اقتباسات

811 واہ سالانہ عرس مبارک

خواجہ خواجگان شہنشاہ ہند عطائے رسول ع نائب مصطفے یہ سلطان الہند

سُلطان الہند خواجہ سیّد معین الدین چشتی (1142ء-1236ء) فارسی نژاد روحانی پیشوا، واعظ عالم، فلسفی، صوفی اور زاہد نیز اجمیری سلسلۂ چشتیہ کے مشہور بزرگ تھے۔ان کا آبائی وطن سیستان تھا۔ 13ویں صدی کے اوائل میں انہوں نے برصغیر کا سفر کیا اور یہیں بس گئے اور تصوف کے مشہور سلسلہ چشتیہ کو خوب فروغ بخشا۔ تصوف کا یہ سلسلہ قرون وسطی کے ہندوستان میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اس طریقت کو کئی سنی اولیا نے اپنایا جن میں نظام الدین محمداولیاء (وفات: 1325) اور امیر خسرو (وفات: 1325) جیسی عظیم الشان شخصیات بھی شامل ہیں معین الدین چشتی کو برصغیر کا سب سے بڑا ولی اور صوفی سمجھا جاتا ہے۔ خواجہ غریب نواز وہ پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے غیر عرب مسلمانوں کو سماع کی طرف راغب کیا اور تقرب الہی کی غرض سے حالت وجد میں سماع کی اجازت دی تاکہ نو مسلموں کو اجنبیت کا احساس نہ ہو اور بھجن اور گیت کے عادی قوالی اور سماع کے ذریعے اللّہ سے تقرب حاصل کریں حالانکہ بعض علما کا کہنا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ صد فیصد درست نہیں تھا کیونکہ ان ہی کے سلسلہ کے بزرگ نظام الدین اولیاء نے تمام قسم کے آلات موسیقی کو حرام قرار دے دیا تھا۔ معین الدین چشتی کی ابتدائی زندگی کے متعلق بہت کم معلومات دستیاب ہیں البتہ جب انہوں نے ہندوستان کا سفر کیا تو اس وقت وسط ایشیا میں منگولوں کا قہر برپا تھا انہوں نے سلطان التتمش (وفات: 1236ء) نے زمانہ میں دہلی میں قدم رکھا مگر بہت مختصر مدت کے بعد اجمیر تشریف لے گئے۔ اسی مقام پر وہ اہل سنت کے حنبلی مسلک کے عالم اور اہل باطن خواجہ عبد اللّہ انصاری (وفات: 1088ء) کی تحریروں سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔خواجہ عبد اللّہ کی اسلاف صوفیا کی حیات و حالات پر مشہور کتاب طبقات الاولیاء کا خواجہ معین الدین چشتی کی شخصیت اور ان کے ظاہر و باطن کو سنوارنے میں اہم کردار رہا۔اس کتاب نے انہیں دنیا کو دیکھنے کا نیا نظریہ دیا۔ اسی زمانہ میں وہ اجمیر میں صاحت کرامت بزرگ کے طور پر مشہور ہونے لگے۔ وہ بیک وقت معلم، واعظ، مبلغ، روحانی پیشوا اور صاحب کرامت بزرگ تھے۔ خواجہ معین الدین چشتی اپنی تمام خصوصیات کی بنا پر ہندوستان اور برصغیر کے سب سے بڑے صوفی اور بزرگ کی حیثیت سے جانے لگے

اجمیر شریف میں غریب نواز کا مزار
کمسنی میں آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محمد غیاث الدین سے حاصل کی جو اس دور میں رواج ہوا کرتا۔ والد ماجد کے وصال سے حفظ قرآن کی تکمیل فرمائی۔ والد ماجد و والدہ کے وصال کے بعد گھریلو ذمہداری کی وجہ سے باغ کی دیکھ بھالی فرما رہے۔ والد کی وفات پر ایک باغ اور ایک آٹا پیسنے والی چکی آپ کو ورثے میں ملی۔ والدین کی جدائی کے بعد باغبانی کا پیشہ آپ نے اختیار کیا۔ تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ آپ کو اس کا بڑا افسوس تھا لیکن یہ ایک ایسی فطری مجبوری تھی جس کا بظاہر کوئی علاج نہ تھا۔ ایک دن خواجہ معین الدین چشتی اپنے باغ میں درختوں کو پانی دے رہے تھے کہ ادھر سے مشہور بزرگ ابراہیم قندوزی کا گزر ہوا۔ آپ نے بزرگ کو دیکھا تو دوڑتے ہوئے پاس گئے اور ابراہیم قندوزی کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ ابراہیم قندوزی ایک نوجوان کے اس جوش عقیدت سے بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے شفقت سے آپ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور چند دعائیہ کلمات کہہ کر آگے جانے لگے تو آپ نے ابراہیم قندوزی کا دامن تھام لیا۔ سیدابراہیم نے محبت بھرے لہجے میں پوچھا:
اے نوجوان! ”آپ کیا چاہتے ہیں؟“
خواجہ معین الدین چشتی نے عرض کی کہ
”آپ چند لمحے اور میرے باغ میں قیام فرمائیے۔ کون جانتا ہے کہ یہ سعادت مجھے دوبارہ نصیب ہوگی کہ نہیں“۔
آپ کا لہجہ اس قدر عقیدت مندانہ تھا کہ ابراہیم قندوزی سے انکار نہ ہو سکا اور آپ باغ میں بیٹھ گئے۔ پھر چند لمحوں بعد انگوروں سے بھرے ہوئے دو طباق معین الدین چشتی نے ابراہیم قندوزی کے سامنے رکھ دیے اور خود دست بستہ کھڑے ہو گئے۔ ابراہیم قندوزی نے اپنے پیرہن میں ہاتھ ڈال کر جیب سے روٹی کا ایک خشک ٹکڑا نکال کر معین الدین کی طرف بڑھایا اور فرمایا
”وہ تیری مہمان نوازی تھی یہ فقیر کی دعوت ہے“۔ اس کے بعد نے وہ باغ فروخت فرما کر اس کی رقم کو غرباء و مساکین میں تقسیم فرما دیا۔ مزید حصول دین کی خاطر سفر کیا اور اپنے جاے ولادت کو خیرآباد کہہ دیا

علوم ظاہری
بعد ازاں آپ نے سب کچھ اللہ کی راہ میں لُٹانے کے بعد تحصیل علم کے لیے خراساں کو خیرباد کہہ دیا اور آپ نے سمرقند بخارا کا رُخ کیا جو اس وقت علوم و فنون کے اہم مراکز تصور کیے جاتے تھے۔ یہاں پہلے آپ نے قرآن پاک حفظ کیا۔ پھر تفسیر‘ فقہ‘ حدیث اور دوسرے علوم ظاہری میں مہارت حاصل کی۔

علوم باطنی
علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد آپ نے مرشد کامل کی تلاش میں عراق کا رخ کیا۔ اپنے زمانے کے مشہور بزرگ خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت میں آئے خواجہ معین الدین چشتی اپنے مرشد کی خدمت میں تقریباً اڑھائی سال رہے۔ آپ پیرو مرشد کی خدمت کے لیے ساری ساری رات جاگتے رہتے کہ مرشد کو کسی چیز کی ضرورت نہ پڑ جائے۔

سرورِ کائنات کے روضہ اقدس کی حاضری ہوئی سیدعثمان ہارونی نے خواجہ معین الدین چشتی کو حکم دیا۔
”معین الدین! آقائے کائنات کے حضور سلام پیش کرو۔
خواجہ معین الدین چشتی نے گداز قلب کے ساتھ لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔
”السلام علیکم یا سید المرسلین۔“ وہاں موجود تمام لوگوں نے سنا۔ روضہ رسول سے جواب آیا۔
”وعلیکم السلام یا سلطان الہند“۔۔

اسفار
سفر بغداد کے دوران میں آپ کی ملاقات شیخ نجم الدین کبریٰ سے ہوئی اولیائے کرام میں شیخ نجم الدین کبریٰ کا مقام بہت بلند ہے۔ معین الدین چشتی اڑھائی ماہ تک شیخ نجم الدین کبریٰ کے ہاں قیام پزیر رہے اور ایک عظیم صوفی کی محبتوں سے فیض یاب ہوئے۔ اس کے بعد معین الدین چشتی بغداد میں شیخ عبدالقادر جیلانی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ کچھ عرصہ یہاں قیام کیا۔ پھر آپ تبریز تشریف لے گئے اور وہاں خواجہ ابو سعید تبریزی سے فیض حاصل کیا۔ ابو سعید تبریزی کو تصوف کی دنیا میں ہمہ گیر شہرت حاصل ہے۔ چند دن یہاں گزارنے کے بعد آپ اصفہان تشریف لے گئے۔ وہاں مشہور بزرگ شیخ محمود اصفہانی کی محبت سے فیض یاب ہوئے۔ جب آپ اصفہان سے روانہ ہوئے تو قطب الدین بختیار کاکی جو ابھی نوعمر تھے آپ کے ساتھ ہوئے جو بعد میں تاجدار ہند کہلائے۔ آپ گنج شکر بابا فرید کے مرشد اور نظام الدین اولیاء کے دادا مرشد ہیں۔ بہرکیف معین الدین چشتی اصفہانسے خرقان تشریف لے آئے یہاں آپ نے دو سال وعظ فرمایا اور ہزاروں انسانوں کو راہ راست پر لائے۔ پھر ایران کے شہر استرآباد تشریف لے آئے ان دنوں وہاں ایک مرد کامل سیدشیخ ناصر الدین قیام پزیر تھے۔ جن کا دو واسطوں سے سلسلہ بایزید بسطامی سے جا ملتا ہے چند ماہ یہاں سیدشیخ ناصرالدین سے روحانی فیض حاصل کیا۔ پھر ہرات کا قصد کیا۔ یہ شہر ایرانی سرحد کے قریب افغانستان میں واقع ہے۔ یہاں خواجہ عبداللہ انصاری کے مزار مبارک پر آپ کا قیام تھا۔ بہت جلد سارے شہر میں آپ کے چرچے ہونے لگے۔ جب بات حد سے بڑھ گئی اور خلق خدا کی ہر لمحے حاضری کی وجہ سے وظائف اور عبادت الٰہی میں فرق پڑنے لگا تو آپ ہرات کو خیرباد کہہ کر سبزوار تشریف لےگئے۔

دعوت وتبلیغ
سلسلہ چشتیہ ہندوستان میں آپ ہی سے پھیلا اور ہندوستان میں نوے لاکھ آدمی آپ کے ہاتھ پر اسلام لائے

وصال
ایک روایت کے مطابق تاريخ وفات 6 رجب627ہ 661هـ-1230ء ہے۔ آپ 97 سال حیات رہے جبکہ دوسری روایت میں 103 سال کی عمر میں آپ کا وصال 633ھ ْ 1229ء میں اجمیر میں ہوا

عالمی روحانی تحریک
"انجمن سرفروشان اسلام(رجسٹرڈ)پاکستان