سے ہے۔

محبت کی نہیں جاتی محبت ہو جاتی ہے۔

زبان سے کہتے ہیں ہمیں محبت ہے اوردِل میں تو وہ شیطان ہے۔ تو شیطان کیسے نکلے گا؟ ہم کہتے ہیں آپ کے دِل میں شیطان ہے۔ آپ کہتے ہیں میں نمازیں پڑھتا ہوں میرے دِل میںشیطان کا کیا کام؟

اور ہم کہتے ہیں کہ تو نماز پڑھتا ہے اُس وقت تیرے دِل میں وسوسے کیوں آتے ہیں؟ وہ دِل میں شیطان ہے تبھی
وسوسے آتے ہیں نا۔

اب تم تجربہ کرو۔ تم نماز پڑھ رہے ہو وسوسے آ رہے ہیں۔ شیطان ہے دِل میں، اندر۔ لیکن اگر ذکر کے حلقے میں بیٹھ کر اللہ ھو کی ضربیں لگاﺅ ، کوئی وسوسہ نہیں آئے گا۔ اُلٹا مستی آئے گی نا۔ لیکن جب حلقہ چھوڑو گے تو پھر وہ شیطان، اگر وہی حلقہ تمھارے اندر قائم ہو جائے ، چوبیس گھنٹے اللہ کی مستی میں رہو نا۔ پھر چوبیس گھنٹے تم شیطان سے محفوظ رہو نا۔

ایک دفعہ حضرت ابو بکر صدیق نے حضور پاکﷺ کو فرمایاکہ میں جب نماز پڑھتا ہوں تو مجھے نماز میں وسوسے آتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ، تم کو دو طرح کا ثواب مل رہا ہے۔ اک نماز پڑھنے کا اور اک جہاد کرنے کا۔ کہ جہاد کرنے کا کیسا؟ فرمایا جب تمھارے اندر وہ شیطانی وسوسے آتے ہیں وہ جو تمھارے اندر اللہ اللہ ہو رہی ہے وہ اُن کو باہر نکالتی ہے نا۔ پھر وہ شیطانی وسوسے آتے ہیں ۔پھر وہ اللہ اللہ اُنکو باہر نکالتی ہے یہی تو جہاد ہے نا۔ اگر وہ وسوسے تمھارے دِل پہ بیٹھ جائیں تو پھر یہ جہاد نہیں پھر یہ شکست ہے نا۔

اب زبان سے کہتے ہیں سارے ، محبت ہے۔ دِل میں تو شیطان ہے۔ جب کہ محبت کا تعلق دِل سے ہے۔ جب تک دِل سے شیطان نہیں نکلے گا۔ کسی بھی ولی نبی کی محبت دِل میں نہیں آسکتی نا۔ سب سے پہلے اُس دِل سے شیطان کو نکالو۔ بایزید بسامی جوانی کے دِنوں میں جنگلوں میں چلے گئے۔ جب باقی ورد و وظائف کرتے توشیطان کونے میں کھڑا دیکھتا رہتا۔ لیکن جب اللہ ھو کی ضربیں لگاتے ، دِل میں اللہ کو بسانے کی کوشش کرتے، تو شیطان کئی بار اُن کو ستاتا۔ ایک دِن اُنھوں نے ڈنڈا لیا اُس کے پیچھے بھاگے ۔ روشن ضمیر تھے، آواز آئی اے بایزید! یہ ڈنڈوں سے نہیں مرتا۔ یہ اللہ کے نور سے جلتا ہے ۔ تو اتنا ذکر کر، اتنا ذکر کر کہ نور علٰی نور ہو جائے۔ جب بایزید بسطامی نور علیٰ نور ہوئے تو شہر بسطام سے جادوگر ہی چلے گئے کہ اب ہمارا عمل اثر نہیں کرتا۔ جب ہر وقت اللہ اللہ شروع ہو جائے گی۔

ہروقت اللہ اللہ شروع ہوجائیگی اِس دِل میں اللہ کی محبت پیدا ہو جائیگی۔ محبت کی نہیں جاتی محبت ہو جاتی ہے۔

اللہ اللہ یا کوئی چیز بھی دِل میں آجائے اُس سے محبت ہو جاتی ہے۔

جب اللہ کی محبت ہوجائیگی توپھر اللہ تعالیٰ کسی کا احسان لیتا نہیں ہے۔ اُس کے لئے اک نیکی کر و دس نیکیوں کا ثواب، اک روپیہ خرچ کرو دس روپے لوٹا کے دیتا ہے۔ تھوڑی سی محبت کرو دس گنا زیادہ محبت کرتا ہے نا۔ پھر جن لوگوں سے محبت کرتا ہے اُن کو دیکھتا بھی ہے نا۔ وہ سرسری طریقے سے نہیں دیکھتا۔ پھر بڑے پیار سے دیکھتا ہے۔ اور جس دِن اللہ نے پیار سے دیکھا، توپھر وہ محبت بھی گئی پھرعشق آگیانا۔ پھر میں تیرا اور تو میرا۔ اُس وقت علامہ اقبال فرماتے ہیں

گر ہو عشق تو کفر بھی ہے مسلمانی

اگر تیرے اندر اللہ کا عشق آگیا تو کفر بھی مسلمانی ہے ۔ اگر تیرے اندر عشق نہیں ہے، کہتے ہیں تو پھر مسلم بھی ہے کافر و زندیق۔ آج مسلمان خود ہی ایک دوسرے کو کافر و زندیق کہہ رہے ہیں۔ جب اس دِل میں اللہ کی محبت آتی ہے تو پھر جن لوگوں سے اللہ کی محبت کا تعلق ہے پھر اُن کی بھی محبت آجاتی ہے نا۔ اُس وقت حضور پاک کی محبت آجائے اصحابہ کی محبت آجائے۔کسی کی ، حضرت علی رضی اللہ تعالٰی کی محبت آجاتی ہے،کسی کی بھی محبت آجائے تو پھر یہی محبت جس نے اصحابِ کہف کے کتے کو حضرت قظمیر بنا دیا۔

اب ، جب کسی کو طلب ہوتی ہے اللہ کی۔ تو تسبیح لے کر بیٹھ جاتا ہے۔ لیکن اللہ کو اپنے اندر جذب کرنا ہے۔ لوگوں کو جذب کرنے کا طریقہ نہیں آتا ہے وہ تسبیح سے اللہ اللہ پڑھتے ہیں، نور بنتا ہے باہر ہی جاتا ہے نا۔ وہ زبان سے اللہ اللہ کرتے ہیں۔وہ جو نور جاتا ہے باہر ہی جاتا ہے نا۔ اللہ ھو سانس سے پڑھتے ہیں، وہ بھی نور باہر ہی جاتا ہے نا۔ اندر تو نہیں ٹھہرتا ہے نا۔

جب تک اللہ کو اندر جذب نہ کیا جائے بات نہیں بنتی ۔

اب وہ اللہ جذب کیسے ہوتا ہے؟ انسان کے اندر اللہ کیسے آتا ہے

اس کو روزانہ کاغذ کے اوپر چھیاسٹھ مرتبہ اللہ لکھتے ہیں۔ تھوڑے دِن لکھتے ہیں پھر جو کاغذ پر لکھتے ہیں ایک دِن وہ آنکھوں میں تیرنا شروع ہو جاتا ہے۔ تو دوسرا طریقہ ایسا ہے کہ زیرو کے بلب کے او پر پیلے رنگ سے اللہ لکھتے ہیں، جب سونے لگتے ہیں تو اُس کو دیکھتے رہتے ہیں۔ اور ایک دِن وہی اللہ اُن کی آنکھوں میں آجاتا ہے۔ جب آنکھوں میں آجاتا ہے۔ تو پھر لکھنا دیکھنا بند کر دیتے ہیں پھر آنکھوں سے اُس کو دِل کے اوپر اُتارتے ہیں۔ پھر وہی جو کاغذ پر لکھتے تھے ایک دِن دِل پر لکھا نظر آتا ہے۔ پولیس کی مہر لگی پولیس والا، اللہ لکھا گیا اللہ والا۔ جب وہ اللہ اس دِل پرلکھا جاتا ہے، اُس وقت اِس دِل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔ ٹک ٹک ٹک۔ پھر اُس ٹک ٹک کے ساتھ اللہ ھوملاتے ہیں۔ اک ٹک کے ساتھ اللہ اک ٹک کے ساتھ ھو۔ گھڑی گھڑی اس طرح کرتے ہیں تو دِل کی دھڑکنیں اللہ ھو میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔

جب رات کو سونے لگیں، اس انگلی کو قلم خیال کریں تصور سے دِل کے او پر اللہ اللہ لکھتے سو جائیں۔ اسی میں نیند آجائے ۔ آدھی رات کو اس دُنیا میں خاص فرشتے آتے ہیں ہر آدمی کے بارے میں کراماً کاتبین سے پوچھتے ہیں کہ جب یہ سونے لگا تھا اس کا آخری عمل کیا تھا۔ یہ عشاءکی نماز پڑھ کے سویا تھا، دُعا دیتے ہیں، اللہ اس کو خوش رکھے۔ اور یہ درود شریف پڑھ کر سویا تھا، اللہ اِس کوبھی خوش رکھے۔یہ آئت الکرسی پڑھ کے سویا تھا، اچھا آئت الکرسی کی لاج رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا۔

اور یہ اللہ ھو پڑھتے پڑھتے اسی کی مستی میں سو گیا تھا۔ خاموش آہستہ بات کرو

شاید اُسی کی یاد میں آنکھ لگ گئی ہو اور ہو سکتا ہے ساری رات تمھاری اللہ تعالیٰ عبادت میں شامل کردے

کیونکہ سوتے وقت جو نیت ہوتی ہے خواب میں بھی وہی کچھ ہوتا ہے۔ صبح اُٹھیں وضو ہے یا نہیں پرواہ نہیں۔ دِل کا وضو پانی سے نہیں ہوتا۔ ذکر خفی کرتے رہیں۔ جب تک دِل کی دھڑکن سے نہیں ملتا اُس کو ذکرِ خفی کہتے ہیں۔ جب دل کی دھڑکنوں کے ساتھ اللہ اللہ شروع ہوجاتا ہے اُس کو ذکر قلبی کہتے ہیں۔ آج تمھارا طریقت میں پہلا قدم۔ جب یہ اللہ اللہ شروع ہو جائے دِل کی دھڑکنوں کے ساتھ آج تمھاری گاڑی اللہ کی طرف چل پڑی۔ اب اسکو پٹرول کی ضرورت ہے ۔پھر نماز روزہ کئے جا اور گاڑی چلتی جائے گی۔ پھر یہ گاڑی ، طریقت کا تعلق دِل سے ہے، پھر یہ گاڑی سیدھی وہا ں پہنچ جائے گی جہاں اللہ ہے۔ حقیقت کا تعلق نظروں سے ہے۔ پھر جب اللہ اُس کو کچھ نواز دے گا پھر وہ معرفت ہے۔ اب کیونکہ یہ ذکر گرم ہے ہو سکتا ہے اللہ اللہ کرنے سے کچھ گرمی محسوس ہو پھر درود شریف پڑھیں وہ اسکو ٹھندا کر دے گا۔ ایک دِن درود شریف اور اللہ ھو ایک ہو جائے گا۔ نہ گرمی لگے گی اور نہ سردی لگے گی۔

بعض لوگوں کے دِل کی دھڑکنیں خاموش ہو گئیں۔ پھر وہ کیا کریں؟ بلہے شاہ نے فرمایا ہے: اسان نچ کے یار منایا اے بات سمجھ میں نہیں آئی ، کہ یہ اُنھوں نے کیا کہہ دیا۔ پھر کہنے لگے اتھے نچنا وی عبادت بن جاندا اے ۔ پوچھا بلہے شاہ سے یہ کیا کہا کہنے لگے بلہا خوب نچیا دِل دی دھڑکنا اُبھریاں اُنا ں دے نال اللہ اللہ ملایا پھر اللہ وی من گیا نا۔ کہندے ، بلہے دی نیت اے سی اللہ نوں منان دی سی۔ پھر اللہ تعالیٰ عملاں نوں نئیں دیکھد ا شکلاں نوں نئیں دیکھدا او تے نیتا ں نو دیکھدا اے نا۔ میری نیت نچن دی ایہی سی کہ میرے دِل اُبھرے ٹک ٹک ہووے میں اودے نال اللہ اللہ ملاواں۔ اب تم کوئی بھی طریقہ کرو ورزش کرو ، ناچو، دوڑو اللہ ھو کی ضربیں لگاﺅ جب دِل کی دھڑکنیں اللہ اللہ کریں، جب دِل کی دھڑکنیں اُبھریں پھر اُس کے ساتھ اللہ اللہ ملاﺅ۔

بہت سے لوگ کہتے ہیں بغیر بیت کے فیض نہیں ہو سکتا۔ ہم بھی کہتے کہ بغیر پیسوں سے آم نہیں آسکتے لیکن اگر کوئی آم کو ٹوکرا چھوڑ جائے تو کسی کا کرم ہو ہی گیا نا۔ ٹھیک ہے بغیر بیعت کے فیض نہیں ہو سکتا۔

اگر بغیر بیعت کے ہی تمھارے اندر اللہ اللہ کرنا شروع کر دے تو پھر کسی بڑی ہستی کا کرم ہوا نا۔

وہ پھر فیض یا تو اللہ کی طرف سے یا اللہ کے حبیب کی طرف سے ہے۔جب اُن کی طرف سے فیض ہونا شروع ہو گیا اب تم بیعت ہو یا نہ ہو کوئی پرواہ نہیں ۔ وہی پھرتمھارے لئے کافی ہے نا۔ اس کے لئے جو لوگ اجازت لینا چاہتے ہیں کوئی بیعت نہیں ہے کوئی فیض نہیں ہے۔
یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے ، یہ عام کے لئے حکم ہے اس کو آزماﺅ۔ پانچ سات دِن میں اللہ نے چاہا تو تمھارے اندر سے اللہ اللہ شروع ہو جائیگی۔

بیعت ہے یا نہیں ہے پرواہ نہیں ہے ۔ کوئی تم سے نذرانہ طلب نہیں کرتے کوئی بیعت نہیں ہے۔ ہر آدمی کو گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے پر بڑا مہربان ہے۔ کیوں کیا حال ہے ؟ بڑا ہی اللہ کا کرم ہے، کار ہے بنگلہ ہے کرم نہیں تو اور کیا ہے؟ دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا حال ہے؟ اللہ کا بڑا کرم ہے۔غریب خاندان سے تھا اتنا بڑا افسر ہو گیا۔تیسرے سے پوچھتے ہیں کیا حال ہے ؟ بڑا ہی کرم ہے اتنا بڈھا ہوں اتنی صحت ہے کرم نہیں تو کیا ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ اگر تم ان کو کرم سمجھتے ہو۔ یہ چیزیں کافروں کے پاس بھی ہیں نا۔ جو کافروں کودی وہ تم کو بھی دی تمھارے پہ کیا کرم کیا؟ اگر تم دیکھتے ہو کہ واقعی تمھارے پہ کرم ہے تو اُس کے ذکر میں لگ جاﺅ۔ دو چار پانچ چھ دِنوں میں اندر سے اللہ اللہ شروع ہو گئی تو اُسکا کرم ہوگیا۔

فا ذ کرونی الذکرکم تو میرا ذکر کر میں تیرا ذکر کرونگا۔ ذکر اُسی کا کیا جاتا ہے جس سے دوستی ہو جائے۔

اگر کوشش کے باوجو د تمھار ا دِل اللہ اللہ نہیں تسلیم کرتا ، اللہ اللہ نہیں ہوتی تو اُسکا تمھارے پہ کوئی کرم نہیں ہے۔ اگر کرم ہوتا تو تم کو اپنے نام لیواﺅں میں لیتا۔ اپنے آپ کو پہچاننے کا راز ، میں کیا ہوں ، رب مجھ پر کتنا کریم ہے؟ یہی اک کسوٹی ہے۔ پھر اگر اُس نے کار بنگلہ دی پھر کرم ہی کرم ہے۔

اس کے لئے جو لوگ اجازت لینا چاہیں میری زبان کے ساتھ اقرار کریں اجازت ہو جائیگی۔

جو لوگ اجازت نہ لینا چاہیں تو پھر وہ خاموش بیٹھے رہیں اُن کو پھر کوئی اجازت نہیں

اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔