اقتباسات

غازی تحفظ ختمِ نبوّتؐ مولانہ عبدالستارخان نیازی میں قربان یارسول اللہ

غازی تحفظ ختمِ نبوّتؐ
مولانہ عبدالستارخان نیازی
میں قربان یارسول اللّہﷺ

یہ کئی صدیوں پر محیط جدو جہد کا خلاصہ ہے کوئی دو چاربرس کی بات نہیں عقیدہ ختم ِ نبوت ﷺ کے دفاع اورقادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے مسلمانوں نے ہمیشہ بڑی قربانیاں دی ہیں
عقیدہ ختم ِ نبوت ﷺ کو اجاگر کرنے کےلئے بر ِصغیر میں سب سے پہلے
اعلیٰ حضرت امام احمدرضا ؒ خان بریلوی نے ایک رسالہ لکھ کر اس فتنے کا چہرہ بے نقاب کیا پھر
پیر مہرؒعلی شاہ آف گولڑہ شریف نے مرزا غلام احمدقاویانی اور اس کے حامی قادیانیوں کوللکارا اور مناظرہ اورمباہلہ کا چیلنج دیا لیکن وہ اس سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے پھر جب قادیانیوں کی ریشہ دیوانیاں حد سے گذر گئیں تو 1953ءمیں
تحریک ختم نبوت ﷺ شروع ہوئی اس کے لئے مسلمانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے سینکڑوں گرفتار کرلئے گئے اسی اثناءمیں مولانا ابوالاعلی مودودیؒ نے فتنہ قادیانیت پر ایک کتاب لکھ کر داد ِ تحسین حاصل کی مجاہد ِ ملت مولانا عبدالستارؒ خان نیازی اورجماعت اسلامی کے بانی مولانا ابوالاعلی مودودیؒ کو گرفتا رکرلیا گیا بعدازاں انہیں اس کیس میں سزائے موت سنادی گئی لیکن ان شخصیات کے پایہ  استقلال میں جنبش تک نہیں آئی پھر عوامی رد ِ عمل کے پیش ِ نظر حکومت نے یہ سزا ختم کردی گئی کمال ہے کچھ لوگ مسلمانوں کے بنیادی عقیدہ ختم ِ نبوت کو مسلمانوںاور قادیانیوں کے درمیان معمولی سا اختلاف قراردے رہے ہیں حیف صد حیف۔ ذوالفقار علی بھٹو دور میں ایک بار پھر تحریک ِ ختم نبوت ﷺ شروع ہوئی اس وقت قومی اسمبلی کے قائد ِ حز ب اختلاف مولانا شاہ احمد نورانیؒ، مولانا مفتی محمودؒ، مجاہد ِ ملت مولانا عبدالستارؒ خان نیازی اور دیگرعلماءکرام اور ارکان ِ اسمبلی کی کوششوں سے عقیدہ ختم نبوت پر یقین نہ رکھنے والوں اور مرزا غلام احمدقادیانی کو نبی ماننے والوںکو غیر مسلم قراردے دیا گیا جس پر امت ِ مسلمہ نے اللہ کے حضور سجدہ شکر ادا کیا لیکن آج بھی مرزائی ذہن رکھنے والے اسے معمولی اختلاف کہہ کر اللہ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں انہیں چاہےے کہ وہ سچے دل سے توبہ کریں اور احمدیوں‘ لاہوریوں اور قادیانیوں سے کسی قسم کی ہمدردی نہ کریں“(منقول) ۔ امیرالمومومنین سیدنا صدیقؓ اکبر عقیدہ ختم نبو ت کے سب سے بڑے محا فظ تھے اس عقیدے کی بنیا دیں مضبوط کرنے کیلئے اصحاب رسول اور شمع رسالت ﷺکے پروانوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔ 1953 میں تحریک ختم نبوت ﷺ کے دوران لاہور، لائل پور(فیصل آباد)گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ساہیوال،سرگودہا، راولپنڈی اور دوسرے تمام شہروں اور قصبوں کی حالت یہ تھی کہ رضاکار اپنے اپنے بھرتی کے مراکز پر آتے، جسم پر بڑی دلیری سے زخم لگاتے اور خون سے حلف نامے پر دستخط یا انگوٹھا ثبت کر دیتے تھے۔ رضاکاروں کا یہ جذبہ گفتنی نہیں، دیدنی تھا۔ بس ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے ان نوجوانوں کے سینوں میں قرون اولی کے مسلمانوں کے دل دھڑکنے لگ گئے ہیں اور یہ دنیا و مافیہا سے منہ موڑ کر خواجہ بطحا ﷺکی حرمت پر قربان ہو جانا چاہتے ہیں۔ جب 1947ءمیں ہندوستا ن تقسیم ہوا، خدادداد مملکت پاکستان معرض وجود میں آئی، بدنصیبی سے اسلامی مملکت پاکستان کا وزیر خارجہ چودھری سر ظفراللہ خان قادیانی کو بنایا گیا۔ اس نے مرزائیت کے جنازہ کو اپنی وزارت کے کندھوں پر لاد کر اندرون و بیرون ملک اسے متعارف کرانے کی کوشش تیز سے تیز ترکردی، ان حالات میںمو لانا مفتی محمد شفیع رحم اللہ علیہ، مولانا خواجہ قمر الدین سیالوی رحم اللہ علیہ، مولانا پیر غلام محی الدین گولڑوی رحم اللہ علیہ، مولانا عبدالحامد بدایونی رحم اللہ علیہ، علامہ احمد سعید کاظمی رحم اللہ علیہ، مولانا ابواثرمودودی رحم اللہ علیہ، مجاہد ِ ملت مولانا عبدالستارخان نیازی رحم اللہ علیہ، حضرت امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری رحم اللہ علیہ، امیر کاروان احرار،مولانا ظفر علی خاں رحم اللہ علیہ اور علامہ محمداقبالؒ کی رگ حمیت نے جوش مارا، پوری امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا امت ِ مسلمہ کو قادیانیوں اور مرزائیوںکے مذموم عقائد سے آگاہ کیا جب جب قادیانیہں کے خلاف تحریک چلی عاشقان ِ رسول دیوانہ وار گھروں سے نکل آئے ہر فردکے لبوںپر ایک ہی فلک شگاف نعرہ تھا میں صدقے یارسول اللہ ﷺ ،میں قربان یارسول اللہ ﷺ ۔ مولانا احمد علی لاہوری رحم اللہ علیہ، مولانا مفتی محمد شفیع رحم اللہ علیہ، مولانا خواجہ قمر الدین سیالوی رحم اللہ علیہ، مولانا پیر غلام محی الدین گولڑوی رحم اللہ علیہ، مولانا عبدالحامد بدایونی رحم اللہ علیہ، امام ِ اہل سنت علامہ احمد سعید کاظمی رحم اللہ علیہ، مولانا پیر سر سینہ شریف رحم اللہ علیہ، آغا شورش کاشمیری رحم اللہ علیہ، ماسٹر تاج دین انصاری رحم اللہ علیہ، شیخ حسام الدین رحم اللہ علیہ، مولانا صاحبزادہ سید فیض الحسن رحم اللہ علیہ، مولانا اختر علی خاں رحم اللہ علیہ، مولانا حامدعلی خانؒ غرضیکہ کراچی سے دہلی اور عرب سے لے کر ڈھاکہ تک کے تمام مسلمانوں نے اپنی مشترکہ آئینی جدوجہد کا آغاز کیا۔بلاشبہ برصغیر کی یہ عظیم ترین تحریک تھی۔ جس میں دس ہزار مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ایک لاکھ مسلمانوں نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ دس لاکھ مسلمان اس تحریک سے متاثر ہوئے۔ ہر چند کہ اس تحریک کو مرزائی اور مرزائی نواز اوباشوں نے سنگینیوں کی سختی سے دبانے کی کوشش کی مگر مسلمانوں نے اپنے ایمانی جذبہ سے ختم نبوت کے اس معرکہ کو اس طرح سر کیا کہ مرزائیت کا کفر کھل کر پوری دنیا کے سامنے آگیا عدالتی کاروائی میں حصہ لینے کی غرض سے علما اور وکلا کی تیاری، مرزائیت کی کتب کے اصل حوالہ جات کو مرتب کرنابڑاکٹھن مرحلہ تھا اور ادھر حکومت نے اتنا خوف و ہراس پھیلا رکھا تھاکہ تحریک کے رہنماﺅں کو لاہور میں کوئی آدمی رہائش تک دینے کےلئے تیار نہ تھا۔ جناب عبدالحکیم احمد سیفی نقشبندی مجددی رحم اللہ علیہ خلیفہ مجاز خانقاہ سراجیہ نے اپنی عمارت 7 بیڈن روڈ لاہور کو تحریک کے رہنماﺅں کے لئے وقف کردیا۔ تمام تر مصلحتوں سے بالائے طاق ہو کر ختم نبوت کے عظیم مقصد کے لئے ان کے ایثار کا نتیجہ تھا کہمولانا شاہ احمد نورانیؒ، مولانا محمد حیات رحم اللہ علیہ، مولانا عبدالستارؒ خان نیازی ،مولانا عبدالرحیم اشعر رحم اللہ علیہ،مولانا محمد علی جالندھری ، مولانا قاضی احسان احمدشجاع آبادی رحم اللہ علیہ اور دوسرے رہنماﺅں نے انتھک کام کیا۔ 1953 ءکی تحریک ختم نبوت کے بعد مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری رحم اللہ علیہ اور ان کے گرامی قدر رفقا مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی رحم اللہ علیہ، مولانا لال حسین اختر رحم اللہ علیہ، مولانا عبدالرحمن میانوی رحم اللہ علیہ، مولانا محمد شریف رحم اللہ علیہ، سائیں محمد حیات رحم اللہ علیہ اور مرزا غلام نبی جانباز رحم اللہ علیہ کا یہ عظیم کارنامہ تھا کہ انہوں نے الیکشن کی سیاست سے کنارہ کش ہو کر خالصتا دینی و مذہبی بنیاد پر مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اس سے قبل مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحم اللہ علیہ، چوہدری افضل حق رحم اللہ علیہ اور خود حضرت امیر شریعت رحم اللہ علیہ اور ان کے گرامی قدر رفقا ءنے مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے قادیانیت کو جو چرکے لگائے وہ تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ قادیان میں کانفرنس کر کے چور کا اس کے گھر تک تعاقب کیا۔ نیز مولانا ظفر علی خاں رحم اللہ علیہ اور علامہ محمداقبالؒ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ ردِ مرزائیت میں غیر فانی کردار ادا کیا۔ پاکستان میں مرزاغلام احمدقادیانی کے عقائد اور پیروکاروں کے خلاف قومی اسمبلی میں اس وقت کے قائد ِ حزب اختلاف مولانا شاہ احمد نورانی رحم اللہ علیہ نے قرارداد پیش کی طویل جدوجہد کے بعد7 ستمبر 1974 پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا وہ یادگار دن تھا جب 1953 اور 74 ءکے شہیدانِ ختم نبوت کا خون رنگ لایا امت ِمسلمہ ہمیشہ ختم نبوت ﷺ کے محافظین مولانامفتی محموؒد “ مولانا شاہ ؒاحمدنورانی “پروفیسر غفور احمد “چودہری ظہور الہی مولانا عبدالستارؒخان نیازی،مولانا ابوالامودودیؒ “مسٹر غلام فاروق “سردار مولا بخش سومرو ، عبدالحفیظ پیرزادہ اور ذوالفقارعلی بھٹو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے پر ان اکابرین اور ذوالفقار علی بھٹو شہید کو سلام ِ عقیدت پیش کرتی رہے گی 2018ءمیں ایک بارپھر قادیانی فتنے سے سر اٹھایا تو مولاناخادم حسین رضوی کی قیادت میں تحریک لبیک یارسول اللہ ﷺ نے اسلام آباد میں تاریخ ساز دھرنا دیا گیا پاکستان کی بنیاد اسلام پر قائم ہے قانو ن تحفظ ختم نبوت کے خلا ف ہونے والی تمام سازشو ں کا بھر پور مقابلہ کر یں گے قادیانی گروہ اس قانون کو ختم کرنے اور غیر مو¿ثر کرنے کیلئے گمراہ کن پروپیگنڈاکر ر ہے ہیں۔ قادیانی گروہ کی اسلام کے خلا ف کی جا نے والی سازشوں سے عوام کو ہو شیا ر کر نے کی شدت سے ضرورت ہے اس وقت یہو د و نصا ریٰ کے آلہ ¿ کار قادیانی گروہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے سر گرم عمل ہیں جس کاتدارک انتہائی ضروری ہے یہ اس لئے ناگزیرہوگیا ہے کہ ملک کے تعلیمی نصاب میں ختم نبو ت سے متعلق مضامین شامل کئے جائیں کیونکہ حضرت محمدﷺ کے بعدکسی بھی انداز میں کسی اور نبی ماننا ناموس ِ رسالت پر حملہ ہے جسے کوئی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا
مولانا عبد الستار خان نیازی ایک متبحر عالم دین اور عارف حق شناس ہیں۔ آپ رموز شریعت و طریقت ہر دو سے واقف ہیں اور اس عہد بے ثمر میں ان کا دم غنیمت ہے۔ مولانا نیازی کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دین مصطفٰی ﷺ کی تبلیغ و خدمت اور اسلام کے احیا و سربلندی کے لیے صرف ہوا ہے۔ مقصد کی لگن سے سرشار یہ مرد حق ساری زندگی اقلیم لا میں آباد رہا ہے۔ اسے دنیا داری، شادی بیاہ، بیوی بچوں کے جھنجھٹ میں پڑنے کی فرصت بھی نہیں ملی۔ مولانا نیازی اسلام کے ایک ایسے انتھک مبلغ ہیں جن کا کردار اس کی گفتار کی تائید کرتا ہے۔ مولانا نیازی کی ذات سراپا تبلیغ ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض کی ادائیگی میں دنیا کی کوئی طاقت ان کے لیے رکاوٹ نہ بن سکی۔ ان کی تبلیغی خدمات کا دائرہ پورے عالم انسانی پر محیط ہے۔ وہ بسلسلہ تبلیغ بیرون ملک کئی دورے فرما چکے تھے اور کئی بین الاقوامی کانفرنسوں سے خطاب کر چکے ہیں۔ گذشتہ چند سالوں سے برطانیہ کے مسلمانوں کی دعوت پر عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر جلوس میلاد کی قیادت کے لیے تشریف لے جاتے رہے ہیں۔ آپ نے پوری دنیا میں اسلامی نظریات و عقائد کا دفاع کیا اور اسلام کی حقانیت کا اثبات کر کے بین الاقوامی طور پر عظمت اسلام کا پرچم بلند کیا۔ آپ کے خطبات و تقاریر اسلامی معلومات کا بیش بہا خزانہ ہوتے ہیں۔ مولانا نیازی کی تقاریر بندگان حق کی دلوں میں جوش ایمانی بھڑکانے اور غیرت و حمیت جگانے والی اور خرمن باطل کے لیے برق خاطف کی طرح ہوتی ہیں۔ مولانا نیازی نے کچھ عرصہ اسلامیہ کالج لاہور میں شعبہ علوم اسلامیہ کے صدر کی حثیت سے علمی خدمات سر انجام دیں۔ اس کے بعد زندگی بھر ایک مصلح کی حثیت سے مسلمانوں کی علمی و فکری راہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔ 2 جون 1968ء کو مجلس صداقت اسلام لاہور کی طرف سے پہلی بار موثر انداز میں یوم رضا منایا گیا جس میں مجاہد ملت نے بھی پرزور مقالہ مقالات یوم رضا پڑھا۔ مارچ 1982 میں بعض فتہ پرور لوگوں کی سازش کی بنا پر بعض عرب ممالک نے امام احمد رضا خان بریلوی کے ترجمہ کنزالایمان اور مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادی کی تفسیر خزائن العرفان پر ناروا پابندی عائد کی تو مجاہد ملت نے متحدہ عرب امارات، کویت اور سعودی عرب کے سفیروں کو اصلاح احوال کے لیے تفصیلی خط لکھے۔ 5 مئی 1985ء کو ورلڈ اسلامک مشن، برطانیہ کی طرف سے ویملے ہال لندن میں حجاز کانفرنس منعقد کی گئی جس میں سعودی حکمرانوں سے اپیل کی گئی کہ اہل سنت و جماعت کے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔ 1983ء کی بات ہے کہ مجاہد ملت نے علامہ مفتی محمد عبد الحکیم شرف قادری کو ٹیلی فون کیا اور فرمایا کہ سمن آباد میں پروفیسر طاہر القادری کی رہائش گاہ پر ایک ضروری میٹنگ ہے آپ بھی اس میں شرکت کریں۔ عبد الحکیم شرف قادری اور مولانا نیازی اکھٹے سمن آباد پہنچے تو وہاں پر پہلے سے طاہر القادری اور مفتی محمد خان قادری موجود تھے۔ وہاں پر موضوع احسان الہی ظہیر کی کتاب البریلویت تھی جس میں اس نے غلط بیانیوں کے انبار لگا دیے تھے اور بریلوی بزرگوں کی کردار کشی کی گئی تھی۔ اس کے جواب کے لیے عبد الحکیم شرف قادری کے ذمہ داری لگائی تھی جس کے لیے شرف قادری نے دو کتابیں لکھیں ایک اندھیرے لے اجالے تک اور دوسری شیشے کے گھر۔

عالمی روحانی تحریک
انجمن سرفروشان اسلام(رجسٹرڈ)پاکستان