اقتباسات

اہلِ بیت اطہارؑ کی چہلم _سید الشہداءؑ پر کربلا آمد.

” اہلِ بیت اطہارؑ کی چہلم _سید الشہداءؑ پر کربلا آمد
واقعہ کربلا کے ایک سال بعد تک یزید ملعون نے
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کو قید رکھا
امام حسین علیہ السلام کی بیٹی
جنابِ سکینہ السلام اللّہ علیہ کی شہادت کے بعد بغاوت کے نتیجے میں اسیروں کو رہا کیا گیا رہائی کے بعد
امام علی علیہ السلام کی بیٹی
بی بی زینب سلام اللّہ علیہ قافلے کے ساتھ کربلا میں
( 20 صفر)کو تشریف لائیں اور
امام حسین علیہ السلام کا چہلم(اربعین) منایا

اہلِ بیت اطہار علیہم السلام کا قافلہ جب ایک ایسے مقام پر پہنچا جہاں دو راستے نکلتے تھے – ایک کربلا کی طرف جاتا تھا اور ایک مدینہ کی طرف جاتا تھا – اس وقت مستورات اور دکھی ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں کو اپنے اپنے شہداء کی قبروں کی زیارت کا بہت اشتیاق تھا – اس لئے گریہ و زاری شرو ہو گئی اور نعمان سے کہا گیا :

خدا کی قسم !
ہمیں کربلا کے راستے لے جاؤ تاکہ اپنے عزیزوں کی قبروں کی زیارت کر لیں اور جو اس سفر میں ہمارے اوپر مصائب آۓ ہیں وہ بھی قبر _امام حسین علیہ السلام پر بیان کر لیں –

نعمان نے قبول کیا اور ان کے فرمانے پر عمل کیا – اس کاروان کو کربلا کے راستے پر جانے کا حکم دیا – جوں جوں قافلہ کربلا کے قریب جا رہا تھا ، ہر بی بی کے دل میں اپنے عزیزوں کی قبور کی زیارت شوق کی آگ شعلہ ور ہو رہی تھی یہاں تک کہ سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی تربت کی خوشبو بہنوں اور بیٹیوں کے مسام جان تک پہنچی تو وہ ببل کی طرح ہو گئیں کہ جو پھول کی خوشبو سونگھتی ہے تو فرط محبت سے نڈھال ہو جاتی ہے – جب بیبیوں کے مسام میں تربت حسین علیہ السلام کی خوشبو پہنچی تو وہ فرط مہیبت اور شدت غم سے مرثیہ پڑھنے لگیں –

حیات زینب کی زبان حال یہ تھی :

اے بھائی ! آپ کے بعد میں نے بہت دکھہ دیکھے اور مجھے بہت سے شہروں اور گلیوں میں پھرایا گیا – مجھے خود اس قدر حوصلے اور صبر کی امید نہ تھی کہ آپ کے بغیر کربلا سے شام تک پہنچ سکوں گی لیکن خدا نے حوصلہ دیا – کربلا کے بعد جب پہلی دفعہ کوفہ میں آپ کے سر پر نظر پڑی تو میں نے فرط _غم سے اپنی پیشانی کو محمل کی لکڑی پر دے مارا –

بھائی !
ہمیں کوفہ و شام کے بازاروں میں ننگے سر اور ننگے پاؤں پھرایا گیا اور ہم نے نا محرموں کی موجودگی کے سبب سر کو شرم سے جھکا لیا – جب یزید کے دربار میں بازو بندھے ہوۓ پیش ہوئی تو کئی مرتبہ خدا سے موت مانگی لیکن ان دکھوں کے باوجود میں اس بات پر مطمئن ہوں کہ اپنی نقد _جاں بیچ کر آپ کا غم خرید لیا ہے –

{ مدینہ سے مدینہ تک ، صفحہ_٥٦٢ }