اقتباسات

واصف علی واصف صاحب فرماتے ہیں

” وصالِ یار "
ایک مجذوب تھا جو ہر آتے جاتے سے ایک ہی سوال پوچھتا رہتا کہ
” عید کداں ” ( عید کب ہو گی )

کچھ لوگ اس مجذوب کی بات اَن سُنی کر دیتے اور کچھ سُن کر مذاق اُڑاتے گُزر جاتے –

ایک دن حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللّٰہ علیہ اس جگہ سے گزرے تو اُس مجذوب نے اپنا وہی سوال دہرایا،

عید کداں ( عید کب ھو گی )
آپ صاحبِ حال بزرگ تھے اُس کا سوال سُن کر مسکرائے اور کہا ،
یار ملے جداں ( جب محبوب ملے وھی دن عید کا دن ھو گا )
یہ الفاظ سُنتے ھی مجذوب کی آنکھُوں سے مُوتیُوں کی طرح آنسُوں جاری ھو گئے ، وہ مزید ترستی آنکھوں سے گُویا ھوا سرکار
” یار ملے کداں "( محبوب کس طرح ملے گا )

🌷خواجہ غلام فرید رحمتہ اللّٰہ علیہ نے فرمایا
"میں مرِے جداں ” ( جب” میں ” مرے گی)
بس یہ فرمانا تھا کہ مجذوب نے کپکپاتے اور تھرتھراتے ھوۓ عرض کیا حضور
” میں مرےِ کداں ” ( میں کب مرے گی )
سرکار رحمتہ اللّٰہ علیہ مسکرائے اُسے پیار سے تھپکی دیتے یہ کہتے چل دیے
"یار تکے جداں ” ( جب محبوب دیکھے گا) ،

🌷واصف علی واصف صاحب فرماتے ہیں
” عاشق کی عید محبوب کا دیدار ہے اور یہ دیدار اُسے دُنیا میں دو مرتبہ ملتا ہے پہلی بار جب اُس کی ” میں ” مرتی ہے اور دوسری بار جب وہ خود مرتا ہے اسی لیے اولیاء اللّٰہ کی برسی نہیں ” عرس” منایا جاتا ہے یعنی خوشی کا دن کیونکہ ان کا وصال محبوب (یار)سے ملاقات ہوتی ہے "