اقتباسات

حضرت علامہ اقبالؒ اور حضرت علی و اہل بیت اطہار اقبال۔۔

حضرت علامہ اقبالؒ اور حضرت علی و اہل بیت اطہار

اقبا ل ؒ کے پڑوس میں ایک مولوی صاحب رہتے تھے ایک روز اقبالؒ کے دوست کا ان کے ہاں گزر ہوا رسمی گفتگو کے بعد مولوی صاحب نے ان سے فرمایا کہ میں نے اقبالؒ کی زبان سے حضرت علی ؑ کا تذکرہ سنا ہے ۔ وہ ا س طرح محبت سے تشریح بیان کرتا ہے کہ مجھے وہ اہل تشیع سا لگتا ہے۔‘
علامہ اقبالؒ نے اس واقعہ کو اپنے کلام’ بانگِ درا‘ کی نظم’ زہد اور رندی ‘ میں تفصیل سے کچھ اس طرح بیان کیا ہے ۔

ہے اس کی طبیعت میں تشیع بھی ذرا سا
تفصیلِ علیؑ ہم نے سنی اس کی زبانی

اقبال ؒ ایک سچے عاشقِ رسول ﷺ ہونے کے ساتھ ساتھ اہل بیت کے بھی مداح اورشیدا تھے ۔اس کا ابدی مظہر آپؒ کے کلام میں متعدد بار نظر آتا ہے۔ آ پؒ کبھی واقعہ کربلا میں صبر حسینؑ کا تذکرہ کر کہ عشق کو جِلا بخشتے ہیں،کبھی داستانِ حرم میں حسین ؑ کومنتہا بیان کرتے ہیں، کہیں قافلہ حجاز میں حسینؑ کی کمی کا گلہ کرتے ہیں اور کبھی دلِ مرتضی ؑ کے حاصل کرنے کی استدعا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر آپ کا اہل بیت سے عشق کا حقیقی و ابدی مظہر آپ کے مجموعے ’اسرارورموز ‘ کی نظم ’ فاطمۃ الزہرہؑ ‘ میں نظر آتا ہے۔
جس میں آپ ؒ حضرت زہرہؑ کی بزرگی و مرتبے کا موازنہ حضرت عیسیؑ کی والدہ حضرت مریم ؑ کی بزرگی و مرتبے سے کرتے ہیں۔ اور حضرت زہرہ ؑ تین نسبتوں سے حضرت مریم ؑ سے برتر ہیں ۔آپ اسکا نقشہ کچھ یوں کھینچتے ہیں۔
مریمؑ از یک نسبت عیسی ؑ عزیز
از سہ نسبت حضرت زہراؑ عزیز
اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ بلا شبہ حضرت مریم ؑ اللہ کے نزدیک بے حد مقام اور بزرگی والی ہیں لیکن یہ مقام صرف اس لیے ہے کہ آپ ایک پیغمبر حضرت عیسیؑ کی والدہ محترمہ ہیں۔ اس کے برعکس حضرت زہرہ ؑ آپؑ کے مقابل تین نسبتوں سے افضل اور زیادہ مرتبے و بزرگی والی ہیں ۔
نو ر چشم رحمتہ للعا لمین آن امام اولین و آخرین
اقبالؒ پہلی نسبت کا ذکر یہ بیان کرتے ہیں کہ آپؑ اس عالیٰ و بالا ہستی کی بیٹی ہیں جو تمام جہانوں کے لیے سراپا رحمت ہیں آپ ﷺ تمام انبیاء ، تمام اگلوں اور پچھلوں کے امام ہیں ۔آپ ﷺ نے اسلام جیسا نیا آئین متعا رف کرایا جس نے عرب کے مردہ اور جاہل لوگوں کی زندگیوں میں اک نئی رمق دے کران کی زندگیوں کو اک نئے سانچے میں ڈھال دیا اور دنیا کی مہذب قوم بنا دیا ۔

بانوی آن تاجدار ’ھل اتٰی‘
مرتضی ، مشکل کشا ، شیرِ خدا

اقبال ؒ دوسری نسبت کو حضرت علی ؑ سے منسوب کرتے ہیں کہ آپؑ ایسی ہستی کی زوجہ محترمہ ہیں جن کے سر پر ’ھل اتٰی ‘ کا تاج ہے۔ اقبال ؒ اس شعر میں ھل اتٰی کا استعارہ استعمال کرتے ہوئے خاندانِ رسول ﷺ کے ایک واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ایک دفعہ خاندانِ نبوت ﷺ نے رسول اللہ ﷺ کے کہنے پر تین دن روزہ رکھنے کا قصد کیا۔ پہلے روز عین افطار کے وقت ایک سائل در پہ آگیا اور مولا مشکل کشا نے گھر کا تمام سامان اس کو دے دیا اور خود خاندانِ رسول ﷺ نے پانی سے روزہ افطار کیا ۔ دوسرے اور تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا، یہ امر اللہ کے ہاں اتنا مقبول ہوا کہ جبرائیل امینؑ سورۃ ھل اتٰی (سورۃ دہر) لے کر نازل ہوے ۔ اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ نے حضرت علیؑ کو بادشاہت عطاء کی مگر تقوی کا یہ عالم تھا کہ آپؑ کا کُل سامان ایک تلوار اور ایک زرہ تھی ۔ آپؒ فرماتے ہیں آپ ؑ رتبہ میں مرتضیٰ ،مشکل کشا اور شیر خدا ہیں۔

مادرآن مرکز پرکار عشق
مادرآن کاروان سالار عشق

اقبالؒ تیسری نسبت حضرت حسنؑ اور حضرت حسینؑ سے منسلک کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت زہراؑ اُن ہستیوں کی ماں ہیں جن پر خود عشق انحصار کرتا ہے اور وہ عشق کے قافلے کے سردار اور عشق کا عین مرکز ہیں۔ حضرت حسن ؑ کو آپؒ محفلِ حرم کی مانند قرار دیتے ہیں کیونکہ آپ ؑ نے جنگ اور نفرت کی آگ بجھا نے کے لیے تخت و تاج کو ٹھوکر مار دی۔ جس سے مسلم برادری میں اتحاد قائم رہا اورا مت مسلمہ کی لاج رہی ۔
آپؑ حسینؑ کی والدہ ہیں جو کہ نیک سیرت لوگوں کے مولا ہیں ۔ زندگی میں جذبہ حسینؑ ہی سے ہے۔جنہوں نے مردانِ حُریعنی حریت پسند لوگوں کو قوت بخشی اور اہل حق کو آزادی کا سبق سکھایا۔
قصہ کوتاہ ، اقبالؒ حضرت زہراؑ کی شخصیت سے بے حد متاثر تھے۔آپؑ ایسی ہستی تھیں کہ جنہوں نے تمام نوری و ناری مخلوق تابع ہونے کے باوجود اپنی رضا کو مرتضیؑ کی رضا میں گم کر دیا ۔آپؑ چکی تو پیستیں مگر زبان الٰہیات میں مصروف رہتی ،آپؑ خوفِ خدا اور صبر و رضا کا پیکر تھیں۔آپؑ نے کبھی حالات پر گریہ وزاری نہ کی بلکہ نماز میں خوفِ خدا سے آنسو بہا تیں۔ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ جبرائیل امین آپؑ کے ان آنسوؤں کو جمع کر کے لے جاتے ہوں گے اور عرش بریں پہ شبنم کے قطروں کی طرح سجاتے ہوں گے۔اقبال ؒ تمام ماؤں کو آپؑ کی پیروی کرنے کی نصیحت کر تے ہوئے فرماتے ہیں کہ بیٹوں میں جوہر ماں ہی کی طرف سے آتے ہیں۔

رشتہ آئین حق زنجیر پاست
پاس فرمان جناب مصطفی است
ورنہ گرد تربتش گر دید می
سجدہ ہا بر خاک او پا شید می

آخر میں اقبالؒ اپنے عشق کی انتہا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’ اگر مجھے جناب نبی اکرم ﷺ کی شریعت اور دینِ اسلام کا پاس نہ ہوتا تو میں زہرا ؑ کی قبر کا طواف کرتا اور ان کی قبر کو سجدہ کرتا۔