اقتباسات

غازی تحفظ ختم نبوت امیرِ شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری کا واضح بیان ۔

غازی تحفظ ختمِ_نبوّتؐ

امیرشریعت سیّدعطاءاللہ شاہ_بخاریؒ

(جس کی بےباکی تھی حسرت آفریں)

امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ ایک عالمِ باعمل، بے باک و نڈر اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دولت سے مالا مال ایک خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔ شاہ جی بلاشبہ برصغیر پاک و ہند کے سب سے بڑے خطیب تھے۔ ان کی پوری زندگی تحفظِ ختم نبوت میں گزری۔ اس مقدس مشن کی خاطر بقول خود ان کی آدھی زندگی جیل میں اور آدھی ریل میں گزری۔
مولانا قاری محمد حنیف صاحب ملتانی اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں کہ میں حج کے لیے مکہ مکرمہ گیا۔ میری ملاقات ایک ولی اللہ مولانا خیر محمد صاحب سے ہوئی جو بہاولپور میں رہتے تھے۔ سارا دن اپنے ہاتھوں سے کام کرتے اور شام کو طالبعلموں کو حدیث پڑھایا کرتے تھے۔ مولانا خیر محمد صاحب نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ بیت اللہ کا طواف ہو رہا ہے، حضرت آدم علیہ السلام طواف کر رہے ہیں، حضرت خلیل اللہ علیہ السلام طواف کر رہے ہیں، حضرت کلیم اللہ علیہ السلام طواف کر رہے ہیں، حضرت ذبیح اللہ علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت ایوب علیہ السلام موجود ہیں، انبیائے کرام علیہم السلام کی ایک بڑی جماعت طواف کر رہی ہے اور پیچھے پیچھے سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ چل رہے ہیں۔ مولانا خیر محمد صاحب فرماتے ہیں۔ میں نے پوچھا۔ شاہ جیؒ! یہ مرتبہ کیسے ملا کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے ساتھ بیت اللہ کا طواف، تو شاہ جی فرمانے لگے، بس اللہ تعالیٰ نے یوں کریمی فرما دی کہ عطاء اللہ شاہؒ تم نے میرے محبوبصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے لیے زندگی جیل میں کاٹ دی۔ مصیبتوں اور دکھوں میں گزار دی، اب آ، نبیوں کے ساتھ طواف کی سعادت حاصل کر۔
حضرت مولانا محمد علی صاحب جالندھریؒ فرمایا کرتے تھے کہ وفات کے بعد خواب میں مجھے حضرت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی زیارت ہوئی۔ میں نے پوچھا شاہ جی! فرمائیے قبر کا معاملہ کیسا رہا؟ شاہ صاحب نے فرمایا کہ بھائی یہ منزل بہت ہی مشکل ہے، آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے تحفظ کی برکت سے معافی مل گئی۔

حضرت مولانا محمد علی جالندھری نے فرمایا کہ حضرت مولانا رسول خان جو پاکستان کے بہت بڑے محدث اور استاذ الانام ہیں، نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم جماعت صحابۂ کرامؓ میں تشریف فرما ہیں۔ حضور پاکصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دستار مبارک لائی گئی۔ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے جناب صدیق اکبرؓ کو حکم دیا کہ ’’اٹھو اور میرے بیٹے عطاء اللہ شاہ کے سر پر باندھ دو، میں اس سے خوش ہوں کہ اس نے میری ختم نبوت کے لیے بہت سارا کام کیا ہے۔‘‘ مولانا فرمایا کرتے تھے کہ آپ نے خود یا اور کسی صحابیؓ کو کیوں حکم نہ دیا کہ بخاری صاحب کے سر پر دستار باندھ دو، بلکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو حکم دیا۔ یہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود تھا کہ سب سے پہلے ختم نبوت کا تحفظ مسیلمہ کذاب کے زمانہ میں حضرت صدیق اکبرؓ نے کیا تھا۔ اب پاکستان میں مسیلمۂ پنجاب کا مقابلہ اور ختم نبوت کا تحفظ بخاری صاحب نے کیا۔ گویا ختم نبوت کا ایک محافظ، ختم نبوت کے دوسرے محافظ کو دستار بندی کرا دے۔

قادیانی نبوت کے برگ و بار کو خاکستر کرنے والے، انگریزی سامراج کے ایوانوں کو متزلزل کرنے والے، سحر خطابت اور عمل پیہم سے ایمان کی روشنی پھیلانے والے مرد حق آگاہ، حضرت امیر شریعتؒ نے 1950ء میں ختم نبوت کی حفاظت کے متعلق تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ختم نبوت کی حفاظت میرا جزو ایمان ہے جو شخص بھی اس ردا کو چوری کرے گا، جی نہیں چوری کا حوصلہ کرے گا، میں اس کے گریبان کی دھجیاں بکھیر دوں گا۔ میں میاں صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کا نہیں نہ اپنا نہ پرایا، میں انہی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوں، وہی میرے ہیں، جن کے حسن و جمال کو خود ربِ کعبہ نے قسمیں کھا کھا کر آراستہ کیا ہو، میں آں صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال پر نہ مر مٹوں تو لعنت ہے مجھ پر اور لعنت ہے ان پر جو آں صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تو لیتے ہیں لیکن سارقوں (چوروں) کی خیرہ چشمی کا تماشہ دیکھتے ہیں۔‘‘

جب شاتم رسول راجپال نے گستاخانہ کتاب لکھی تو شاہ جی علیہ الرحمہ نے لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’مسلمانو! میں تمہاری سوئی ہوئی غیرت کو جھنجھوڑنے آیا ہوں۔ آج کفار نے توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ کر لیا ہے۔ انھیں شاید یہ غلط فہمی ہے کہ مسلمان مر چکا ہے۔ آئو اپنی زندگی کا ثبوت دو۔ عزیز نوجوانو! تمھارے دامن کے سارے داغ صاف ہونے کا وقت آ پہنچا ہے۔ گنبد خضریٰ کے مکین تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں۔ ان کی آبرو خطرے میں ہے۔ ان کی عزت پر کُتے بھونک رہے ہیں۔ اگر قیامت کے روز محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے طالب ہو تو پھر توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کرنے والی زبان نہ رہے یا پھر سننے والے کان نہ رہیں۔‘‘
مشہور ادیب ڈاکٹر سیّد عبداللہ لکھتے ہیں کہ اس روز پانی اور آگ یعنی سرد آہوں اور گرم آنسوئوں کے ملاپ سے ان کی تقریر ڈھل رہی تھی۔ شاہ جیؒ نے خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’آج آپ لوگ جناب فخر رسل رسول عربی صل اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کو برقرار رکھنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آج اس جلیل القدر ہستی کا وجود معرض خطر میں ہے جس کی دی ہوئی عزت پر تمام موجودات کو ناز ہے۔ آج کوئی روحانیت کی آنکھ سے دیکھنے والا ہو تو دیکھ سکتا ہے کہ اس دروازے پر
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اور
ام المومنین حضرت خدیجہؓ آئیں
اور فرمایا کہ ہم تمہاری مائیں ہیں۔
کیا تمھیں معلوم نہیں کہ کفار نے ہمیں گالیاں دی ہیں؟‘‘
ارے دیکھو! کہیں
ام المومنین عائشہؓ دروازے پر تو نہیں کھڑی ہیں؟
(یہ سن کر مجمع پلٹا کھا گیا۔ مسلمانوں میں کہرام مچ گیا اور وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے) تمہاری محبت کا تو یہ عالم ہے کہ عام حالتوں میں کٹ مرتے ہو لیکن کیا تمھیں معلوم نہیں کہ آج سبز گنبد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تڑپ رہے ہیں۔ آج خدیجہؓ اور عائشہؓ پریشان ہیں۔ بتائو تمھارے دلوں میں امہات المومنینؓ کی کیا وقعت ہے؟ آج ام المومنین عائشہؓ تم سے اپنے حق کا مطالبہ کر رہی ہے۔ وہی عائشہؓ جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حمیرا کہہ کر پکارتے تھے۔ جنھوں نے سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے وقت مسواک چبا کر دی تھی۔ اگر تم خدیجہؓ اور عائشہؓ کے ناموس کی خاطر جانیں دے دو تو کچھ کم فخر کی بات نہیں ہے۔ یاد رکھو! جس روز یہ موت آئے گی، پیام حیات لے کر آئے گی۔ اگر کچھ پاس رسالتصلی اللہ علیہ وسلم ہے تو ناموس رسالتصلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرو۔‘‘ یہ کلمات اہل ایمان بالخصوص غازی علم الدین شہیدؒ کے دل کی دھڑکنوں میں ڈھل گئے۔
تحریک ختم نبوت 1953ء کے دوران ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سیّد عطا اللہ شاہ بخاریؒ نے فرمایا:
’’اگر لانبی بعدی کا مفہوم سلامت نہیں تو ایمان کے جزو کا کروڑواں حصہ بھی نہیں بچے گا۔ جڑ کو گھن لگے تو شاخ اور پتیاں سلامت نہیں رہتیں۔ عقیدے کو درخت سمجھو۔ جب تک جڑ مضبوط نہ ہو، درخت بار آور نہیں ہو سکتا۔ اب وہ ماں مر گئی ہے جو نبی جنا کرتی تھی۔ مشاطہ ازل نے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی زلفوں میں وہ کنگھی ہی توڑ ڈالی جو زلف نبوت سنوارا کرتی تھی۔ اب زمانے کے یہ کنڈل یونہی رہیں گے لیکن کسی کنگھی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ آئیے ہمارے ساتھ تعاون کیجئے، ایک دن ہماری بات پورے مسلمانوں کی آواز بن جائے گی، جسے حکومت کو بھی سننا پڑے گا۔ ہمیں اپنے خدا پر پورا یقین اور بھروسہ ہے کہ ہم بھی حالات بدل کر دکھا دیں گے۔ ایک وقت آئے گا کہ جو کچھ آج ہماری زبان پر ہے، پورے مسلمانوں کے دل کی آواز اور دھڑکن ہوگا۔ بس میری مانو! حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے دیوانے بن جائو۔ اس معاملے میں عقل کو جواب دے دو کہ یہ عقل کا نہیں، عشق کا معاملہ ہے۔ صحابۂ کرامؓ بھی صحیح معنوں میں دیوانگان محمدصلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ تبھی پوری دنیا پر چھا گئے۔‘‘
’’مسلمانو! ختم نبوت کے عقیدہ کو یوں سمجھو جیسے یہ ایک مرکزِ دائرہ ہے جس کے چاروں طرف توحید، رسالت، قیامت، ملائکہ کا وجود، صحف سماوی کی صداقت، قرآنِ کریم کی حقانیت و ابدیت، عالم قبر و برزخ، یوم النشور یوم الحساب گردش کرتے ہیں۔ اگر یہ اپنی جگہ سے ہل جائے تو سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ دین نہیں بچے گا، بات سمجھ میں آئی؟ مزید سمجھیے، جس طرح روشنی کے تمام مراتب عالم اسباب میں آفتاب پر ختم ہو جاتے ہیں، اسی طرح نبوت و رسالت کے تمام مراتب و کمالات کا سلسلہ بھی حضور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجودِ مسعود پر ختم ہو جاتا ہے۔ آپ کی نبوت و رسالت وہ مہر درخشاں ہے جس کے طلوع کے بعد اب کسی روشنی کی مطلق ضرورت نہیں رہی، سب روشنیاں اسی نور اعظم صلی اللہ علیہ وسلم میں مدغم ہو گئی ہیں جبھی تو مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر آج موسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں زندہ ہوتے تو انھیں بھی بجز میری اتباع کے چارۂ کار نہ ہوتا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو آخر زمانہ میں تشریف لائیں گے تو نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ ابوبکرؓ و عمرؓ کی طرح امتی اور خلیفہ کی حیثیت سے۔ حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو شخص بھی ختم نبوت کے تخت کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا، ہم اس پر قہر الٰہی اور صدیق اکبرؓ کا انتقام بن کر ٹوٹ پڑیں گے۔‘‘
’’ساری باتوں کو چھوڑیے، لاہور والو! کوئی ہے!‘‘ اور یہ کہتے ہوئے اپنے سر سے ٹوپی اتار لی اور ٹوپی کو ہوا میں لہراتے ہوئے نہایت ہی جذبات انگیز الفاظ میں فرمایا، ’’جائو میری اس ٹوپی کو خواجہ ناظم الدین کے پاس لے جائو۔ میری یہ ٹوپی کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکی، اسے خواجہ صاحب کے قدموں پر ڈال دو۔ اس سے کہو، ہم تیرے سیاسی حریف اور رقیب نہیں ہیں، ہم الیکشن نہیں لڑیں گے، تجھ سے اقتدار نہیں چھینیں گے۔ ہاں ہاں جائو اور میری ٹوپی اس کے قدموں میں ڈال کر یہ بھی کہو کہ اگر پاکستان کے بیت المال میں کوئی سور ہیں تو عطاء اللہ شاہ بخاری تیرے سوروں کا وہ ریوڑ چرانے کے لیے بھی تیار ہے مگر شرط صرف یہ ہے کہ رسول اللہ فداہ ابی و امی کی ختم رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا قانون بنا دے۔ کوئی آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہ کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دستارِ ختم نبوت پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکے۔‘‘ شاہ جی بول رہے تھے اور مجمع بے قابو ہو رہا تھا۔ لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ چشم فلک نے اس جیسا سماں بھی کم دیکھا ہوگا۔ عوام و خواص سب رو رہے تھے۔ شاہ جی پر خاص وجد کی سی کیفیت طاری تھی۔

ہم نے ہر دور میں تقدیسِ رسالت کے لیے
وقت کی تیز ہوائوں سے بغاوت کی ہے
توڑ کر سلسلہ رسم سیاست کا فسوں
اک فقط نام محمدؐ سے محبت کی ہے
ہم نے بدلا ہے زمانے میں محبت کا مزاج
ہم نے ہر دل کو نئی راہ و نوا بخشی ہے
مرحلے بند و سلاسل کے کئی طے کر کے
چہرۂ دار و رسن کو بھی ضیا بخشی ہے

’’دنیا میں چار قیمتی چیزیں محبت کے قابل ہیں:
مال، جان، آبرو اور ایمان۔
لیکن…جب جان پر کوئی مصیبت آئے تو مال قربان کرنا چاہیے اور آبرو پر کوئی آفت آئے تو مال اور جان دونوں کو۔ اور اگر ایمان پر کوئی ابتلا آئے تو مال، جان، آبرو سب کو قربان کرنا چاہیے اور اگر ان سب کے قربان کرنے سے ایمان محفوظ رہتا ہے تو یہ سودا سستا ہے۔‘‘
ایک موقع پر آپ نے فرمایا:
’’مرزائیوں کو میں دعوت فکر دیتا ہوں، وہ غور کریں اور اپنے مدعی نبوت اور اس کے خاندان کی فرنگی نوازی دیکھیں کہ یہ انگریز کا درباری نبی کس طرح ہندوستان میں انگریز افسروں کے دربار میں اپنی اور اپنے باپ دادا کی خدمات کے حوالے سے اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے لجاجت، منت و سماجت اور سراپا حاجت بن کر یقین دہانیاں کرتا ہے۔ ظالم تم نے اگر نبوت کا دعویٰ کر ہی لیا تھا اور تم اپنے تئیں نبی بن ہی بیٹھے تھے تو کم از کم اس کے نام و منصب کا وقار ہی قائم رکھا ہوتا اور فرنگی کی چوکھٹ پر جبہ سائی نہ کرتے۔ اپنی جبین نیاز کو عدو اللہ فرنگی کی خاکِ نجس سے آلودہ نہ کرتے:
’’اے روسیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا‘‘
تجھ سے تو سابق کذاب و دجال مدعیان نبوت ہی بہتر تھے جنھوں نے دعوائے نبوت کے بعد مسلمان بادشاہوں کے درباروں کی راہ تک نہ دیکھی۔ ان کا بھی ایک وقار تھا مگر تجھ سا بے حمیت خطۂ ارضی پر کوئی دوسرا نہیں۔‘‘
’’تصویر کا ایک رخ تو یہ ہے کہ مرزا قادیانی میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے، اس کے نقوش میں توازن نہ تھا۔ قد و قامت میں تناسب نہ تھا، اخلاق کا جنازہ تھا، کردار کی موت تھا۔ جھوٹ اس کا شیوہ تھا۔ معاملات کا درست نہ تھا۔ بات کا پکا نہ تھا۔ بزدل اور کمزور تھا۔ مسلک کا ٹوڈی تھا۔ تقریر و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے لیکن میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی کمزوری نہ بھی ہوتی۔ وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا، قویٰ میں تناسب ہوتا، چھاتی 45 انچ ہوتی، کمر ایسی کہ سی آئی کو بھی پتہ نہ چلتا، بہادر بھی ہوتا، مرد میدان ہوتا، کردار کا آفتاب ہوتا، خاندان کا مہتاب ہوتا، شاعری میں فردوسی وقت ہوتا، ابوالفضل اور فیضی اس کا پانی بھرتے، خیام اس کی چاکری کرتا، غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا، انگریزی کا شیکسپئر ہوتا اور اردو کا ابوالکلام ہوتا، پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم اسے نبی مان لیتے؟؟؟
میں تو کہتا ہوں کہ خواجہ غریب نواز اجمیریؒ، شیخ سید عبدالقادر جیلانیؒ، امام ابو حنیفہؒ، امام بخاریؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، ابن تیمیہ، امام غزالی ؒ یا حسن بصریؒ بھی نبوت کا دعویٰ کرتے تو کیا ہم انھیں نبی مان لیتے؟ اگر علیؓ دعویٰ کرتے کہ جسے تلوار حق نے اور بیٹی نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے دی، سیدنا ابوبکر صدیقؓ، عمر فاروق اعظمؓ اور سیدنا عثمان غنی ؓ بھی دعویٰ کرتے تو کیا بخاری انھیں نبی مان لیتا؟ ہرگز نہیں، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کائنات میں کوئی انسان ایسا نہیں جو تخت نبوت پر سج سکے اور تاج امامت و رسالت جس کے سر پر ناز کر سکے، وہ ایک ہی ہے جس کے دم قدم سے کائنات میں نبوت سرفراز ہوئی۔‘‘
’’آج مسیلمہ کذاب کے مقابلہ میں روحِ صدیقؓ پیدا کرو۔ آج محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر کٹ مرنے کے لیے تیار ہو جائو۔ آج محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو پر کمینے اور ذلیل قسم کے انسان حملہ آور ہیں۔ یاد رکھو! محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہے تو خدا ہے، محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہے تو قرآن ہے، محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہے تو دین ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ہم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بے حرمتی کرنے والی کسی تحریر کو نہیں دیکھ سکتے۔ ہم یقینا ہر اس اخبار کو جلائیں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرے گا۔ ہم حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ہیں۔ حضورِ اقدسصلی اللہ علیہ وسلم کا ہر دشمن، ہمارا بدترین دشمن ہے۔ میری گردن تو آج بھی تحفظ ناموسِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر پھانسی لگنے کو تڑپتی ہے۔ میں تمام مسلمانوں سے مخاطب ہوں کہ تم حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو کی حفاظت کرو تو میں تمھارے کتے بھی پالنے کو تیار ہوں اور اگر تم نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت کی تو پھر میں تمہارا باغی ہوں۔ میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کٹ مرنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
’’میری بیٹی…، میرے ظاہری اسباب میں سے، میری حیات کا باعث ہے۔ اللہ بیٹوں کو بھی سلامت رکھے، مگر بیٹی سے مجھے محبت بہت ہے۔
اس نے کئی بار مجھے کہا:
ابا جی! اب تو اپنے حال پر رحم کریں، آپ کو چین کیوں نہیں آتا، کیا آپ سفر کے قابل ہیں، چلنے پھرنے کی طاقت آپ میں نہیں رہی، کھانا پینا آپ کا نہیں رہا، یہ آپ کا حال ہے، کیا کر رہے ہیں آپ؟ میں نے کہا:
تم نے میری دُکھتی رَگ پکڑی ہے، میں تمھیں کس طرح سمجھائوں؟ بیٹا! تم بہت خوش ہوگی اگر میں چارپائی پر مروں؟ میں تو چاہتا ہوں کسی کے گلے پڑ کے مروں۔ تم اس بات پہ راضی نہیں کہ میں باہر نکلوں میدان میں، اور یہ کہتا ہوا مر جائوں…
لَا نَبِیَّ بَعْدَ مُحَمَّد، لَا رَسُوْلَ بَعْدَ مُحَمَّد، لَا اُمَّۃَ بَعْدَ اُمَّۃِ مُحَمَّد (صلی اللّٰہ علیہ وسلم)
بیٹا! دعا کرو۔
عقیدۂ ختم نبوت بیان کرتے ہوئے اور کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے مجھے موت آ جائے۔
لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ وَلَا رَسُوْلَ بَعْدَہٗ۔‘‘
(راولپنڈی میں جلسۂ عام سے خطاب، 1956) (سیدی و ابی، از: محترمہ سیدہ ام کفیل بخاری)

’’آخر ہوا ہی کیا ہے؟ یہی کہ تمہاری اماں اور بہن کے سامنے پولیس والوں نے بد زبانی کی اور گالیاں بکیں۔ نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اس سے بھی زیادہ بدسلوکی ہوتی تو ہماری سعادت ہوتی۔ اگر تمہاری اماں اور بہن کو سڑک پر گھسیٹ کر لاتے اور ان کو مارتے تو میں سمجھتا کہ تحفظ ختم نبوت کا کچھ حق ادا ہوا۔ اللہ کے دین کے کاموں میں سختیاں اور امتحانات نہ آئیں اور مار نہ پڑے، یہ ہو نہیں سکتا۔ دین کا کام کرو گے تو مار بھی پڑے گی۔ اس کے لیے اپنے آپ کو ہر وقت تیار رکھو۔ تمھیں تو معلوم ہے کہ نبی خاتمصلی اللہ علیہ وسلم جیسی رئوف و رحیم ہستی کو دین کے نام پر کتنی تکالیف اٹھانی پڑیں۔ جانتے نہیں! آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو زخمی کیا گیا اور اسی زخم سے وہ شہید ہوئیں۔ ہماری کیا حیثیت ہے؟ اس لیے صبر کرو اور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس حقیر سی قربانی کو قبول فرمائے۔‘‘
(سیّد عطا اللہ شاہ بخاریؒ کی اپنے بڑے بیٹے سید ابوذر بخاریؒ کو فہمائش، 1953: سیدی و ابی، از: محترمہ سیدہ ام کفیل بخاری)

تحریک ختم نبوت 1953ء کی اندوہناک پسپائی سے لوگوں میں مایوسی کا پیدا ہونا ایک قدرتی امر تھا۔ کئی لوگ ان شہدا کے متعلق جو اس تحریک ناموسِ ختم نبوت پر قربان ہو چکے تھے، یہ سوال کرتے کہ ان کے خون کا ذمہ دار کون ہے؟ شاہ جی نے لاہور کے ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے جواب دیا:
’’جو لوگ تحریک ختم نبوت میں جہاں تہاں شہید ہوئے، ان کے خون کا جوابدہ میں ہوں، وہ عشقِ رسالت میں مارے گئے۔ اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ان میں جذبۂ شہادت میں نے پھونکا تھا۔ جو لوگ ان کے خون سے اپنا دامن بچانا چاہتے اور ہمارے ساتھ رہ کر اب کنی کترا رہے ہیں، ان سے کہتا ہوں کہ میں حشر کے دن بھی ان کے خون کا ذمہ دار ہوں گا۔ وہ عشقِ نبوت میں اسلامی سلطنت کے ہلاگو خانوں کی بھینٹ چڑھ گئے، لیکن ختم نبوت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بھی سات سو حفاظِ قرآن اسی مسئلہ کی خاطر شہید کروا دیے تھے۔‘‘
شاہ جی نے مزید فرمایا:
’’میں قیامت کے دن حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر دست بستہ عرض کروں گا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ میں شہید ہونے والے خوش نصیبوں کا مقصد صرف اور صرف آپصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا تحفظ تھا، اس طرح 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں شہید ہونے والوں کا مقصد بھی صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا تحفظ تھا۔ لہٰذا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ تحریک ختم نبوت 1953ء میں شہید ہونے والوں کو بھی یمامہ کے شہدا کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا کریں کیونکہ دونوں کا مقصد ایک ہی تھا۔‘‘ پھر شاہ جی نے فرمایا: مجھے امید کامل ہے کہ میرے نانا، میرے پیارے آقا و مولا میری درخواست کو شرف قبولیت ضرور بخشیں گے۔
حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب شیخ الحدیث جامعہ رشیدیہ ساہیوال نے ایک دفعہ فرمایا کہ جب حضرت شاہ جی بستر علالت پر تھے، ان دنوں تبلیغی جماعت کے حضرات کی ایک جماعت کویت گئی ہوئی تھی۔ امیر صاحب فرماتے ہیں کہ کویت میں ہمارا مرکز کویت کی مرکزی جامع مسجد میں تھا۔ ایک روز صبح کے وقت ایک سن رسیدہ بزرگ تشریف لائے جن کا نورانی چہرہ ہی ان کی بزرگی کی شہادت دیتا تھا۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ لوگ پاکستان سے آئے ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو پوچھا پاکستان میں کوئی عطا اللہ شاہ بخاری نام کے بزرگ ہیں؟ میں نے اقرار کرتے ہوئے شاہ جی کا مختصر تعارف کرایا اور تعجب سے دریافت کیا کہ آپ انھیں کیسے جانتے ہیں؟ اس پر انھوں نے بتایا کہ رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک وسیع میدان میں ایستادہ ایک سمت یوں دیکھ رہے ہیں جیسے کسی کا انتظار ہو۔ پھر میں نے دیکھا کہ بہت بڑا ہجوم حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آ رہا ہے۔ ہر شخص کا چہرہ نہایت نورانی، تابناک اور دل آویز ہے۔ وہ ہجوم حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر دو حصوں میں دائیں بائیں بٹ گیا۔ کچھ وقفہ کے بعد ویسا ہی ایک اور ہجوم نمودار ہوا اور وہ بھی نہایت خوبرو اور درخشندہ پیشانیوں والے لوگ ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ کر وہ بھی دائیں بائیں تقسیم ہو گئے مگر حضورصلی اللہ علیہ وسلم اب بھی اسی طرح اسی جانب دیکھ رہے ہیں جیسے اب بھی کسی کا انتظار ہو۔
اتنے میں صرف ایک شخص جو نہایت حسین و جمیل ہے، آتا دکھائی دیا۔ جب وہ قریب تر پہنچا تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی ساتھ ساتھ ہیں۔ نبی پاکصلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے مصافحہ کیا، سینے سے لگایا اور اس کی پشت پر شفقت سے دست مبارک پھیرتے رہے۔ میں نے جی میں کہا یہ پہلا گروہ تو انبیا کرام علیہم السلام کا تھا، دوسرا صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مگر یہ شخص کون ہے جس کا حضور انتظار فرماتے رہے اور اتنی محبت و شفقت کا اظہار فرمایا۔ تو ایک آواز آئی کہ یہ خادم ختم نبوت عطاء اللہ شاہ بخاری پاکستانی ہے۔ خواب بیان کرنے کے بعد اس بزرگ نے فرمایا کہ آپ نے بتایا ہے کہ وہ بیمار تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی وفات ہو چکی ہے۔ امیر جماعت کہتے ہیں جب ہمیں شاہ جی کی وفات کا علم ہوا تو ہم نے حساب لگا کر دیکھا شاہ جی کی وفات بالکل اسی روز ہوئی تھی جس شب اس بزرگ نے یہ خواب دیکھا تھا۔
تاریخ میرے نام کی تعظیم کرے گی
تاریخ کے اوراق میں آئندہ رہوں گا
سید محمد کفیل شاہ بخاری ’’معرکہ حق و باطل‘‘ کے نام سے حضرت امیر شریعت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور جسٹس منیر کا ایک دلچسپ اور ایمان افروز مکالمہ بیان کرتے ہیں:
’’1953ء کی تحریک ختم نبوت، اپنے شباب پر پہنچ کر مائل بہ اختتام تھی۔ تحریک کی قیادت اور ہزاروں کارکن جیلوں میں بند تھے۔ ’’عدالتی تحقیقات‘‘ کے لیے جسٹس منیر اور ایم آر کیانی پر مشتمل کمیشن (لاہور ہائی کورٹ) سماعت کر رہا تھا۔ جسٹس منیر متعصب قادیانی نواز تھا۔ وہ علما کو کمرۂ عدالت میں بلا بلا کر بے عزت کر رہا تھا۔ تحریک ختم نبوت کو ’’احرار، احمدی نزاع‘‘ اور ’’فسادات پنجاب‘‘ کا نام دیتا تھا۔ اسلام کو موضوع بحث بنا کر علما کا مذاق اڑا رہا تھا، اور اپنے قادیانی آقائوں اور محسنوں کو خوش کر رہا تھا۔
لیکن… ایک دن وہ اپنی ہی عدالت میں پکڑا گیا۔ اس نے قائد تحریک تحفظ ختم نبوت، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری (علیہ الرحمتہ) کو عدالت میں طلب کر لیا۔ حکومت نے بیان داخل کرنے کے لیے امیر شریعتؒ کو سکھر جیل سے لاہور سنٹرل جیل منتقل کر دیا۔ پیشی کی تاریخ پر امیر شریعتؒ اور ان کے قیدی رفقا کو سخت پہرے میں عدالت میں لایا گیا۔
عدالتی ہر کارے نے آواز لگائی: سرکار بنام عطاء اللہ شاہ بخاری وغیرہ وغیرہ
اب، اسیر ختم نبوت امیر شریعت، پورے قلندرانہ جاہ و جلال اور ایمانی جرأت و وقار کے ساتھ کمرۂ عدالت میں داخل ہوئے۔ سرفروشانِ احرار نے پورے ہائی کورٹ کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔
عدالت کے دروازے پر ہزاروں فدائین ختم نبوت اور شمع ناموس رسالتصلی اللہ علیہ وسلم کے پروانے نعرہ زن تھے۔ نعرۂ تکبیر… اللہ اکبر، تاج و تختِ ختم نبوت… زندہ باد، مرزائیت… مردہ باد! امیر شریعتؒ نے عدالت کے دروازے پر کھڑے ہو کر ہتھکڑیاں فضا میں لہرائیں اور ہاتھ سے اشارہ کیا۔
مجمع وارفتگی سے پوچھ رہا تھا:
کہیے کیا حکم ہے؟ دیوانہ بنوں یا نہ بنوں؟
حکم ہوا… خاموش!
تمام مجمع ساکت و جامد!
امیر شریعتؒ عدالت میں داخل ہو گئے۔
جسٹس منیر بغض و حسد سے بھرا ہوا، غصے سے لال پیلا، گردن تنی ہوئی اور تکبر و غرور کا پیکر ناہنجار بنا کرسی پر بیٹھا تھا۔
مردِ مومن کے چہرۂ انور پر نگاہ پڑی تو اس کی آنکھیں جھک گئیں۔
جسٹس منیر دوسری مرتبہ آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ کر سکا۔
کارروائی شروع ہوئی۔
امیر شریعتؒ نے اپنا تحریری بیان عدالت میں پیش کیا۔ جسٹس منیر نے ایک نظر بیان کو دیکھا (جسے اس نے ’’منیر انکوائری رپورٹ‘‘ میں شامل نہیں کیا) اور پھر اپنے مخصوص چبھتے ہوئے انداز میں سوالات کا آغاز کر دیا۔
جسٹس منیر: ہندوستان میں اس وقت کتنے مسلمان ہیں؟
امیر شریعتؒ: سوال غیر متعلق ہے، مجھ سے پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں پوچھیں۔
جسٹس منیر: (تمسخر آمیز لہجے میں) ہندوستان اور پاکستان میں جنگ چھڑ جائے تو ہندوستان کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
امیر شریعتؒ: ہندوستان میں علما موجود ہیں، وہ بتائیں گے۔
جسٹس منیر: (طنز کرتے ہوئے) آپ بتا دیں؟
امیر شریعتؒ: پاکستان کے بارے میں پوچھیں، یہاں کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
جسٹس منیر: مسلمان کی تعریف کیا ہے؟
امیر شریعتؒ: اسلام میں داخل ہونے اور مسلمان کہلانے کے لیے صرف کلمہ شہادت کا اقرار و اعلان ہی کافی ہے۔ لیکن اسلام سے خارج ہونے کے ہزاروں روزن ہیں۔ ضروریاتِ دین میں کسی ایک کا انکار کفر کے ماسوا کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ میں سے کسی ایک کو بھی انسانوں میں مانا تو مشرک، قرآن کریم کی کسی ایک آیت یا جملہ کا انکار کیا تو کافر، اور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے منصب ختم نبوت کے بعد کسی انسان کو کسی بھی حیثیت میں نبی مانا تو مرتد۔
جسٹس منیر: (قادیانی وکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟
امیر شریعتؒ: خیال نہیں عقیدہ۔ جو ان کے بڑوں کے بارے میں ہے۔
مرزائی وکیل: نبی کی تعریف کیا ہے؟
امیر شریعتؒ: میرے نزدیک اسے کم از کم ایک شریف آدمی ہونا چاہیے۔
جسٹس منیر: (بدتمیزی کے انداز میں) آپ نے مرزا قادیانی کو کافر کہا ہے؟
امیر شریعتؒ: میں اس سوال کا آرزو مند تھا۔ کوئی بیس برس ادھر کی بات ہے، یہی عدالت تھی جہاں آپ بیٹھے ہیں، یہاں چیف جسٹس، مسٹر جسٹس ڈگلس ینگ تھے۔ اور جہاں مسٹر کیانی بیٹھے ہیں، یہاں رائے بہادر جسٹس رام لال تھے۔ یہی سوال انھوں نے مجھ سے پوچھا تھا۔ وہی جواب آج دہراتا ہوں۔ میں نے ایک بار نہیں ہزاروں مرتبہ، مرزا کو کافر کہا ہے، کافر کہتا ہوں اور جب تک زندہ ہوں گا کافر کہتا رہوں گا۔ یہ میرا ایمان اور عقیدہ ہے اور اسی پر مرنا چاہتا ہوں۔ مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کافر و مرتد ہے۔ مسیلمہ کذاب اور ایسے ہی دیگر جھوٹوں کو دعویٰ نبوت کے جرم میں قتل کیا گیا۔
جسٹس منیر: (غصے سے بے قابو ہو کر، دانت پیستے ہوئے) اگر غلام احمد قادیانی آپ کے سامنے یہ دعویٰ کرتا تو آپ اسے قتل کر دیتے؟
امیر شریعتؒ: میرے سامنے اب کوئی دعویٰ کر کے دیکھ لے!
حاضرین عدالت: نعرۂ تکبیر، اللہ اکبر، ختم نبوت… زندہ باد، مرزائیت… مردہ باد… کمرۂ عدالت لرز گیا۔
جسٹس منیر: (بوکھلا کر) توہین عدالت…!
امیر شریعتؒ: (جلال میں آ کر) توہین رسالت…!
جسٹس منیر … دم بخود، خاموش، مبہوت، حواس باختہ، چہرہ زرد، ہوش عنقا… پیشانی سے پسینہ پونچھنے لگا۔
’’عدالت‘‘ امیر شریعت کی جرأت ایمانی اور جذبۂ حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر سکتے میں آ چکی تھی۔
امیر شریعتؒ: (گرج دار آواز میں) کچھ اور…؟
جسٹس منیر: (پریشانی میں بڑبڑاتے ہوئے) میرا خیال ہے ہمیں مزید کچھ بھی نہیں پوچھنا۔ عدالت برخواست ہو جاتی ہے۔؎
وہ صداقت جس کی بیباکی تھی حسرت آفریں
امیر شریعت سیّد عطاءاللہ شاہ بخاریؒ
(جس کی بےباکی تھی حسرت آفریں)

عالمی روحانی تحریک
انجمن سرفروشان اسلام(رجسٹرڈ)پاکستان