تصوف کے سلاسل کا مختصر تعارف
تصوف کے سلاسل کا مختصر تعارف.
اولیائے امت کے چند سلاسل تصوف کے نام ملاحظہ ہوں.
1.سلسلہ عیاضیہ ): منسوب بہ حضرت شیخ فضیل ابن عیاض رحمت اللہ علیہ
- سلسلہ ابرہیمیہ ): منسوب بہ حضرت شیخ ابراہیم ادھم رحمت اللہ علیہ
- سلسلہ عجمیہ) : منسوب بہ حضرت شیخ حبیب عجمی رحمت اللہ علیہ
- سلسلہ طیفوریہ) : منسوب بہ حضرت شیخ بایزید بسطامی رحمت اللہ علیہ
- سلسلہ کرخیہ) : منسوب بہ حضرت شیخ معروف کرخی رحمت اللہ علیہ
6.سلسلہ سقطیہ) ; منسوب بہ حضرت شیخ سری سقطی رحمت اللہ علیہ - سلسلہ جنیدیہ) ; منسوب بہ حضرت جنید بغدادی رحمت اللہ علیہ
- سلسلہ چشتیہ) ; منسوب بہ حضرت شیخ ابو اسحاق چشتی شامی رحمت اللہ علیہ ( کچھ بزرگان دین اس سلسلہ کو حضرت شیخ عثمان ہرونی رحمت اللہ علیہ سے منسوب کرتے ہیں)
9.سلسلہ سہروردیہ) ; منسوب بہ حضرت شیخ ضیاء الدین ابو نجیب سہروردی رحمت اللہ علیہ. - سلسلہ قادریہ) ; منسوب بہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ علیہ
- سلسلہ نوریہ) ; منسوب بہ حضرت شیخ ابو الحسن نوری رحمت اللہ علیہ
- سلسلہ شاذلیہ ): منسوب بہ حضرت شیخ ابو الحسن علی بم عبداللہ شاذلی رحمت اللہ علیہ.
- سلسلہ صابریہ) منسوب بہ حضرت شیخ علاؤالدین صابر کلیری رحمت اللہ علیہ
(بابا فرید شکر گنج, فرید الدین مسعود رحمت اللہ علیہ کے بھانجے) - سلسلہ رفاعیہ) ; منسوب بہ حضرت شیخ سید احمد رفاعی رحمت اللہ علیہ
- سلسلہ نظامیہ) ; منسوب بہ حضرت نظام الدین اولیاء رحمت اللہ علیہ
- سلسلہ اشرفیہ); منسوب بہ حضرت شیخ مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمت اللہ علیہ
- سلسلہ نقشبندیہ); منسوب بہ حضرت شیخ بہاء الدین نقشبند رحمت اللہ علیہ
- سلسلہ برکاتیہ); منسوب بہ حضرت شیخ برکت اللہ مارہروی رحمت اللہ علیہ
- سلسلہ مداریہ); منسوب بہ حضرت شیخ شاہ بدیع الدین قطب مدار رحمت اللہ علیہ
- سلسلہ شطاریہ); منسوب بہ حضرت شیخ عبداللہ شطاری ( بابا بلھے شاہ قادری) رحمت اللہ علیہ
- سلسلہ مجددیہ); منسوب بہ حضرت شیخ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمت اللہ علیہ
- سلسلہ رشیدیہ); منسوب بہ حضرت شیخ دیوان عبدالرشید جون پوری رحمت اللہ علیہ
- سلسلہ قلندریہ); منسوب بہ حضرت شیخ شاہ بو علی قلندر پانی پتی رحمت اللہ علیہ
24.سلسلہ نقیبیہ) منسوب بہ حضرت خواجہ خواجگان فقیر صوفی محمد نقیب اللہ شاہ رحمت اللہ علیہ
25.سلسلہ جہانگیری) حضرت شاہ جہانگیر سیدنا مولانا صوفی محمد مخلص الرَّحمٰنِ شاہ
(اگرچہ بعد میں بھی کچھ سلاسل بنے ہیں, مگر بعد والے انہیں بڑے سلاسل کی ذیلی شاخیں ہیں).
ان چار سلاسل نے اپنی ذریں خدمات کی بناء پر بڑی شہرت اور مقبولیت حاصل کی.
- سلسلہ قادریہ
- سلسلہ چشتہ
3.. سلسلہ نقشبندیہ - . سلسلہ سہروردیہ
عصر حاضر کے نامور صوفی مؤرخ حضرت مولانا محمد عاصم اعظمی صاحب علیہ رحمہ نے مرأةالاسرار, عوارف المعارف, فتوح الغیب وغیرہ کتب کے حوالے سے ان چار بڑے سلاسل کا تعارف بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان فرمایا ہے. انہی کے الفاظ میں پیش کرنے کی بابرکت سعادت..
- سلسلہ قادریہ.
اس خاندان طریقت کے بانی محبوب سبحانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ رحمت الرحمان کثیرا ابدا ہیں.
سلسلہ عالیہ قادریہ کا تعلق شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ علیہ سے ہے. آپ کی شان میں عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعلی’ حضرت امام احد رضا خان علیہ رحمہ ایک قصیدہ میں فرماتے ہیں.
√ واہ کیا مرتبہ ہے اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچے کے سروں سے قدم بالا تیرا
سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا..
اولیاء ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا…
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا………
سلسلہ قادریہ کو ام السلاسل بھی کہا جاتا ہے. اس خانوادہ میں تقوی’ و طہارت کے علاوہ شریعت کی سختی سے پابندی ہے اور باطن کی آراستگی کے لئیے ظاہر پہ بھی گہری نظر ہے.خود سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ علیہ نے نہ صرف اس کی تعلیم دی بلکہ عملی طور پہ اس روش پر سختی سے کاربند رہے کہ شریعت کے عمل سے ایک شمہ برابر کوئی تضاد ہوا تو طریقت سے اس عمل کو دور رکھا, یہی وجہ ہے کہ سلسلہ قادریہ کی روش بہت زیادہ محتاط ہے.
اس سلسلہ میں شریعت کی پابندی پہ بطور خاص توجہ دی گئی ہے مگر دنیا سے کنارہ کشی , ریاضت و مجاہدہ اور تسلیم و رضا کی منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے.
(واضع رہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ علیہ امام احمد بن حنبل رحمت اللہ علیہ کے مسلک کے پیروکار تھے..موجودہ دور میں سلسلہ قادریہ سے منسلک اکثریت امام ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ کے مسلک کے پیروکاروں کی ہے).
حضرت سیدنا غوث پاک رحمت اللہ علیہ نے اپنی کتاب "فتوح الغیب” میں اس سلسلہ کی تعلیم دی ہے.
اسی کتاب کے باب نمبر 75 میں اپنے فرزند حضرت سید سیف الدین عبدالوہاب کو وصیت فرمائی اور عارف کامل کا دستورالعمل بیان فرمایا.
فرماتے ہیں….
"میں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقوی’ اور اطاعت اختیار کرو, احکام شرع کی پابندی لازم رکھو, سینہ کو خیانتنفس سے پاک رکھو, نفس میں جواں مردی رکھو, کشادہ رو رہو, جو چیز عطا کرنے کے قابل ہو اسے عطا کرتے رہو, آدابدوستی نگاہ میں رکھو, بزرگوں کی بزرگی کی نگہداشت کرتے رہو, برابر والوں سے حسن_ معاشرت رکھو, چھوٹوں کو نصیحت کرتے رہو, اپنے رفیقوں سے جنگ نہ کرو, وفا کو اپنے اوپر لازم کر لو.
ذخیرہ مال فراہم کرنے سے بچو”
عام مسلمانوں کے لئیے ہدایت فرمائی,
مومن کے لئیے ہر حال میں یہ تین چیزیں لازمی ہیں ; "ایک یہ کہ حکم_الہی پر راضی رہے, دوسرے یہ کہ ممنوعات سے بچتا رہے, تیسرے یہ کہ قضائے الہی پر راضی رہے….پس مومن کے لئیے کم سے کم مرتبہ یہ ہے کہ ان تینوں چیزوں سے خالی نہ ہو”
(فتوح الغیب.. از عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ علیہ)
- سلسلہ نقشبندیہ
اس سلسلہ کے بانی حضرت بہاءالدین نقشبند علیہ رحمة والرضوان ہیں. اس سلسلہ کی نسبت حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی’ عنہ سے ہے.
یہ سلسلہ طریقت مختلف ناموں سے موسوم رہا.
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے حضرت شیخ بایزید بسطامی علیہ رحمہ تک یہ سلسلہ "صیدیقیہ” کہلایا. حضرت بایزید بسطامی رحمت اللہ علیہ سے حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی رحمت اللہ علیہ تک "طیفوریہ” کہلایا, خواجہ عبدالخالق غجدوانی سے خواجہ بہاءالدین نقشبند رحمت اللہ علیہ تک "خواجگانیہ” کہلایا اور حضرت خواجہ نقشبند سے شیخ احمد سرہندی (مجدد الف ثانی) رحمت اللہ علیہ تک "نقشبندیہ” کے نام سے موسوم رہا اور ہندوستاں میں حضرت مجدد الف ثانی رحمت اللہ علیہ سے منسوب ہو کر "مجددیہ” کہلایا.
اس سلسلہ میں شریعت کی پابندی اور اتباعسنت پر کافی زور دیا گیا ہے. ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے شریعت کی پابندی ناگزیر ہے. تقوی’ کے ساتھ احتیاط کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے. حضراتنقشبندیہ عزیمت پر عمل کو حتی المقدور ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور رخصت پر عمل تجویز نہیں کرتے. احوال و مواجید کو احکامشریعیہ کے تابع رکھتے ہیں. اوذاق و معارف کو علومدینیہ کے خادم سمجھتے ہیں.
حضرت خواجہ بہاءالدین رحمت اللہ علیہ کو سلوک پر جذبہ کی تقدیم کا الہام ہوا تھا. مشائخ نقشبندیہ اسی پر عامل ہیں ,جب کہ دوسرے بعض صوفیاء سلوک کو جذبہ پر مقدم کرتے ہیں… اس راہ کا پہلا قدم جذبہ ہے جو وصول کی دہلیز ہے.
داخلسلسلہ ہونے سے پہلے طالب کو ریاضت و مجاہدہ کی منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے. منزل اذکار و اشغال کے ذریعہ طے کروائی جاتی ہے. پھر طالبراہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ حلقہ ارادت میں داخل ہو کر سلوک و معرفت کے مدارج طے کرنے لگے. اسی لئیے ان کی تعلیم کا مسلک "نظر بر قدم” "خلوت در انجمن” "سفر در وطن” ہے.
وصول الی اللہ کے لئیے ذکر و مراقبہ اور عظمت_شیخ ضروری ہے.
"ذکر”.. نفی , اور اثبات یعنی لا الہ (نفی) الا اللہ (اثبات) کا ذکر ہے. یہ ذکر اس سلسلہ کے متقدمین سے مروی ہے. اس ذکر کے لئیے طالب ایسے وقت کا انتخاب کرے کہ خارجی مشاغل اور پریشانیوں سے خالی ہو اور داخلی تشویش یعنی حد سے زیادہ اذیت اور غصہ سے پاک ہو. مجلس_ ذکر میں طالب موت کو یاد کرے اور ایسے تصور کرے کہ موت اس کے سرہانے موجود ہے ,پھر اپنے گناہوں سے مغفرت چاہے. ہونٹ اور آنکھیں بند کر ے سانس اپنے پیٹ میں روکے, دل میں ” لا” کہے اور اسے اپنی ناف سے دائیں کو کھینچے پھر وہ اپنے شانوں کو ہلائے اور انہیں اپنے سر کی طرف جھکا دے اور کہے "الہ” پھر اپنے دل میں "الا اللہ” کی پختہ ضرب لگائے..
مشائخ نقشبندیہ کا کہنا ہے کہ حبس دم میں بڑی عجیب خاصیت ہے , اس سے باطن مین گرمی, عزم میں یکسوئی اور عشق و محبت میں برانگیختگی پیدا ہوتی ہے اور طالب وسوسوں(پراگندہ خیالات) سے نجات پا جاتا ہے. اس ذکر کی سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ جب طالب "لا الہ” کہے تو اللہ کے سوا ہر معبود, ہر مقصود, ہر وجود کی نفی کرے اور جب "الا اللہ” کہے تو پورے کامل اور رسوخ اطمینان قلب سے صرف اللہ تعالی’ کی ذات میں معبودیت, مقصودیت اور وجودیت کا اثبات (اقرار, طلب) کرے.
سلسلہ نقشبندیہ میں تذکیہ قلب و تصفیہ باطن کے 11 اصول مقرر کیۓ گئے ہیں جن پر چل کر سالک قرب الہی کی نعمت سے شرف یاب ہوتا ہے. یہ اصول دراصل حضرت خواجہ نقشبند رحمت اللہ علیہ کے کلمات ہیں.
ان میں سے آٹھ کلمات قدسیہ اور تین کلمات مصلحات نقشبندیہ میں سے ہیں. انہی گیارہ کلمات پہ طریقہ نقشبندیہ کی بنیاد ہے.
1.وقوف_عددی ( مراد ذکر میں سانس کو طاق عدد پہ چھوڑنا)
2.وقوف_زمانی(سالک واقف نفس رہے/پاس انفاس کو ملحوظ رکھے, ہر وقت اپنے حال سے واقف رہے)
- وقوف_قلبی (ذکر کے وقت دل حق تعالی’ سے واقف و اگاہ رہے, ذکر کے معنی و مفہوم سے غافل نہ ہو)
- ہوش دردم(سالک کا ہر سانس حضور و آگاہی سے ہو نہ کہ غفلت سے)
- نظر برقدم(چلتے وقت سالک کی نظر اپنے پاؤں کی پشت پر رکھے تا کہ راہ چلتے ادھر ادھر نہ دیکھے)
- سفر دروطن(سیر درانفس). (مراد صفات ذمیہ سے صفات حمیدہ کی طرف انتقال کرنا ہے… دوسرے سلاسل میں سلوک کو سیر آفاقی سے شروع کرتے ہین اور سیر انفسی پہ ختم کرتے ہیں)
7.خلوت درانجمن. ( ظاہر میں خلائق کے ساتھ, باطن میں حق کے ساتھ)
8.یاد کرد. ( ہر وقت ذکر میں مشغول رہے خواہ قلبی ہو زبانی)
9.بازگشت.( ذاکر جب کلمہ توحید کا ذکر کرے تو دل سے کرے , زبان_دل سے کہے :خدایا مقصود,میرا تو ہے اور تیری رضا)
10نگاہ داشت.( قلب کو خطرات و حدیث نفس سے نگاہ رکھا جائے)
- یادداشت. ( دوام آگاہی بحق سبحانہ.. اپنے وجود کا ہوش نہ رہے). ان سے میں سے ہر ایک کلمہ کی تشریح کے لئیے ایک دفتر درکار ہے, مگر اختصار سے کام لیا ہے..
ربنا تقبل ھذا. - سلسلہ چشتیہ۔
اس خاندان تصوف کے بانی حضرت شیخ ابو اسحاق چشتی رحمت اللہ علیہ ہیں۔
اس سلسہ کی اشاعت شہر چشت سے ہوئی پھر سنجان، دمشق، سجستان، خراسان اور نیشا پور سے ہوتا ہوا یہ سلسۃ طریقت سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی رحمت اللہ علیہ کے ذریعے ہندوستان آیا۔
اس سلسہ میں ظاہر سے زیادہ باطن پہ زور دیا گیا ہے{اور پابندیِ شریوت قدم قدم پر لازم رکھی گئی ہے}
سلسلہ چشتیہ کی چند اہم خصوصیات:
1۔۔ سلسلہ چشتیہ کی اساس عشقِ الٰہی پر ہے۔ طاعت، عبادت، ریاضت اور مجاہدہ کا اصل مقصود سوزِعشق کا فروغ ہے۔
2۔نفس کی مخالفت اس سلسلے میں کلیدی حثیت رکھتی ہے۔ چشتی مشائخ کے نزدیک {النفس الصنم الاکبر}نفس سب سے بڑا بت ہے جس کی شکست و ریخت راہِ سلوک کی پہلی منزل ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمت اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "چشتی صوفیاء کے نزدیک نفس کی مخالفت عبادت کی اصل ہے اور اس کی موافقت کفر ہے”۔
نفس کو زیر کرنے اور اس کی تادیب کے لئیے مجاہدات پہ زور دیا جاتا ہے۔ ریاضت و مجاہدہ کا مقصود تصفیہ باطن اور تذکیہ اخلاق ہے۔
حضرت نظام الدین اولیاء رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "ہمارے خاندان [چشت] میں دو باتیں ہیں ایک تو مخالفتِ ہوا و نفس اور دوسرے ایصالِ منفعت للغیر”۔
3۔۔اخلاقی اقدار اور صفاتِ محمودہ کے فروغ پر خاص زور دیا جاتا ہے۔
اخلاقی تادیب و تربیت کے دو پہلو ہیں جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ایک تخلیہ ہے اور دوسرا تحلیہ۔
تخلیہ یہ ہے کہ طبعی اور رذیل اخلاق جیسے کینہ، تکبر، غسہ، غیبت اور بدگوئی وغیرہ سے نفس کو پاک کیاجائے۔۔۔ اخلاق محمودہ جیسے سخاوت، عفو درگزر،صبر وتھمل، ایثار، توکل وقناعت کی آبیاری کا نام تحلیہ ہے۔۔
چشتی مشائخ نہ کسی کو حقیر سمجھتے ہیں نہ کسی کو ضرر پہنچانے ہین، وہ جاہ وترفع پر تواضع و انکساری کو ترجیح دیتے ہیں۔ خلقِ خدا کے ساتھ ان کا سلوک حد درجہ محبت،شفقت اور درگزر کا ہوتا ہے۔ مخلوقِ خدا کی اذیتوں اور سختیوں پر ضبط وتحمل سے کام لیتے ہیں اور اسے روحانی ترقی کا ذریعہ گرادانتے ہیں، فقر کو غناء پر ترجیح دیتے ہیں۔
4۔۔۔ اس سلسلہ میں علومِ ظاہری، باطنی کی بڑی جامعیت اور شریعت میں توازن وتلاوم پایا جاتا ہے، وہ علومِ ظاہری کی تکمیل کو ضروری سمجھتے ہیں۔ قرآن کریم کاحفظ اور اس سے حد درجہ شغف چشتی صوفیاء کا امتیازی نشان ہے۔ چشتی صوفیاء افراط وتفریظ کے مغالطوں میں پڑنے سے بچتے ہیں اور زہد وترکِ دنیا کے باب میں غلو نہیں کرتے، شریعت کی پاسداری کا پورا پورا لحاظ کرتے ہیں۔
5۔۔۔ چشتی صوفیاء سماع کا خاص ذوق رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک سماع سوزِ عشق کو بھڑکانے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ لیکن سماع {مزامیر سے پاک اور دوسرا} شرائط اور قیود کے ساتھ ہونا چاہئے۔
6۔۔۔۔ اس سلسلے میں ایک شب و روز کا مجاہدہ ہےمعین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں "ہمارے سلسلہ میں ایک شب وروز کا مجاہدہ ہے اور زیادہ ذوقِ مشاہدہ ہے”
- سلسلہ سہروردیہ
اس خانوادہِ طریقت کے بانی حضرت شیخ ضیاءالدین ابو نجیب سہروردی رحمت اللہ علیہ ہیں جوشیخ وجیہ الدین ابو حفص رحمت اللہ علیہ کے مرید وخلیفہ تھے۔
اس سلسلہ کی اشاعت آپ کے مرید وخلیفہ شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمت اللہ علیہ سے ہوئی۔ آپ کی مشہورِ زمانہ کتاب” عوارف المعارف ” تصوف کی گراں قدر کتاب اور صوفیاء کے لئے مشعلِ ہدایت ہے۔
اس سلسلہ طریقت میں اتباعِ اور محبت الٰہی کی تعلیم دی گئی ہے بلکہ پیرویِ رسول اللہ ﷺ عین محبتِ الٰہی ہے۔
شیخ شہاب الدین سہروردیؒ لکھتے ہیں ؛”پس جو جتنا متبعِ رسولﷺ ہے، اسی قدر محبتِ الٰہی کا حصہ دار ہے اور صوفیاء نے اسلامی گروہ میں سب سے بڑھ کر اتباعِ رسولﷺ کی ہے”۔
اس سلسلہ تصوف میں علم و عمل دونوں پر توجہ دی جاتی ہے لیکن پیرویِ رسولﷺ اور محبتِ رسولﷺ پر زیادہ زور ہے۔ پیروی راہِ حق اور اتباعِ مسلک خاص اصول ہیں۔
حضرت شیخ الشیوخ شہاب الدین رحمت اللہ علیہ اکثر فرماتے تھے کہ ” میرا فرزند وہی ہے جو میرے طریقے پر چلے اور میری راہِ ہدایت اختیار کرے۔”
اس سلسلہ کی اشاعت کا مرکز بغداد تھا ۔ وہاں سے یہ سلسلہ حضرت خواجہ بہاءالدین زکریا ملتانی علیہ رحمہ کے ذریعے ہندوستان آیا اور پنجاب، یو-پی، بہار اور بنگال میں خوب پھیلا۔۔
تمت بالخیر
ایک کامل شیخ، کامل ولی اللہ، کامل مرشد سالک کو کسی سلسلہ میں بھی مرید کر سکتا ہے.
مآخذ۔
۱۔ مرآۃ الاسرار
۲۔عوارف المعارف
۳۔فتوح الغیب۔
۴ مقدمہ تاریخ مشائخ نفشبندیہ۔
أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَO
(يونس، 10 : 62)
’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے‘‘۔