اقتباسات

قلب ہر راہ حقیقت کو آئینے کی طرح دیکھ لیتا ہے۔

🌹 ذکر کی اقسام🌹 لطائف ذکر🌹نفی اثبات🌹وجد🌹

تصوف پہ چلنے والوں کے لیے پاکیزگی اور طہارت ادب کے بعد دوسرا سبق ہے ۔ جسمانی پاکیزگی استنجا وضو غسل تیمم تو شریعت کا بنیادی طریقہ ہے جو جسم کو پاک کرتا ہے سالک یا صوفی کو روح کی طہارت اور پاکیزگی ضروری ہوتی ہے تصوف کی منازل طے کرنے کے لیے سب سے پہلے اسم ذات ذکر اللہ خفی یا جہری دل کو پاک کرتا ہے

حضور پاکﷺ نے ارشاد فرمایا :
ہر چیز کیلئے صفائی ہے اور دلوں کی صفائی اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔
(مشکوٰۃ شریف’ حدیث نمبر 806)

قران پاک میں ارشاد باری ہے

(سورة النور آیت نمبر 35-38) کیونکہ یقینا اللہ کا ذکر ہی سب سے بڑا ہے (سورة العنكبوت آیت نمبر 45) اور صرف اسی کے پاک نام کے ذکر میں دلوں کا اطمینان اور سکون ہے (سورة الرعد آیت نمبر 28).

ایک اور جگہ رب کریم فرماتا ہے ۔
وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیۡہِ تَبْتِیلًا۔۔
اور اپنے رب کے نام کا ذکر کرتے رہو اورسب سے کٹ کر اُسی کے ہو کر رہو

🌹💐🌺🌻🌼* ذکرُاللہ کی ا قسام *💐🌺🌻🌼

ذکر تین طرح کا ہوتا ہے:
🌴(۱) زبانی یعنی ذکر باللسان
🌴(۲) قلبی یعنی ذکر باالقلب
🌴(۳) اعضاء ِبدن کے ساتھ یعنی ذکر باالجوارح

🌹زبانی ذکر میں تسبیح و تقدیس، حمدوثناء،توبہ واستغفار، خطبہ و دعا اور نیکی کی دعوت وغیرہ شامل ہیں

🌹قلبی ذکر میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرنا، اس کی عظمت و کبریائی اور اس کی عظیم قدرت کے دلائل میں غور کرناداخل ہے نیز علماء کاشرعی مسائل میں غور کرنا بھی اسی میں داخل ہے۔

🌹 اعضاء ِبدن کے ذکر سے مراد ہے کہ اپنے اعضاء سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کی جائے بلکہ اعضاء کو اطاعتِ الہٰی کے کاموں میں استعمال کیا جائے۔

(صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۱ / ۱۲۸)

ذکر خفی قلبی :
تصوف کا ایک اہم رکن

ذکر اللہ اگر اونچی آواز میں ہو تو اسے ذکر جہری کہتے ہیں اور اگر بغیر آواز کے ہو تو اسے ذکر خفی (چھپا ہوا) کہتے ہیں. اگر زبان سے ہو تو اسے ذکر لسانی کہتے ہیں اور اگر دل سے ہو تو اسے ذکر قلبی کہتے ہیں. قلبی ذکر چونکہ دل میں ہوتا ہے اس لیے یہ خفی بھی ہوتا ہے. ذکر خفی قلبی.

ذکر خواہ قلبی ہو یا زبانی, جہری ہو یا خفی, انفرادی ہو یا اجتماعی، اسکی فضیلت و اہمیت مسلم ہے۔ لیکن قرآن و حدیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ذکرِ خفی قلبی کی فضیلت بدرجہا ذکرِ زبانی سے زیادہ ہے. اس کی باقائدہ تاکید کی گئی ہے.

قران میں ارشاد ہے..
"اور اپنے رب کے نام کا ذکر کرو تمام مخلوق سے کٹ کر”
(سورت مزمل )

اس آیت میں مخلوق کے سامنے اللہ کا ذکر کرنے کا نہیں کہا گیا بلکہ مخلوق سے کٹ کر تنہای میں رب کے نام کا ذکر کرنے کا کہا گیا ہے. رب کا نام ہے اللہ. تو یہاں تنہائ میں اللہ اللہ کرنے کی طرف اشارہ ہے.

مزید ارشاد ہے کہ

’’الا بذکر اللہ تطمئن القلوب‘‘
’’سن لو! اللہ کے ذکر سے دل اطمینان پاتے ہیں۔‘‘
(سورت الرعد : آیت 28)

یہ آیات ذکر لسانی اور قلبی دونوں پر دلیل ہے, لیکن اطمینان دل کا ہے, قلبی.

اور حدیث پاک ہے کہ

"ہر چیز کا زنگ دور کرنے کے لیے صیقل ہوتا ہے ،یاد رکھو! دلوں کا زنگ دور کرنے کا صیقل اللہ کا ذکر ہے”۔
(الدعوات الکبیر بیہقی)

تصوف میں ذکر قلبی کا رائج طریقہ

تصوف میں ذکر قلبی کو خاص اہمیت حاصل ہے.
اللہ کے حکم "اور مخلوق سے کٹ کر اللہ کے نام کا ذکر کرو” کے مطابق تنہائ میں یکسوئ حاصل کر کے, زبان کے ذکر اور زہن کے دیہان کے ساتھ دل کو ذکر کرایا جاتا ہے.

بعض سلسلوں میں قلب کی حرکت "لب ڈھب” کے ساتھ دل کو "اللہ اللہ” پڑھایا جاتا ہے,
اور بعض سلسلوں میں قلب پر "اللہ ہو” یا "اللہ” یا "لا الہ الا اللہ” کی ضربیں لگائ جاتی ہیں جس سے دل رفتہ رفتہ اللہ اللہ پڑھنا شروع کر دیتا ہے. آہستہ آہستہ دل کو ذکر کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر زبان کا ذکر اگر رک جاۓ تو بھی دل ذکر کرتا رہتا ہے. اس کیفیت کو قلب جاری ہونا کہتے ہیں.

جب قلب جاری ہو جاۓ تو وہ شیطان کے وساوس سے محفوظ ہو جاتا ہے اور انوارات کی تجلیوں کا اہل ہو کر عجائب قدرت دیکھتا ہے.

ذکر خفی قلبی پر کچھ مزید احادیث

امام احمد بن حنبل ، ابن حیان ، بیہقی وغیرہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا:

خَيْرُ الذِّكْرِ الْخَفِيُّ، وَخَيْرُ الرِّزْقِ مَا يَكْفِي
”بہترین ذکر خفی ہے، اور بہترین رزق وہ ہے جو انسان کے لئے کافی ہو جائے“(1)

اذْكُرُوا اللَّهَ تَعَالَى ذِكْرًا خَامِلًا» قَالَ: فَقِيلَ: وَمَا الذِّكْرُ الْخَامِلُ؟ قَالَ:الذِّكْرُ الْخَفِيُّ
”اللہ کویاد ذکرخامل کے ساتھ کروپوچھا گیا ذکر خامل کیا ہے فرمایا ذکر خفی ہے“[2]

خاص خاص حالات اور اوقات میں جہر ہی مطلوب اور افضل ہے ان اوقات و حالت کی تفصیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے قول و عمل سے واضح فرما دی ہے، مثلاً اذان و اقامت کا بلند آواز سے کہنا، جہری نمازوں میں بلند آواز سے تلاوت قرآن کرنا، تکبیرات نماز ، تکبیراتِ تشریق، حج میں تلبیہ بلند آواز سے کہنا وغیرہ، اسی لئے فقہاء رحمہم اللہ نے فیصلہ اس باب میں یہ فرمایا ہے کہ کن خاص حالات اور مقامات میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے قولاً یا عملاً جہر کرنے کی تلقین فرمائی ہے وہاں تو جہر ہی کرنا چاہئے، اس کے علاوہ دوسرے حالات و مقامات میں ذکر خفی اولیٰ وانفع ہے[3]۔

اصل ذکر اور ذکر حقیقی وہ ذکر قلبی ہے اور ذکر لسانی کواس لیے ذکر کہاجاتا ہے کہ وہ ذکر قلبی کاترجمان ہے اس لے کہ اگر کوئی شخص دل سے کسی کی یاد میں محو ہو اور زبان سے ساکت ہوتو وہ ذاکر سمجھاجاتا ہے لیکن اگر زبان سے کسی کانام لے اور دل میں کوئی اور بساہوا ہو تو حقیقت شناس لوگوں کے نزدیک یاد کرنے والوں میں اس کاشمار نہیں ہوسکتا[4]۔

حدیث شریف میں منقول ہے کہ وہ ذکر خفی ستر درجہ افضل ہے جسے حفظہ (یعنی اعمال لکھنے والے فرشتے) بھی نہیں سنتے چنانچہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو حساب کتاب کے لئے جمع کرے گا تو حفظہ (اعمال لکھنے والے فرشتے) وہ تمام ریکارڈ لے کر حاضر ہوں گے جنہیں انہوں نے اپنی نوشت اور یادداشت میں محفوظ کر رکھا ہو گا وہ تمام ریکارڈ دیکھ کر اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ دیکھو میرے بندوں کے اعمال میں اور کیا چیز باقی رہ گئی ہے (جو تمہارے اس ریکارڈ میں نہیں ہے) وہ عرض کریں گے! پروردگار!بندوں کے اعمال کے سلسلہ میں جو کچھ بھی ہمیں معلوم ہو اور جو کچھ بھی ہم نے یاد رکھا ہم نے اسے اس ریکارڈ میں جمع کر دیا ہے، اس ریکارڈ میں ہم نے ایسی کوئی چیز محفوظ کرنے سے نہیں چھوڑی جس کی ہمیں خبر ہوئی ہو تب اللہ تعالیٰ بندہ کو مخاطب کر کے فرمائے گا کہ میرے پاس تیری ایسی نیکی محفوظ ہے جسے کوئی نہیں جانتا اور وہ ذکر خفی ہے میں تجھے اس نیکی کا اجر عطا کروں گا۔[5]

محقق و محدث کبیرحضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کی ہے۔

عَنْ اَبِی الدَّرْدآءِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم اَلا اُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرِ اَعْمَالِکُمْ وَ اَزْکٰہَا عِنْدَ مَلیْککُمْ وَاَرْفَعِہَا فیْ دَرَجَاتِکُمْ وَ خَیْرٍ لَّکُمْ مِّنْ اِنْفَاقِ الذَّہَبِ وَالْوَرْقِ وَ خَیْرٍ لَّکُمْ مِّن اَنْ تَلْقُوْا عَدُوَّکُمْ فَتَضْرِبُوْا اَعْنَاقِہُمْ وَیَضْرِبُوْا اَعْنَاقَکُمْ قَالُوْا بَلیٰ قَالَ ذِکْرُ اللہ[6]

حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں تمہارے اعمال میں سے بہتر عمل کی خبر نہ دوں جو تمہارے رب کے نزدیک زیادہ پاکیزہ ہو، جو تمہارے اعمال میں سب سے بلند مرتبہ ہو، جو تمہارے سونا اور چاندی کے خیرات کرنے سے زیادہ اچھا عمل ہو، جو تمہارے لیے اس عمل سے بھی بہتر ہو کہ تم دشمنوں سے مقابلہ کرکے انہیں قتل کرو اور وہ تمہارے گردنوں پر وار کریں؟

صحابہ نے عرض کیا کہ ہاں یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم۔
آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔
حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

اَلْمُرَادُ الذِّکْرُ الْقَلْبِیُّ فَاِنَّہٗ ھُوَ الَّذِیْ لَہُ الْمَنْزِلَۃُ الزَّائِدَۃُ عَلیٰ بَذْلِ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ لِاَنَّہ عَمَلُ نَفْسِیُّ وَفِعْلُ الْقَلْبِ الَّذِیْ ھُوَ اَشَقُّ مِنْ عَمَلِ الْجَوَارِحِ بَلْ ھُوَ الْجِہَادُ الْاَکْبَرُ[7]

اس ذکر سے ذکر قلبی مراد ہے۔ یہی وہ ذکر ہے جس کا مرتبہ جان و مال خرچ کرنے سے بھی زیادہ ہے۔ کیونکہ یہ باطنی عمل ہے اور دل کا عمل ہے جو دوسرے اعضاء کے اعمال سے نفس کے لیے زیادہ سخت ہے۔ بلکہ یہی جہاد اکبر ہے۔

حوالہ جات

  1. صحیح البخاری رقم الحدیث :6409 صحیح مسلم رقم الحدیث، 2704، سنن ابوداؤد رقم الحدیث :1526، سنن الترمذی رقم الحدیث :3472)
  2. الزهد والرقائق حدیث155 المؤلف:عبد الله بن المبارك الناشر: دار الكتب العلميۃ- بيروت
  3. تفسیر معارف القرآن – مفتی محمد شفیع الاعراف آیت 55
  4. تفسیر معارف القرآن – مولاناادریس کاندہلوی سورۃ البقرہ 172
  5. مسند أبي يعلى، أحمد بن علي بن المثُنى،الموصلي ، حدیث نمبر4738،الناشر: دار المأمون للتراث – دمشق
  6. مشکواۃ المصابیح صفحہ 198
  7. مرقاۃ المفاتیح صفحہ نمبر ۲۲ جلد ثالث
    🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
    ذکر قلبی کے بارے میں اقوال سلطان باہو رحمت اللّٰه علیہ

حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ عین الفقر میں فرماتے ہیں کہ ہر جاندار کا دل اللہ کا ذکر کرتا ہے کچھ کا معدوم ہے اور کچھ کا معلوم.
نیز فرماتے ہیں کہ ذکر الہٰی سے قلب میں دس صفات پیدا ہوتی ہیں۔

(1) ذکر الہٰی کی تاثیر سے قلب آفتاب کی طرح روشن ہوجاتا ہے اور وجود میں کسی قسم کی تاریکی نہیں رہتی۔

(2) قلب گہرے دریا کی مانند ہو جاتا ہے ،اس میں جو کچھ گرے ناپاک نہیں رہتا.

(3) قلب آتش عشق الہٰی سے بھر جاتا ہے ،جو ماسوا اللہ کو جلا دیتی ہے۔

(4) قلب چشمہ آب حیات سے بھر جاتا ہے ،جو بھی یہ آب حیات پی لے ،حیات ابدی پاجاتا ہے ،اسکا دل زندہ اور نفس مردہ ہو جاتا ہے۔

(5) قلب سخاوت کا کان بن جاتا ہے ،جس سے ظاہر وباطن معبود حقیقی کی عبادت میں مستغرق رہتا ہے۔

(6) قلب طلسمات کی مانند ہو تا ہے ،ذکر اللہ کی برکت سے ان طلسمات کو بھسم کر کے خزانہ معرفت الہٰی پا لیتا ہے۔

(7) قلب ہر راہ حقیقت کو آئینے کی طرح دیکھ لیتا ہے۔

(8) قلب چراغ کی طرح روشن ہو جاتا ہے۔

(9) قلب ذکر الہٰی کی باران رحمت سے ہرا بھرا ہو جاتا ہے.

(10) قلب قربِ الہٰی کا واصل بن جاتا ہے اور پھر اسکے مدنظر ہمیشہ اللہ کی ذات رہتی ہے۔