گجر خان میں حضرت سید نا ریاض احمد گوھر شاہی مدظلہ العالی کا خطاب ))
اعوذبا اللہ من الشیطان الرجیم ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
عزیز ساتھیوں اسلام علیکم ۔
علاقے کے سارے لوگ جانتے ہی ہوں گے میرا تعلق اسی علاقے سے ہی ہے۔ میں بھی ایک دنیادار —– آدمی تھا۔ لیکن کوئ اﷲ کا ایسا کرم ہوا ایک ایسا راز ملا جس راز کی وجہ سے مجھے اس دنیا میں شہرت ہوئ۔ اور میں چاہتا ہوں کہ وہ راز اپنے اسلامی بھايوں کو پہنچاؤں تاکہ وہ بھی اس سے مُستفید ہو سکیں۔ وہ راز کیا ہے؟ حضرت علی رضی اﷲ تعالی فرماتے ہیں کہ تیرے اندر ایک جہاں چھپا ہوا ہے تجھے اس کی خبر نہیں اور واقعی ہی اگر وہ جہاں تمھارے اوپر کُھل جاے تو تم گھر بار، بیوی بچے چھوڑ کے اﷲ کی راہ میں نکل پڑو۔ جب اﷲ تعالی نے آدم علیہ السلام کا جسم بنایا۔ تو اُس میں کچھ چیزیں مخلوقیں رکھیں۔ روح ڈالی روح جسمانی۔ اُسکے بعد لطائف قلب، روح، سری، خفی، اخفیٰ، انا، نفس یہ چیزیں ڈالیں ۔ ایک چیز اُس میں ایسی ڈال دی گی جس سے وہ جسم ناپاک ہو گیا جسم پاک تھا مٹی سے بنا ہوا تھا۔ وہ جو مخلوقیں ہیں وہ بھی پاک تھیں ۔ لیکن جب اُس میں نفس آیا تو وہ جسم ناپاک ہو گیا۔
اُس وقت بلھے شاہ نے فرمایا اس نفس پلیت نے پلیت کیتا آساں مینڈھوں پلیت نہ سے
اب جب تک اُس نفس کو پاک نہیں کریں گے آپ پاک ہی نہیں ہونگے۔ اب انسان کا اس دنیا میں آنے کا مقصد نفس کی پاکیزگی ہے۔ اب وہ نفس پاک کیسے ہوتا ہے؟ اب یہ جو عبادتیں سیکھایں جاتی ہیں۔ ایک عبادت ظاہری ہے جسکا تعلق زبان سے ہے۔ ایک عبادت باطنی ہے جس کا تعلق دل سے ہے۔ ظاہری عبادت سارے جانتے ہیں۔ اُسکو شریعت بولتے ہیں۔ لیکن وہ جو باطنی عبادت جسکو مسلمان بھول گیا ہے۔ جسکو مسلمان بھول گیا ہے۔ بھولنے کی وجہ سے مسلمان، مسلمان نہیں رہا۔ اب مسلمان ایک دوسرے کو کافر منافق کہتا ہے۔ اب اُس نفس کو پاک کرنا ہے۔ وہ پاک کیسے ہو گا؟
وہ نمازوں سے پاک نہیں ہوتا ہے۔ روزؤں سے پاک نہیں ہوتا ہے۔ ان سے صرف وقتی طور پر دب جاتا ہے۔
لیکن جب پھر نماز چھوڑی روزے چھوڑے پھر وہ باہر نکل آیا۔ اُس کو پاک کرنا ہے۔ پاک کریں گے تو اُسکا مقام اصلی مقام ہو گا۔ پاک کیسے ہو گا؟ سب سے پہلے اندر قلب کا ذکر سیکھنا پڑے گا، قلب کا ذکر، پھرروح کا، پھر سری کا، پھر خفی کا یہ سات اذکار ہیں یہ ساتوں ذکر سیکھنے پڑیں گے۔ جنکا تذکرہ بعد میں کیا جاے گا۔ جب یہ سینہ ذکر میں لگ جاے گا اﷲ اﷲ میں لگ جاے گا۔ تو اﷲ اﷲ کے نور سے یہ منور ہو جاے گا۔ اب جو نفس شیطان ہے اندر اُسکو جو غذا ملتی ہے وہ غذا کے ذریعے یا ہوا کے ذریعے۔ جب وہ غذا کے ذریعے یا ہوا کے ذریعے نار اندر جاے گی۔ وہ جو اﷲ کا نور ہے وہ اُسکو جلا دے گا۔ اُس تک غذا نہیں پہنچے گی۔ جب غذا نہیں پہنچے گی تواُسکو بھوک لگے گی۔ وہ اب باقی ہمسایوں سے غذا مانگے گا۔ وہ اُسں کو نور کا لقمہ دیں گے۔ دوسرے دن پھر نور کا لقمہ دیں گے۔ تیسرے دن پھر غذاء مانگے گا۔ پھر وہ کہیں گے بہتر نہیں ہے تو کلمہ پڑھ یہ ہی تیری غذا بن جاے گا۔ اب وہ با حالت مجبوری صرف زندہ رہنے کے لیے کلمہ پڑھنا شروع کر دے گا۔ کلمے کے اثر سے وہ جو کالا کتا تھا اسکی شکل سفید کتے کی طرح ہوجاے گی۔ پھر وہ زندہ رہنے کے لیے کلمہ پڑھتا رہے گا کلمے کے اثر سے اسکی شکل بیل کی طرح ہو جاے گی، پھر کلمے کے اثر سےُاسکی شکل بکرے کی طرح ہو جاے گی۔ پھر وہ کلمہ پڑھتا رہے گا کلمے کے نور سے اسکی شکل تمھاری طرح ہو جاے گی، جب تمھاری طرح ہو جاے گی پھر وہ اسکو پکڑ کر حضور پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی محفل میں لیں جایں گے۔ پھرحضور پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور حاضرین عش عش کر اٹھیں گے آفرین ہے اسکے اوپر اور اسکے مرشد کے اوپرکہ کتے کو پاک کیا انسان بنایا اور میری محفل لے آیا۔ اُسکو اُس وقت کوئ مرتبہ ارشاد ہو جاے گا۔ اب وہ انسان، اب وہ انسان نقلی نہیں رہا اب وہ اصلی انسان بن گیا ہے۔ اب وہ جب نقلی تھا تو اُس کے لیے سب کچھ نقل ہی تھا۔ نقلیوں کے لیے بھی اﷲ تعالی نے بنانا ہے اصلیوں کے لیے بھی بنایا ہوا ہے۔
نقلیوں کے لیے نقلی قرآن بنایا، نقلی کبعہ بنایا۔
اب یہ نقلی قرآن کیا ہے؟ یہ جو قرآن تم پڑھتے ہو یہ تو پریس سے نکلا ہے۔ کاغذ پر چھپا ہے تو پھر یہ اصلی کیا ہوا۔ یہ نقلیوں کے لیے ہے۔ اصلی قرآن پاک حضور پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سینے مبارک میں ہے۔ جب وہ سینہ منور ہو جاتا ہے۔ پاک ہو جاتا ہے پھر وہ اُس اصلی قرآن کے قابل ہوتا ہے۔ سخی سلطان رحمتہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں کسی مدرسے میں نہیں پڑھا بس الف سے اﷲ اﷲ کرتا رہا۔اﷲ اﷲ سے ہی میرا سینہ منور ہو گیا۔ جب سینہ منور ہو گیا تو مجھے حضور پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی محفل نصیب ہونا شروع ہو گی۔
وہاں کبھی جاتا حدیث کی باتیں ہو رہی ہوتیں ۔ کبھی جاتا درود شریف پڑھ رہے ہوتےکبھی جاتا تو اﷲھو ہو رہا ہوتاایک دفعہ گیا
تو وہاں قرآن مجید پڑھ رہے تھےلوگ۔ میں بڑا پریشان ہوا کہ میں نے تو قرآن مجید پڑھا ہی نہیں ، اگر پڑھا ہوتا تو آج میں بھی پڑھتا۔
حضور پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا غمگین ہے بلایا ادھر آؤ کیا بات ہے۔ میں نے کہا یہ پریشانی ہے۔
فرمایا لگے یہ تو نقلی ہے۔ اؤ سینے سے سینہ ملایا فرماتے ہیں میں خودبخود ہی حافظ ہو گیا۔
جسطرح اس قرآن مجید کے لیے سفید کاغذ چاہیے اسطرح اُس کے لیے سفید دل چاہیے۔ اس کے بعد! یہ تمھارا قرآن مجید۔
دوسری تمھاری نمازیں! اؤ تمھاری نمازیں بھی اصلی کوئ نہیں ہیں۔ تمھاری نمازیں بھی مسجد سے باہر جاتیں کوئ نہیں ہیں۔ نمازیں تو بیت المعمور تک پہنچتیں ہیں۔ جب تمھارا دل اﷲ اﷲ میں گونجے گا۔ ابھی تمھاری زبانیں ہیں جب تمھارا دل اﷲاﷲ میں گونجے گا تو یہاں گونجے گا عرش معلی میں پہنچے گا۔ تمھاری نمازوں کو یہ دل عرش معلی میں پہنچاے گا۔ وہ نماز اصلی ہے یہ نماز صورت ہے۔ یہ اصلی نہیں ہے یہ نقل ہے۔
اؤ یقین کرؤ تمھارا کبعہ اصلی وہ بھی کوئ نہیں ہے۔ یہ تو نقلیوں کے لیے خانہ کبعہ ہے، اؤ اصلیوں کے لیے تو بیت المعمورہے۔ اﷲ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیت المعمور دیکھایا اور کہا کہ اس قسم کا خانہ کبعہ دنیا میں بنانا تاکہ وہاں نقلی بھی رہیں گے نا جب کوئ اصلی خانہ کبعے میں پہنچ جاتا ہے تو کیا مجال ہے کہ اُس خانہ کبعہ کو کہ اُسکا طواف نہ کرے۔ جب حضرت رابعہ بصری رحمتہ علیہ کےدل پہ خانہ کبعہ آیا تو اُس خانہ کبعہ کو حکم ہوا کہ جا جا کر اس کا طواف کر۔ اؤ تجھے تو حضرت ابراہیم نے بنایا ہے اور اس کو اﷲ نے اپنے نور سے بنایا ہے۔
اب وہ ذکر کیا چیز ہے۔ یہ سب سے پہلے تمھاری سنت ہے حضور پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم غار حرا میں کیا کرتے تھے۔
نمازیں تھیں کوئ نہیں۔ ہر وقت ذکر الٰہی ہی میں رہتے۔ جب لوگ مسلمان ہوتے تو نمازیں اُس وقت بھی کوئ نہیں تھیں
اس وقت وہ کیا کرتے ہر وقت ذکر الٰہی کرتے۔
جب ذکر الٰہی سے ان کے سینے منور ہو گے تو پھر وہ نمازیں اتریں کئ سال بعد اُتریں شب معراج میں اتریں۔ پھر جب نمازیں اتریں حلقوں میں نہیں اٹکیں سیدھی سینوں میں گیں۔.وہ نماز حقیقت ہے۔
یہ تمھارا پہلا رکن بھی ہے۔ تمھارے پانچ رکن ہیں پہلا رکن کلمہ طیب، کلمہ طیب ذکر میں ہے افضل ذکر کلمہ طیب اور ذکر کے لیے حکم کہ اُٹھتے بیٹھتے حتیٰ کہ کروٹیں لیتے میرا ذکر کر۔
یہ تمھارے قرآن مجید کا پہلا لفظ بھی ہے۔ الم تم کہتے ہو حروف مقطعات آگے چلو۔ اؤ آگے کیا ہے وہ پہلے کھڑا ہے اس سے تو پوچھو تو کیا ہے؟ اؤ پہلے الف سے پوچھو پھر آگے جانا۔ اؤ الف سےاللہ اللہ کر اگر اس کی جلالت سے ڈرتا ہے تو ل سے لا الہ الااللہ ہی پڑھ۔ اگر اس کی توفیق نہیں ہے تو م سے محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہی پڑھتا رہ۔ اسی سے ہی پا جائے گا۔ ورنہ پھر آگے کتاب میں الجھارہ کوئی خبر نہیں کتاب تجھے گمراہ بھی کرسکتی ہے۔ اور اہل کتاب والے گمراہ بھی ہو گئے ۔ سارے فرقے والے کتابیں پڑھتے ہیں ۔ الم نور کی ہدایت ہے اور نور کی ہدایت والا گمرہ نہیں ہوتا۔
اب رہا سوال قرآن مجید فرماتا ہے اٹھتے بیٹھتے حتٰی کہ لیٹتے میرا ذکر کر۔ اس راز کو لوگوں نے ڈھونڈنے کی کوشش کری۔ کچھ نے کہا کہ اٹھو یہ آیت پڑھ لو بیٹھو یہ آیت پڑھ لو، سونے لگو یہ آیت پڑھ لو۔ انھوں نے اسی پر اکتفاء کیا لیکن وہ مقام حاصل نہ کرسکے۔ قرآن مجید میں آیا کہ خرید و فروخت میں بھی اس سے غافل نہ رہنا انھوں نے پھر کیا کیا کہ خریدنے لگو یہ آیت پڑھو فروخت کرنے لگو آیت پڑھو نہیں یہ ایک بہلاوا تھا۔ اُس کے لیے ہے کہ خرید و فروخت میں بھی اللہ اﷲ کر ،اٹھتے بیٹھتے ، کروٹیں لیتے نیند کی حالت میں بھی اللہ اﷲ کر۔ تو پھر وہ راز کون سا تھا ۔ بڑی مشکل سے ایک طبقہ اس حال میں پہنچا کہ یہ جب پھر سانس کا ذکر کریں گئے تو سانس تو ہر وقت ہوتا رہتا ہے ۔سانس ہر وقت چلتا رہتا ہے سوتے میں بھی چلتا رہتا ہے۔ انھوں سے سانس کے ذکر کو ترجیح دی اپنا لیا۔ لیکن سانس کا ذکر بھی پھیپھڑوں کی صفائی کر سکا دل تک وہ بھی کوئی نہ پہنچا۔ اُدھر اللہ کا کانون تھا۔ تو عام بندہ ہے پانچ ہزار دفعہ ذکر کرعالم ہے پچیس ہزار دفعہ روز ذکر کر۔ درویش ہے بہتر ہزار دفعہ ذکر کر۔ اگر میرا عاشق میں تیرا عاشق سوا لاکھ دفعہ ذکر کر۔ اب و ہ لوگ مجبور ہوگئے سانس سے ہم ذکر چوبیس گھنٹے کرتے ہیں تو چوبیس گھنٹوں میں چوبیس ہزار سانس آتے ہیں؟ یہ سوا لا کھ کیسے ہوگا، یہ بہتر ہزار کیسے ہوگا ۔اس کے لیے تو ہمیں دنیا چھوڑنی پڑے گی اور ہم نے دیکھا ایک آدمی صرف دو گھنٹے سوتا بائیس گھنٹے جاگتا رہتا تب وہ بہتر ہزار دفعہ اللہ اللہ پورا کرتا وہاں تو عاشقوں کے لیے سوا لاکھ دفعہ روز کر۔
تو پھر وہ ایک راز تھا وہ راز کسی کو باآسانی سے مل گیا گھر بیٹھے بیٹھائے مل گیا اور کسی کو بیوی بچے چھوڑ کر بھی نہ ملا۔
وہ راز کیا تھا وہ ایک تسبیح تھی وہ جو تمھارے اندر چل رہی ہے ٹک ٹک ٹک ٹک تو جب انھوں نے اس ٹک ٹک کے ساتھ اللہ اللہ ملایا تو وہ ایک گھنٹے میں 3600 دفعہ یہ جو سیکنڈ کی سوئی بنی ہے نا یہ اس کے حساب سے بنی ہے نا وہ ایک گھنٹے میں اس نے 3600 دفعہ اللہ اللہ کرا۔ ذکرسے اُس کی حالت اور تیز ہوگئی ۔ایک گھنٹے میں 6 ہزار دفعہ اللہ اللہ کیا چوبیس گھنٹے میں سو ا لا کھ سے بھی بڑھ گیا۔ جب سوا لاکھ سے بھی بڑھ گیا۔ جب فتح مکہ ہوئ اصحابہ اکرام کے دل سوالاکھ تک پہنچ چکے تھے اس وقت وہ آیت اتری کہ میں نے تمھاروں کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دیئے۔ جب ان کے۔ وہ آیت ہرزمانے کے لئے ہے۔
آج بھی اگر کسی کا دل سوا لاکھ تک پہنچ جائے ۔ اللہ قسم اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دے۔
اب جب وہ اللہ اللہ۔ اب لوگ روحانیت کو ڈھونڈتے ہیں۔ قرآن میں ڈھونڈتے ہیں قرآن میں روحانیت نہیں ہے۔ حدیثوں میں ڈھونڈتے ہیں وہاں بھی نہیں ہے۔ کہاں ہے؟ کہاں جائیں؟ کہاں جائیں پھر؟ وہ حضور پاک کے سینے مبارک میں ہے وہ سینہ باسینہ ،سینہ با سینہ وہ مستحق لوگوں کو ملتی ہے۔ جب وہ اﷲ اﷲ اس دل میں گونجنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس ٹک ٹک کا تعلق نسوں سے ہے۔ وہ اللہ اللہ کا نور نسوں میں چلا جاتا ہے کیسے جاتا ہے۔ جس طرح بادل آپس میں ٹکراتے ہیں تو بجلی بنتی ہے اللہ اللہ آپس میں ٹکراتا ہے تو نور بنتا ہے۔ اب سینے میں اللہ اللہ ٹکرا تا ہے۔ اللہ اللہ کا نور نس نس میں گیا پورے خون میں چلا گیا۔ جب پورے خون میں چلا گیا تو اس وقت
شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ تو ایک دفعہ اللہ کرے گا تجھے ساڑھے تین کڑوڑ اللہ اللہ کرنے کا ثواب ملے گا۔
کیسے ملے گا یہ تیرے اندر ساڑھے تین کروڑ نسیں ہیں دل نے ایک دفعہ اللہ کری ساڑھے تین کروڑ نسیں گونج اُٹھیں۔ غوث صاحب نے فرمایا بہتر ہزاراور ثواب ملتا ہے۔ اگر کسی کا دل ایک دفعہ اللہ کرے تو۔ یہ جو مسام ہیں جہاں سے پسینہ آتا ہے یہ بہتر ہزار ہوتے ہیں۔ دل نے ایک دفعہ اللہ کری 72ہزار آوازیں یہاں سے بھی گونجیں۔ مجھے لندن میں ایک ڈاکٹر ملا ولی ڈاکٹر تھا کہنے لگا بات اس سے بھی آگے ہے اس سے آگے کیا ہے؟
یہ جو انسان کے اندر ریڈ جمز ہوتے ہیں وہ بھی اللہ اللہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
وہ تو کھربوں کے حساب سے ہوتے ہیں۔ جب وہ نور نس نس میں جاتا ہے وہ جو مخلوقیں ہیں جن کا ذکر کیا ہے وہ تمھاری نسوں میں ہیں۔ وہ ان مخلوقوں تک پہنچاتا ہے وہ مخلوقیں بیدار ہوجاتی ہیں پھر وہ اللہ اللہ کرنا شروع کردیتی ہیں۔ جب وہ اللہ اللہ کرنا شروع کردیتی ہیں تو پھر کسی نے کہا یہی مسجد، یہی کعبہ، یہی گل گلزار جنت ہے۔ مسجد بھی یہی کعبہ بھی یہی جنت بھی یہی بن جاتا ہے۔ اللہ اللہ کے نور سے ان کی پرورش ہونی شروع ہوجاتی ہے۔ وہ باقاعدہ مخلوقیں ہیں سائنس کہتی ہے حواس خمسہ ہے۔
وہ حواس خمسہ کیا ہے؟ کچھ تو ہوگا نا۔ وہ مخلوقیں ہیں جس طرح جن فرشتے ہیں اس طرح یہ مخلوقیں ہیں۔ اُنکو لطائف بولتے ہیں۔ یہ صرف اندر سورہی ہیں۔ جب انہوں نے اللہ اللہ کرنا شروع کردی پھر یہ اندر بالغ ہونا شروع ہو جاتیں ہیں۔ جب یہ بالغ ہوجاتیں ہیں بارہ سال لگتے ہیں تم نے سوچا کہ دیکھیں حضور پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کیا کررہے ہیں ۔ تم نے سوچا وہ اس سینے سے نکلیں اور حضور پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں۔
اُس وقت بلھے شاہ نے فرمایا لوکی پنج ویلے تے عاشق ہر ویلے لوکی مسیتی عاشق قدماں۔
جو لوگ پانچ وقت رب کو یاد کرتے ہیں انکی انتہا مسجد ہے باجماعت ہو جائیں گے اور کیا کریں گے۔ جو اسکے ساتھ ہر وقت اللہ اﷲ بھی کرتےہیں وہ تو حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں پہنچ جاتے ہیں۔ قدموں میں پہنچ گئے نوازے تو گئے۔ اب تم نے سوچا دیکھیں اوپر کیا ہورہا ہے تم نے سوچا یہ اوپر پرواز کرگیئں۔ فرشتوں نے روکا۔ نہیں رکیں۔ کہنے لگے جو کچھ بھی بیعت المعمور سے آگے جل جائے گا۔ یہ وہاں پہنچ گئیں جہاں رب کی ذات ہے۔
اُس وقت فرشتے کہتے ہیں کہ واقعی ہی انسان اشرف المخلوقات ہے۔
ہم تو وہاں نہیں پہنچ سکتے یہ وہاں سے بھی ہوکر آگیا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوا کہ وہ مرگئے مرنا تو سب کو ہے نا ہمارا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد خواہ ولی ہے، نبی ہے ہر کوئ گناہ گار ہے سب کی روحیں آسمانوں میں چلی جاتیں ہیں۔ یہ ہمارا عقیدہ ہے۔ پھر درباروں میں کیا ہے۔ روحیں اگر سب کی اوپر چلیں گیں تو پھر درباروں میں کیا ہے؟ یہ جو اضافی مخلوقیں تھیں یہ ولی بن کر دربار میں بیٹھ گئیں۔ نماز پڑھتیں لوگوں کو فیص پہنچاتیں اللہ اللہ کرتیں اور قیامت تک ان کا ثواب ان روحوں کا ثواب ان کی روح مقامی کوملتا رہے گا۔
غوث پاک کی ایک وقت میں نو آدمیوں نے دعوت پکائی نو کے گھر جاکر کھانا کھایا۔ جسم تو نو نہیں بنے نا ۔آپ کا جسم مبارک مسجد میں مؤذن کے پاس تھا وہ اس جسم کے اندر کی مخلوقیں اُدھر جاکر کھانا کھا رہی تھیں۔ اگر کھانا کھایا ہوگا اٹھیں بھی ہونگی بیٹھی بھی ہونگی باتیں بھی کری ہونگی۔ اور جس میں اٹھنے بیٹھنے باتوں کی طاقت ہے۔ نماز میں یہ ہی کچھ ہے، نماز میں یہ ہی کچھ ہے نا۔ ہو سکتا ہے ان کی نماز خانہ کعبہ میں ہوتی ہو وہ جو کہتے ہیں کہ درویش کی نماز عرش معلی میں ہوتی ہے۔ کہتے ہیں نا ہمارے مولوی بڑے چڑتے ہیں، میں تو دیوار سے اوپر نہیں جا سکتا، یہ عرش معلٰی میں کیسے پہنچ گیا۔ او یہ جسم عرش معلٰی میں نہیں جاتا ہے۔ وہ جسم کے اندر کی چیزیں عرش معلٰی میں جاتیں ہیں۔ ثواب کس کو ملتا ہے جس کی ہیں۔
یہ تمھارے اندر سات لطا ئف ہیں۔ نو ان کے خلیفیں ہیں سولہ مخلوقیں اس ڈھانچہ میں بند ہیں۔
اگر تم ان میں سے اک مخلوق کو جگا لو تو یقین کرو کہ تم مر کےوہ ختم ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ تمھاری زندگی میں ہی ختم ہوجائیں پھر تم زندہ ہی مردہ ہو۔ بھی زندہ ہو۔
اگر تم نے ان نہیں چھیڑا تو چالیس سال کے بعد۔
ایک آدمی نے مجدد صاحب سے کہا کہ میں نے آپ کوفلاں دن خانے کعبے میں دیکھا فرمانے لگے میں نہیں گیا دوسرے نے کہا اُسی دن حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے روضے پہ دیکھا فرمانے لگے میں نہیں گیا تیسرے نے کہا اسی دن غوث پاکؐ کے روضے پہ دیکھا فرمانے لگے میں گیا ہی نہیں۔ لوگوں نے پوچھا پھر کیا تھا فرمانے لگے میرا اندر تھا۔ جتنے بھی یہاں بیٹھے ہیں سب کے اندر وہ مخلوقیں موجود ہیں ۔
لیکن بھٹ شاہ والے فرماتے ہیں نماز روزہ کم سُٹو او رستہ کوئی دوجو
کہ نماز روزہ کام چنگا ہے لیکن او رستہ کوئی دوجہ ہے۔
یہ جسم خانہ کعبہ تک جاسکتا ہے اللہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ جا کر دیکھاؤ نہیں پہنچ سکتا لیکن وہ جو تمھارے اندر مخلوقیں ہیں ان کو اگر تم پرورش کرو وہ اللہ کی ذات تک پہنچ سکتی ہیں۔ حاضری کے بغیر دو علم ہیں۔ دین اسلام کے دو پر ہیں ایک پرسے پرندہ نہیں اُڑ سکتا یہ دو پر ہیں ایک ظاہر ہے ایک باطن ہے۔ تم ایک پر سے اُڑنے کی کوشش کر رہے ہو کبھی نہیں اُڑ سکتے۔ اب جو لوگ نماز پڑھنے والے مسجدوں میں تک ہی محدود ہیں نا۔ چالیس، پچاس سال سے نمازی ہیں نا آگے تو کچھ نہیں ہو سکے نا۔ ان کو شیطان کہتا ہے تو نے نماز پڑھ لی ذکر میں کیا رکھا ہے۔ ان کو وہیں مسجد میں چکر لگاوا رہا ہے۔ اب وہ جو ذکر کرنے والے ہیں ان کو بھی ہم نے جنگلوں میں دیکھا۔ ان کو شیطان کہتا ہے تو نے اﷲ اﷲ کری چوبیس گھنٹے کرتا ہے نماز میں کیا رکھا ہے۔ ان کی کچھ دل کی صفائی ہوگئی۔ لیکن مرتبہ وہ بھی نہیں پاسکیں۔ مرتبہ ان لوگوں نے پایا جنہوں نے زبان کو بھی اپنایا اور دلوں کو بھی اپنایا۔ جنہوں نے زبانوں سے بھی نمازیں پڑھیں دلوں سے بھی اللہ اللہ کری انھیں لوگوں نے مرتبہ پایا۔
ایک حدیث شریف میں ہے لا لصلوٰةالا بحضور لقلب دل کی حاضری کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
آّپ کہتے ہیں کہ میں دل سے نماز پڑھتا ہوں سارے کہتے ہو میں دل سے نماز پڑھتا ہوں۔ گرمی میں بھی جاتا ہوں ، بارش میں بھی مسجد میں جاتا ہوں۔ دل سے نہیں پڑھتا کیا؟ یہ ہی مغللطہ ہے بھائ تم نے دیکھا ہوگا کہ تمھارا کوئی دوست عزیز 20،25سال تمھارے ساتھ نمازیں پڑھتا رہا وہ بھی تمھاری طرح مسجد میں جاتا تھا گرمی، سردی میں اچانک پتہ چلا کہ غیر مقلد ہوگیا۔ ہے نا ایسے۔ اگر اسکی ایک بھی نماز قبول ہوتی تو وہ غیرمقلد کیوں ہوتا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس نے کئی نمازوں کی نفی کردی نا جب اس کی نمازیں قبول نہیں ہوہیں تو تمھاری نمازوں کا کیا اعتبار۔ کوئی کیا اعتبار۔ یہ نماز صورت ہے۔ مجدد صاحب فرماتے ہیں ہر آدمی نماز صورت، ضاصان خدا کی نماز حقیقت۔ فرماتے ہیں ہر آدمی کو چاہیے کہ نماز حقیقت کی تلاش کرے۔
وہ جو حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علم حاصل کرو تمھیں چین تک کیوں نہ جانا پڑے۔ وہ اس علم کے لیے نہیں ہے۔
یہ تو مسجد جائیں مولوی صاحب نماز سیکھا دیں گے۔ یہ تو ہر گھر ہر گاؤں میں مسجدیں موجود ہیں مولوی صاحب موجود ہیں نہیں وہ جو دل والا علم تھا اس کے لئے چین تک جانا پڑتا ہے۔ وہ ہر محلے میں نہیں ہے ہر گھر نہیں ہے۔ اس کے لئے یہ نماز صورت کیا ہے؟
نماز صورت ٹکریں ہیں نماز صورت دکھاوا ہے نماز صورت تباہی ہے۔ جس کو تم پڑھ رہے ہو وہ تباہی ہے۔
قرآن مجید خود فرماتا ہے ان نمازیوں کیلئے تباہی ہے۔ جو نماز حقیقت سے بے خبر ہیں انکی نماز دکھاوا ہے۔
تباہی کیسے ہے؟ لوگوں نے کہا پانچ وقت کا نمازی ہے دل میں تکبر آیا نا۔ دوسرے نے کہا تہجد بھی پڑھتا ہے اور تکبر آیا۔ تکبر کو نکالنے والا علم اس نے سیکھا ہی نہیں ہے۔ وہ علم باطن ہے جو تکبر کو نکالتا ہے۔ وہ اس نے سیکھا ہی نہیں ہے۔ جب تکبر آیا تو ایک دن بے نمازی کو دیکھا بڑی حقارت سے دیکھا کہ میں تجھ سے بہتر ہوں۔
یہ نہیں پتہ کہ تکبر عزرازیل را خوار کرد۔ نمازیں وہ بھی پڑھتا تھا اگر اس کو شیطان بنایا تو تکبر نے بنایا نا۔
اب یہ ایک تباہی بھی ہے پتہ ہے کسطرح ہے کہتا ہے ساری سُنتیں اپناؤ چھوڑنا کوئ بھی نہیں ہے کوئ سُنت چھوڑتا نہیں ہے اب کہنے لگا اب مجھ میں تو حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں کیا فرق رہا اب تو وہ میرے بھائ کی طرح ہے جب یہاں تک پہنچا تو اُس کا ایمان ہی چلا گیا تو وہ نمازیں تباہی کی طرف لے گی نا۔ جب گستاخ بن گیا حضور پاک کا تو اس کا ایمان ہی چلا گیا نا۔ اس سے تو بہتر بے نمازی تھا عاجز تو تھا نا گستاخ تو نہیں تھا نا۔ یہ نماز صورت ہے اور یہ نماز دکھاوا بھی ہے ۔
دکھاوا کیسے ہے؟ اللہ تعالیٰ نے حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کوفرمایا قل ھو اللہ احد کہہ دییجئے اللہ ایک ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے امین کہا ۔ حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کہا کہہ دو کہ اللہ ایک ہے جنہوں نے آمین کہا مسلمان جنہوں نے نہیں مانا کافر اور جنہوں نے حیل وحجت کری منافق۔ اب مسلمان کس کو کہتا ہے کہ کہہ دے اللہ ایک ہے وہ اپنے دل کو کہتا ہے کہ کہہ دے اللہ ایک ہے دل جواب دیتا ہے گھر میں آٹا ہی کوئی نہیں ہےحیل وحجت کرتا ہے نا، پھر کہتا ہے اللہ الصمد اللہ بے نیاز ہے دل کہتا ہے بیوی بیمار ہے لم یلد ولم یولد دل کہتا ہے ڈیوٹی سے لیٹ ہوگیا چل ۔ جو زبان میں ہو وہ دل میں ہو وہ صادق ہے۔ زبان میں اور دل میں اور وہ منافق ہے۔ کافروں کی زبان اقرار نہیں کرتی اور منافقوں کے دل تصدیق نہیں کرتے اور فاسقوں کے جسم عمل نہیں کرتے۔ بتاؤں تمھارا دل تو منافق تھا۔ وہ بڑے خشوع و خصوع سے نماز پڑھتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں بڑی دیر سے لگا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نہیں نہ عملوں کو دیکھتا ہوں نہ شکلوں کو دیکھتا ہوں نہ اسکی داڑھی کو دیکھتا ہوں نہ اس کے سجدے کو دیکھتا ہوں۔ میں اس کے قلب اور نیت کو دیکھتا ہوں۔ جس کو دنیا دیکھتی ہے اُس میں وہ ہوشیار ہے جس کو اللہ دیکھتا ہے اُس میں کاروبار ہے۔ یہ نماز دکھوا ہے۔
یہ نماز صورت ہے پڑھ تو چاہیے ساری عمر اس کا کوئ نہیں پوچھے گا۔
پوچھتے اسکا ہیں جو جاتا ہے جو جاتا ہی نہیں اسکا کیا پوچھیں گے۔ پوچھیں گے نماز حقیقت کا پوچھیں گے جو اوپر پہنچتی ہے ۔ نماز صورت کو کوئی نہیں پوچھے گا اس کا کوئی مقام نہیں ہے۔
اب وہ نماز حقیقت کیا ہے۔ اس کے لئے تمھیں سب سے پہلے اللہ اللہ سیکھنی ہوگی۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ کچھ لوگ قرآن پڑھتے ہیں قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے۔ وہ جن کے نفس عمارہ ہے جن کے اندر کتے ہیں۔ آج کل بچے کو دیکھتے نہیں کہ پاک ہے یا ناپاک ہے نفس کی حقیقت کیا ہے۔ مدرسے میں داخل کرلیتے ہیں نا۔ سب سے پہلے قرآن مجید پڑھاتے ہیں نا۔ اور وہاں تو لکھا ہوا ہے کہ کچھ لوگ قرآن مجید پڑھتے ہیں اور قرآن ان کے پر لعنت کرتا ہے مجدد صاحب فرماتے ہیں مقتدی کو چاہیے کہ پہلے ذکر اﷲ کرے پہلے اپنے نفس کو پاک کرے جب نفس پاک ہوجائے پھر قرآن پڑھے اس وقت ایک لمحہ فکریہ سوسال کی عبادت کے برابر ہے۔ اس وقت قرآن اس کے اندر اترے گیا نا۔ اب تو قرآن اندر نہیں اتر رہا نا۔ اب توقرآن زبان میں اوپر اوپر ہی ہے نا۔ جب اللہ اللہ سیکھو گے، کوشش کرؤ گے کام کا ج کرتارہوں اللہ اللہ ہوتی رہے اس کو بولتے ہیں دست کار میں دل یار میں۔ پھر کوشش کرو گے اخبار، رسالہ پڑھتا رہوں اللہ، اللہ ہوتی رہے کامیابی ہو جائے گی پھر کوشش کرو گے نماز پڑھتا رہوں اور اللہ ،اللہ ہوتی رہے اُس وقت زبان کہے گی کہہ دے اللہ ایک ہے دل کہے گا اللہ ای اللہ اللہ الصمد دل کہے گا اللہ ہی اللہ ۔ لم یلد ولم یولد دل کہے گا اللہ اللہ۔ اب جو زبان میں ہے وہ دل میں ہے۔
اس کو بولتے ہیں اقرار بالسان تصدیق بالقلب۔
زبان کا کمال ہے امریکہ سے بولتے ہیں یہاں سنتے ہو۔ دل کا کمال ہے یہاں گونجتا ہے عرش معلیٰ والے سنتے ہیں، تمھاری اس نماز کو یہ دل عرش معلیٰ میں پہنچا ئے گا وہ نما ز مومن کا معراج ہے۔ یہ مومن کی نما ز ہے۔ ولی کی نماز نہیں ہے۔ ولی کی نماز کچھ اور ہے ولی کی نماز کیا ہے؟ مومن اس جسم تک ہے، مسلمان اس جسم تک ہے ، ولی اس جسم سے آگے ہے۔ ایک ولی ہے عارف، ایک ولی ہے معارف۔ عارف کے جسم کے اوپر تجلی پڑتی ہے اس کا جسم ولی بن جا تا ہے۔ اس کے جسمم حضور پاک کی محفل میں کاسکتا ہے کیونکہ جسم جو ولی ہوگیا۔ وہ جو معارف ہے اس کی کسی روح کے اوپر تجلی پڑتی ہے اس کی روح ولی ہوجاتی ہے۔ وہ اس روح سمیت حضور پاک کی محفل میں سکتا ہے۔ معارف دیکھتا ہے کتنا خوش نصیب ہے اس جسم سمیت حضور پاک کی محفل میں بیٹھا ہےکتنا خوش نصیب ہے اتنے میں حضور پاک کسی سے بات کرتے ہیں۔ وہ عارف پوچھتے ہیں آپ کس سے بات کررہے ہیں جو نظر نہیں آرہا میں اس شخص سے بات کررہا ہوں جس کی روح میرے پاس اور جسم دنیا میں۔ اس وقت عارف کہتا ہے کتنا خوش نصیب ہے دنیا میں بھی بیٹھا ہے اور ادھر بھی بیٹھا ہے۔ اس کے بعد پھر نماز کا وقت آجاتا ہے ۔
عارف کو ولی ناسوتی بولتے ہیں، معارف کو ولی کامل بولتے ہیں بولتے ہیں وہ صرف ولی ہے یہ ولی کامل۔
نماز کا وقت آتا ہے حکم ہوتا ہے یہ جو جسم والے ہیں یہ جسم والوں کے ساتھ نماز پڑھیں اس معارف کی روح کے ذریعے حضور پاک کے پیچھے نماز ہوتی ہے۔ اسی قسم کا ایک معارف مجدد صاحب سے ٹکرا گیا۔ آپ مسجد میں گئے دیکھا آیک آدمی سورہا ہے پھرآپ عصر کے بعد گئے دیکھا سو رہا ہے۔ مغرب کی نماز ہورہی ہے سو رہا ہے ۔آپ ذرا جلال میں آگئے اس کو جگایا اٹھ یا تو نماز پڑھ یا مسجد سے نکل جا۔ وہ فوراً اٹھا وضوکیا مغرب کی جماعت کھڑی ہونے والی تھی۔ اے امام صاحب زرا ٹھہر جائیں کہا دو رکعت سنت وقت فجر۔ دیکھتے ہیں ، فجر کا سماں ہوگیا۔ پھر اس نے وہاں ظہر کی نماز پڑھی عصر کی نماز پڑھی۔ کہتے ہیں راوی لکھتا ہے کہ جب اس نے کہا کہ عصر تو سورج واپس لوٹ آیا۔ اُس وقت اُس نے کہا مجدد صاحب! آپ تو صاحبِ نظر تھے ۔ بہتر تھا مجھے جگانے سے پہلے میرا حال دیکھ لیتے۔ میں تو اُسی کے پاس تھا جسکی تم نمازیں پڑھتے ہو۔
غوث پاک پے اسی بات پے فتویٰ لگا تھا۔ اب تم کو پتہ ہے غوث پاک پے فتویٰ لگا تھا۔ علماء نے فتویٰ لگایا تھا، یہ نہیں پتہ کیوں لگایا تھا۔ یہ نہیں پتہ نا۔ غوث پاک نے فرمایا تھا کہ جو اللہ کا دیدار کرلے پھر وہ نماز پڑھے تو اس نے کفران نعمت کیا آپ بات بڑی سخت تھی۔ لوگوں نے کہا کہ حضور پاک نے بھی اﷲ کا دیدار کیا تھا وہ بھی نماز پڑھتے تھے۔ آ پ کہتے ہیں میں نے اﷲ دیدار کیا ہے آپ بھی نماز پڑھتے ہیں۔ یہ کفران نعمت کیوں کہا؟ بہت سے لوگ مخالف ہوگئے۔ علماء نے فتوٰی، کفر کا فتوٰی دے دیا۔ جب دیکھا کہ کچھ لوگ نادانی میں کچھ جان بوجھ کر نکل گئے ان کا نقصان ہورہا ہے۔ پھرواپس بھلایا آؤ تم کو بتاؤں اس کا راز کیا ہے۔ اُس وقت وہ راز کھلا انھوں نے کہا کہ کچھ دیدار والے مفید ہوتے ہیں کچھ دیدار والے مستفید ہوتے ہیں کچھ دیدار والے منفرد ہوتے ہیں۔ وہ جس نے رب کا دیدار کیا وہ مفید ہے اگر اُسکو حکم ہے کہ وہ شہر میں رہے۔ مخلوق میں رہے نماز پڑھے لوگ اُسکی نماز کو دیکھیں گے رب کے تعلق کو نہیں دیکھیں گے۔ لوگ اس کی نماز کی وجہ سے اس کی طرف رجوع کریں گے اس کے لیے کہا ہے دنیا میں رہے۔ دوسرا ہے مستفید ہے جس نے دیدار بھی کیا علم کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے لئے بھی حکم ہے کہ وہ دنیا میں رہے دنیا کو فیض بھی پہنچاے خود بھی فیض حاصل کرے اور تیسرا وہ منفرد ہے اس کے لئے حکم ہے اس کا دنیا میں رہنا حرام ہے بھئی اس کو فیض دینے کی طاقت نہیں ہے بات کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ وہ جنگل میں رہے جب بھی نماز کا وقت آے اس کو دیکھ لے اُسی کی نماز ہے پھر اُسکو رکوع و سجود کی ضرورت نہیں ہے۔ بس نماز کا وقت آے رب کودیکھ لے۔ ولیًوں کی نماز یہ ہے۔
اب اس کے لئے یہ ہے کہ جب انسان کا دل خالی ہوتا ہے اُس میں شیطان بیٹھ جاتا ہے۔
آپ بھلے بہت بڑے عابر زاہد عالم کیوں نہ ہوجائیں باہر سے اندر شیطان قبضہ کر لیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب سارے عالم ہیں ایک ہی قرآن ہے تو پھر آپس میں وہ لڑتے کیوں ہیں، کیوں لڑتے ہیں؟ ایک ہی کلمہ ہے، ایک ہی قرآن ہے، ایک ہی علم ہے ان کے پاس ایک ہی مدرسے میں پڑھے ہوئے ہیں۔ پھر کیوں لڑتے ہیں؟ یہ نہیں کہو سُنی وہابی لڑتا ہیں ۔ سُنی سُنی بھی لڑتے ہیں۔ وہ جو اندر شیطان دلوں میں بیٹھ جاتا ہے وہ لڑاتا ہے۔
شیطان کے دو کام ہیں جس سے وہ بہت ہی خوش ہوتا ہے ایک میاں بیوی کو لڑا دیتا ہے۔ جس سے بڑا خوش ہوتا ہے
اور دوسرا مولوی کو مولوی سے دیتا ہے اس سے بھی بڑا خوش ہوتا ہے۔
لیکن اگر عالم یقین کرؤ یہ دونوں مخلوقیں عالم اور یہ عورتیں یہ فرشتہ ہیں اگر ان کے دل میں اللہ اﷲ چلا جائے تو یہ تو فرشتہ ہیں نا۔ عورتیں گھروں میں رہتیں ہیں کیا کرتیں ہیں دل خالی ہوتے ہیں ۔ حرص حسد و بغض آجاتا ہے نا۔ اگر اللہ اللہ ہوے تو یہ حرص حسدو بغض کیوں آئے۔ اور وہ عالم مسجدوں میں رہتے ہیں نا۔ کینہ کیوں آتا ہے اؤ دل خالی ہے نا کیونکہ دلوں میں اگر اللہ اللہ آجائے تو یہ ہی عالم باعمل بن جائے نا ۔ تو یہ وہ عالم بن جائے نا۔ جن کے لیے حضور پاک نے فرمایا کہ میرے عالم بنی اسرائیل کے نبیوں کی مانند ہیں۔ یہ وہ عالم بنیں نا اور آج ایسے عالم ہم نے دیکھیے ہیں۔ ملتان میں قادری صاحب تھے۔ لاڑکانہ میں نقوی صاحب تھے۔ ابھی بھی کئی عالم اس قسم کے ہیں لیکن جو اس کے بغیر عالم ہیں پھر وہ لڑنے لڑانے والے ہیں۔ اس کے لئے یہ ہے کہ تھوڑا سا طریقہ بتا دؤں ہوسکتا ہے کسی کے دل میں یہ بات آگئی ہو۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ روزانہ چھیاسٹھ 66مرتبہ سفید کاغذ پر کالی پنسل سے اللہ لکھیں۔ آپ تھوڑے دن لکھیں گے جو کاغذ پہ لکھتے تھے وہ آپ کی آنکھوں پہ تیرنا شروع ہو جائے گا۔ آنکھوں سے پھر اُس کو دل کے اوپر اتارنے کی کوشش کریں پھر ایک دن آئے گا جو کاغذ پہ لکھتے تھے وہ دل پہ لکھا نظر آئے گا۔ پولیس کی مہر لگی ہوئی ہے پولیس والا۔ اللہ لکھا گیا اللہ والا اس وقت دل کی دھڑکن تیز ہوجائے گی۔ ٹک ٹک ٹک اُس ٹک ٹک کے ساتھ اللہ ہو ملائیں۔ اک کے ساتھ اللہ اک کے ساتھ ھو۔ گھڑی گھڑی اسطرح کریں گے وہ دل کی ڈھرکنیں اللہ ہو میں تبدیل ہو جایں گیں۔ رات کو سونے لگیں اُنگلی کو قلم خیال کریں۔ دل کے اوپر تصور سے اللہ اللہ لکھتے رہیں۔ اسی میں نیند آجائے گی۔ جو سوتے وقت نیت ہوتی ہے خواب میں بھی وہی کچھ ہوتا ہے۔ اللہ ھو پڑھتے پڑھتے سوگئے اور خواب میں بھی اللہ ہو کرتے رہے۔ صبح کاروبار کے لیے جاتے ہیں تو ذکر خفی کرتے ہیں۔
جب تک دل کی ڈھڑکن سے نہیں ملتا اُسکو ذکر خفی کہتے ہیں جب دل کی دھڑکن سے مل جاتا ہے۔ اُس کو ذکر قلبی کہتے ہیں۔
پھر وہ ذکر قلبی کہلاتا ہے۔ وضو ہو یا نہ ہو دل کا وضو پانی سے نہیں ہوتا ہے جب وہ اللہ کا نور اس دل میں جائے گا اسکو بولتے ہیں وضو کرلے شوق شراباں دا اور وہ وضو گھڑی گھڑی نہیں وہ زندگی میں ایک بار ہی کافی ہے۔ اگر ذکر سے گرمی محسوس ہوتو درود شریف پڑھیں وہ درود شریف اس کو ٹھنڈا کردے گا۔ اب یہ جو بیعت ہوتے ہیں اسکا مقصد کیا ہے۔ یہاں کچھ پڑھے لکھے لوگ بھی ہوں گے سمجھ جائیں گے۔ ہمارے ملک میں زیادہ حنفی ہے حنفی ہیں نا آپ کو نماز روزہ حافظ حنفی بنا دے گا بنادے گا نا۔ سارے مسلے سب طور طریقے سیکھا دے گا۔
تو پھر آپ چشتی یا قادری کیوں ہیں کیا نقط ہے؟ نقط یہ ہے بغیر بک کے بھی آپ داڑھی رکھ سکتے ہیں نماز پڑھ سکتے ہیں حافظ بن سکتے ہیں بغیر بک کے بھی۔ وہ کون سی چیز ہے جس کے لئے آپ اپنے آپ کو بیچتے ہیں اپنے آپ کواس چیز کے لئے بیچتے ہیں جو آپ کے بس میں نہیں ہے اور ہے بھی وہ بہت اعلیٰ چیز ہے جس کے لیے آپ بکتے ہیں۔ بیعت کا مقصد ہے بک جانا۔ یہ آپ کے بس میں نہیں ہے آپ یہاں سوتے رہیں۔ اُدھر حضورپاک کے قدموں میں ہوں۔ آپ کے بس میں نہیں ہے کہ آپ سوتے رہیں۔ آپ کا دل اللہ اللہ کرتا رہے اگر آپ بکتے ہیں تو اس کا م کے لئے بکتے ہیں نا۔ اگر بک کر بھی آپ کو یہ چیز حاصل نہیں ہوئی تو پھر آپ بے نصیب ہیں۔ پھر آپ بے نصیب ہیں یہ جو چیز حاصل ہوتی ہے تو یہ ولیوں سے حاصل ہوتی ہے۔ ولی کا تعلق اللہ سے ہوتا ہے جب تمھاری نسبت ولی سے ہوگی ولی کی نسبت اللہ سے خود ہی رشتہ جوڑ جاتا ہے نا۔ اب جو ولی کا بیٹا وہ تو ولی نہیں ہوسکتا نا یہ وراثت تو نہیں ہے نا۔ اگر وراثت ہوتی تو نبوت ورثت ہوتی نا۔ ہر نبی کا بیٹا نبی ہوتا نا۔
جب ہر نبی کا بیٹا نبی نہیں ہوسکتا تو ولی کا بیٹا ولی کیسے ہوسکتا ہے۔
یہاں سے بات بگڑی ہے کے ولیوں کے بیٹے ولی، پھر آگے پوتے بھی ولی وہ تو پھر رسم ادا ہورہی ہے جب رسم اداء ہورہی ہے تو ملنا۔ ملنا تو اُن لوگوں سے تھا جو ولی تھے نا۔ اب آگے جو ہیں ان سے کیا ملنا؟ اب وہ بھی خالی اور یہ بھی خالی وہ بھی کم بخت اور یہ بھی کم بخت یقین کرو۔ اگر کوئی شخص نبی نہیں ہے اپنے آپ کو نبی کہلاتا ہے کافر ہوجاتا ہے نا۔ اسکے ماننے والے بھی کافر ہیں اگر کوئی ولی نہیں ہے تو ولی کہلاتا ہے تو کیا ہوگا۔ وہ بلکل کفر کے نزدیک پہنچ جاتا ہے اس سے بڑا گناہ دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے نبی کو ماننے والے کافر ہوگئے اور جھوٹے ولی کو ماننے والے کم بخت اور بے نصیب اور یقین کرو بیعت کری تھی اللہ کے لئے اللہ کو جسم نہیں جاتا ہے۔ جسم کے اندر کی چیزیں جاتی ہیں نا۔ اُنہوں نے اُسکو کچھ سیکھایا ہی نہیں ہیں نا، وہ چیزیں بے کار ہوگئیں ہیں نا ۔ ختم ہوگئیں نا تو وہ سولہ مخلوقوں کا قتل ہے۔ جس سے بیعت کری وہ سولہ مخلوقوں کا قاتل ہے۔ اک ہزار مرید ہیں تو وہ سولہ ہزار مخلوقوں کا قاتل ہے۔
ولایت اُس وقت جب تک ولی اس کو بولتے ہیں ولی اللہ، اللہ کا دوست۔ دوست کو جب تک دیکھیں نہیں وہ دوست ہی نہیں ہوتا ہے۔
نہ رب سے بات چیت ہے نہ رب دیکھا ہوا ہے تو ولی بنئے ہوتے ہیں یہ لوگ سخت گھاٹے میں ہیں۔
اور جو اپنے آپ کو ولی سمجھتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کو دیکھیئے اور اُس سے بات چیت کرے۔
اب رہا سوال کہ بیعت کے بغیر بھی گزارا نہیں ہے۔ لوگ ڈھونڈتے ہیں اللہ کو اللہ انھی لوگوں سے ملتا ہے نا۔ ان میں سے کوئی اصل ہوتو اسے ملے نا۔ نقل سے کیا ملے گا اور لوگوں کو شناخت اس کی بھی کوئی نہیں ہے۔ جسطرح چور کو چور پہچانتا ہے ولی کو ولی پہچانتا ہے ۔ اگر ہیرے کی تلاش ہے تو سب سے پہلے جوہری کو ملے گا۔ پھر ہیرے کے لیےنکلنا تو جب بھی ملے گا اصلی ہی ملے گا نا۔ اگر تمھیں اللہ کی تلاش ہے تو سب سے پہلے جوہری بنو۔ دل کی دھڑکنوں کو اللہ اللہ میں لگاؤ جب یہ اللہ اللہ میں لگ جائیں گی بری امام چلے جانا وہاں اللہ ہے یہاں بھی اللہ جب ٹکرائے گا رکت پیدا ہوجائے گی سمجھ جاؤ گے کہ ولی اللہ ہے۔ داتا صاحب چلے جانا وہاں بھی اللہ ہے یہاں بھی اللہ ذکر تیز ہوجائے گا رکت پیدا ہو جائے گی۔ پھر اپنے مرشد کے پاس چلے جانا اگر وہاں بھی یہ چیز ہوتی ہے اس کے پاس جانے سے ذکر تیز ہوجاتا ہے رکت پیدا ہوجاتی ہے تو واقعی تمھارا مرشد کامل ہے پھرتم جیسے بھی ہو پروا نہیں آپے ای لا سی سا را ھو۔ کامل ہے نا۔ وہ جانے یا رب جانے ہم نے تو ہاتھ اس کے ہاتھوں میں دے دیا ہے لیکن بار بار اُس کے پاس جاتے بار بار جاتےہو کچھ بھی نہیں ہوتا وہ کامل نہیں ہے نا تو پھر وہ ناقص ہے نا تو پھر وہ جدھر جائے گا سولہ ہزار مخلوقوں کا قاتل بہشت میں تھوڑی جائے گا جدھر وہ جائے گا وہ اپنے مال کو ساتھ لے کر جائے گا۔ تم تو اس کے مال ہو خریدے ہوے ہو نا جدھر وہ جاے گا تم کو وہ گھسیٹ کر لے کر جاے گا نا۔ اس سے بہتر ہے کہ پہلے تم جوہری بنو پھر تم ان مرشدوں کی تلاش میں نکلو اور واقعی ان کے بغیر چارا بھی کوئ نہیں ہے نہ ہم تم کو بیعت کرتے ہیں نہ تم سے کوئی نذرانہ طلب کرتے ہیں۔
ایک راز قیمتی ملا تھا وہ راز تم کو بتا دیا۔
یہ ضرور لوگ کہیں گے کہ بغیر بیعت کے فیض نہیں ہوتا لیکن اگر فیض ہے کہیں سے منسلک ہوے تب فیض ہوا نا۔ بھئی ٹھیک ہے بغیر بیعت کے فیض نہیں ہوتا لیکن فیض شروع ہوگیا تو کہیں سے منسلک ہوگے نا۔ ہم تمھاری اس وقت تک حفاظت کریں گے جب تک تمھارا سینہ منور نہیں ہوجاتا جب تک تم روشن ضمیر نہیں بن جاتے۔ پھرجب تک تم روشن ضمیر بن جاؤں گے نا کسوٹی آجائے گی نا۔ تو پھر ایک سے ایک پڑا ہوا نا۔ جو تم کو بہتر لگا وہاں جاکر بیعت ہوجانا۔ جب کوئی شخص ہروقت اللہ اللہ کرتا ہے آپ کسی چیز کو دل میں بسا لیں اُس سے محبت ہوجاتی ہے جب تم ہر وقت اللہ اللہ کرو گے تمھارے دل میں اللہ کی محبت ہوجائے گی۔
لوگ جو محبت کرتے ہیں وہ مکاری ہے محبت کی نہیں جاتی محبت ہوجاتی ہے۔
محبت کا تعلق اس زبان سے نہیں ہے محبت کا تعلق اس دل سے ہے۔
جب دل میں اللہ اللہ آیا اﷲ سے محبت ہوگئی ۔ جب اللہ سے محبت ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ کسی کا احسان لیتا ہی نہیں ہے اپنے اوپر اس کے لئے ایک روپیہ خرچ کرو دس روپے لوٹا دیتا ہے۔ ایک نیکی کرو دس نیکییوں کو ثواب لوٹا دے گا تھوڑی سی محبت کرو دس گنا محبت کرے گا۔ جب اللہ سے محبت کرلی تو خطرہ کس چیز کا اس وقت کتنے فرقے ہیں کتنے اسلامی ممالک ہیں سارے کہتے ہیں ہم مسلمان مسلمان زبان سے کہتے ہیں کہ سارے مسلمان ہیں۔ سارے اسلامی ممالک ہیں جی سارےمسلمان ہیں۔ اگر سارے مسلمان ہو تو ایک دوسرے کو کافر کیوں کہتے ہو؟ او زبانوں سے مسلمان ہیں دلوں سے مسلمان نہیں ہیں۔ زبانوں سے ایک ہیں دلوں سے ایک نہیں ہیں۔ جب ان کے دلوں میں اللہ اللہ گونجے گا تو پھر یہ زبانوں سے بھی ایک دلوں سے بھی ایک فرقہ واریت اس وقت ختم ہوگئی۔ اس سے پہلے ڈنڈے سے ختم نہیں ہوسکتی۔ اب حکومت کہتی ہے کہ ڈنڈے سے ختم کرواور ڈنڈے سے شیطان کیسے نکلے گا۔ بايزيد بسطامى رحمتہ علیہ جب اللہ اللہ کی ضربیں لگاتے تو شیطان ستاتا ان کو ایک دن ڈنڈا لے کر اُس کے پیچھے بھاگے۔ آج اس کو ماروں گا ۔ آواز آئی یہ ڈنڈوں سے نہیں مرتا یہ اللہ کے نور سے مرتا ہے۔
جب ہر وقت اللہ اللہ شروع ہوگئی پھر یہ سینہ منور ہوگا پھر یہ نہیں کہیں گے میں شیعہ ہوں میں سنی ہوں میں وہابی ہوں۔ یقین کرو یہ کہنے سے شرم آئے گی تمھیں تمھیں سنی بھی کہنے سے شرم آئے گی۔ کہو گے نہیں امتی ہوں تمھارا یارسول اللہ میں بس امتی ہوں اور کچھ نہیں ہوں یہ ایک طریقہ ہے اللہ اور بندے کے درمیان یہ ایک ٹیلی فون ہے اور فرماتا ہے ہاتھوں سے کوئی کام نہ کر مجھے اعتراض نہیں ہے۔ ڈراوری کر۔۔۔۔ مجھے کیا ہے۔ ٹانگوں سے لاہور جا پشاور جا مجھے کیا ہے۔ اور زبان سے میری نعمتیں کھا چکھ مجھے کیا اعتراض ہے آنکھوں سے مخلوق کا نظارہ کانوں سے سن
ایک چیز میرے لیے چھوڑ دینا وہ چھوٹا سا دل۔ اگر تونے اس کو بھی دنیا میں لگا دیا تیرا میرا رشتہ ہی ختم ہوگیا۔
یہ اللہ اور بندے کے درمیان ایک ٹیلیفون ہے۔ یہ ٹیلیفون پہلے صاف کرتے ہیں۔ اللہ اللہ سے صاف کرتے ہیں پھر جب یہ صاف ہوجاتا ہے۔ پھر اللہ اللہ کے نور سے اسکے نور کی لہریں آتی ہیں۔ ایک موبائل یہاں پڑا ہوا ہے کوئی تار نہیں ہے۔ امریکہ بات کرتے ہیں دیکھتے ہیں نا وہ لہروں کے ذریعے۔ اسطرح یہ ٹیلیفون جب صاف ہوجاتا ہے۔ وہ لہریں نور کی آ جاتیں نہیں۔ ایک نور کا ہیڈکواٹر ادھر اور ایک ادھر جس کی طرف بٹن دبایا جس ولی سےچاہو اس سے بات چیت ہوجاے۔ اب کیا وجہ ہے کہ لوگ ہروقت دعائیں مانگتیں ہیں ۔ نہیں قبول ہوتیں گڑگڑاتے ہیں نہیں قبول ہوتیں۔ تب ولیوں کے پاس جاتے ہیں نا۔ تو وہاں کیوں قبول ہوجاتیں ہیں اللہ تو وہی ہے جو گھر میں تھا۔ وہی اللہ ہے نا ۔ وہاں کوئی دوسرا اللہ تو نہیں ہے نا۔ صرف یہ ہے کا وہاں ٹیلی فون نہیں ہے۔ وہاں گڑگڑاے سب کچھ کیا کراماًکاتبین کا کام ہے۔ درخواست آگے پہنچاے پتہ نہیں کب پہنچاے کب وہاں منظوری ہو۔ ولی کے پاس گیا۔ ٹیلیفون آن ہے بات کری آواز وہاں پہنچ گئی۔ یہ ٹیلی فون ہر آدمی کے اندر ہے ہر آدمی اسکو چالو کرا سکتا ہے۔ خواہ اسکے لیے عبادت کرنی پڑے خواہ اسکے لیے ریاضت کرنی پڑے خواہ اس کے لیے بلھے شاہ نے فرمایا نچ کے یار منایا۔ اب یہ ہے کہ اسکی اجازت ہوتی ہے۔
نماز پڑھنا اجازت نہیں ہے۔ حکم ہے قرآن حکم ہے روزے حکم ہیں اسکی اجازت کی کیا ضرورت ہے لیکن اللہ تعالیٰ تک پہنچنا اسکی اجازت ہے۔
یا رحمان اسکی بھی کوئی اجازت نہیں ہے۔ کتابوں سے دیکھے پڑھے یا رحمان سے اگر آپکے اندر صفت آئی رحم کی صفت آئے گئی نا تو کیا ہوا وہ جانوروں پر بھی رحم کرتا ہے نا تم پررحم کرلیا تو کیا اس کے بعد یا کریم کرم میں چلے جاٰیں گے اس کی ذات کی طرف نہیں گئے نا۔ یا رزاق سے اس کے رزق میں اضافہ ہوجائے گا نا۔ کیا اضافہ ہوا وہ تو کیڑوں کو پتھروں میں رزق دیتا ہے تم کو دے دیا تو کیا۔ جب اس کا ذاتی ذکر کریں گے اللہ اللہ کریں گے تو اللہ کی طرف پہنچے گے نا۔
یہاں سے امریکہ جانے کے لیے ان کی منظوری چاہیئے تو کیا اللہ کے جانے کے لیے اسکی منظوری نہیں چاہیئے۔
جب کسی کو ذکر دیا جاتا ہے اسکے حولیہ کو فرشتے بیعت المعمور میں لے جاتے ہیں۔ بیعت المعمور کی مخلوق سے اللہ تعالیٰ ہم کلام ہوتا ہے۔ دکھتا نہیں ہے لیکن وہ ان سے بات کرتا ہے پوچھتا ہے اس کو کون لے آیا۔ جہاں سے یہ ذکر ملا تھا میں لایا۔ کیوں لایا اے اللہ تیرا دوست بنانے کے لیے۔ اب اس کی مرضی نہیں ہے کہئے گا مجھے یہ دوست نہیں چاہیئے۔ اجازت ہی کوئی نہیں ہوئ۔ اجازت نہیں ہوئی نا ۔ پھر اگر اس کی مرضی ہوئی تو پھر کہے گا۔ دوست کو آزمایا جاتا ہے کل یہ بھاگ نہ جائے تو اس کا ضامن کون ہے پھر غوث پاک اس کی ضمانت دیتے ہیں کہ میں اسے جانتا ہوں کہ میرے نام پر جیتا مرتا ہے۔ یہاں تک کہ جو غوث پاک کا ماننے والا نہیں اجازت اس کی بھی کوئی نہیں ہوتی۔ اچھا اب گواہ کون ہے جن دو ولیوں کے درباروں پر جاتا تھا وہ گواہی دیتے ہیں۔ اچھا اب تصدیق کون کرے گا پھر حضور پاک تصدیق کرتے ہیں۔ پھر اجازت ہوتی ہے اس کا ذکر قلب جاری ہوجائے پھر وہ کہتا ہے میں سورہا تھا میرےاندر اللہ اللہ ہورہی تھی یہ ہے اجازت یہ اوپر کی اجازت ہے۔ اب نیچے تو اللہ نہیں ہے نا وہ تو اوپر ہے نا لیکن اللہ نے نیچے اپنے بندے بٹھائے ہوتے ہیں ۔ یہاں نیچے شیطان ہے۔ شیطان اوپر تو نہیں ہے۔ نیچے ہے ۔ جب شیطان کو پتہ چل جاتا ہے اب اس کو اوپر سے اجازت ہوگئی پھر وہ اس کی مداخلت کرتا ہے نا۔ اس کے پاس جنات فوج ہیں۔ ہندہوں کی جنات فوج ہے حکم دیتا ہے۔ جاؤں اس کو برباد کرو تباہ کرؤ کچھ بھی کرؤ یہ اللہ اللہ اس کے اندر اب نہ جائے۔ اب اسکو کسی اور شغل میں لگا دو۔ اس اﷲ ذکر قلبی میں یہ نہ رہے۔ پھرجہاں سے انکو اجازت ہوتی ہے ان کے پاس بھی ایک رحمانی فوج ہوتی ہے پھر شیطانی فوج تم پر ٹوٹ پڑی وہ رحمانی فوج شیطانوں پر ٹوٹ پڑی وہ رحمانی فوج اس وقت تک تمھارا ساتھ دے گی جب تک تمھارے اندر رحمان جاگ نہیں اٹھتا۔ پھر بندہ نہیں رہے بندہ نواز بن گئے۔ غریب نہیں رہے غریب نواز بن گئے ۔ یہ اجازت ہے۔
مزید معلومات کے لئے اوفیشل ویب سائٹ ملاحظہ کیجئیے www.goharshahi.org