اقتباسات

” اے عبداللہؓ ! تمہاری کیا مجال کہ مجھ سے الجھو تم ہمارے غلام کی اولاد ہو “

ایک دفعہ عالی مقام حضرت امام حسینؓ اور عبداللہ بن عمرؓ بچپن کے دِنوں میں کھیلنے میں مشغول تھے ۔
کسی بات پر تکرار ہوئی تو حضرت امام حسینؓ نے فرمایا
” اے عبداللہؓ ! تمہاری کیا مجال کہ مجھ سے الجھو تم ہمارے غلام کی اولاد ہو “
یہ جملہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو انتہائی ناگوار گزرا اور آپ برسبیلِ شکائیت اپنے بابا جان خلیفہ الوقت حضرت عمر فاروقؓ کے دربار میں حاضر ہوئے اور ساری روداد بیان فرمائی ۔
مرادِ رسولؐ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ بیٹا عبداللہ ! تمہارے پاس اس بات کا کوئی گواہ موجود ہے ؟ حضرت عبداللہؓ نے فرمایا کہ وہاں ہم دونوں کے علاوہ کوئی موجود نہ تھا ۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ پھر عدل کے تقاضے کے مطابق گواہی ضروری ہے یا پھر تمہاری بات تب ہی قبول کی جا سکتی ہے جب حضرت امام حسینؓ خود تمہاری بات کی تائید کرتے ہوئے اسے لکھ کر دیں ۔
حضرت عبداللہؓ بن عمرؓ امام حسینؓ کے پاس گئے اور فرمایا کہ حسینؓ پاک ! کیا آپ مجھے یہ ابنِ غلام والی بات لکھ کر دے سکتے ہیں –
ہاں میں جواب ملا ۔
حضرت عبداللہؓ حضرت امام حسینؓ سے تحریری ثبوت لے کر دربارِ خلافت میں عمرؓ پاک کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آئندہ کارروائی کی استدعا کی ۔
حضرت عمر فاروقؓ نے جب تحریر پڑھی جس کا مفہوم لگ بھگ اسطرح تھا کہ
” عبداللہؓ ہمارے غلام حضرت عمر فاروقؓ کا بیٹا ہے اور اس نسبت سے یہ ابنِ غلام ہے“
تو آپؓ نے فرمایا
”عبداللہؓ ! فیصلہ ہو چکا کہ جو کچھ حسینؓ پاک نے تمہارے اور میرے بارے میں فرمایا ہے وہی حق ہے مَیں عمرؓ بن خطاب ان کا غلام ہوں اور تم واقعی ابنِ غلام ہو لہذٰا آئندہ کسی معاملے میں بھی اپنے آقا حسینؓ سے بحث مت کرنا“
اس کے ساتھ ہی خلیفہِ دوم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور آپؓ نے وصیت فرمائی کہ جب میں اس جہانِ فانی سے کوچ کروں تو یہ تحریر میرے کفن کے اندر رکھ دینا تا کہ جب قبر و حشر کے معرکے درپیش ہوں تو مَیں اس گھرانے کی غلامی کا پروانہ دِکھا سکوں –
کیونکہ یہی تحریر میری بخشش کی دلیل ہے کہ اس پاک گھرانے نے مجھے قبول
کر لیا ۔