اقتباسات

اس عظیم الشان رات کی عظمت و فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے.

27 رمضان المبارک کی مقدس رات میں
مدینہ ثانی ملک خداداد پاکستان معرض
وجود میں آیا جب اس رات کی اتنی اہمیت ہے
تو سوچیں ذرا جو پاک ملک اس رات میں بنا
اس کی کتنی اہمیّت ہوگی
اللّہ پاک ہمارے ملک پاکستان کو صدا سلامت رکھے آمین

اس مبارک و مقدس رات کے بارے میں قرآنِ کریم میں ارشادِ خداوندِ قدوس ہے:اِنَّااَنزَلنٰہُ فِی لَیلَةِ القَدرِ۔وَمَااَدرٰکَ مَالَیلَةُ القَدرِ۔لَیلَةُ القَدرِخَیر مِّن اَلفِ شَھرٍتَنَزَّلُ المَلٰئِکَةُ وَالرُّوحُ فِیھَا بِاِذنِ رَبِّھِم مِّن کُلِّ اَمرٍ۔سَلاَم ھِیَ حَتّٰی مَطلَعِ الفَجرِ۔بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے اور آپ نے کیاجانا کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر!ہزار مہینوں سے بہتر(رات) ہے۔اس (رات) میں فرشتے اور روح (یعنی جبرائیل امین) اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر (خیر) کیلئے اترتے ہیں، یہ (رات) طلوع فجر ہونے تک سراسر سلامتی ہے “۔ (سورةالقدر:آیت 1تا 5)
اس سورت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں (83 سال اور4 ماہ) کی عبادت سے کہیں بہتر و افضل ہے۔ یہ اس امت محمدیہ ﷺ پر اﷲ تعالیٰ کا کتنا بڑااحسانِ عظیم ہے کہ مختصر سے وقت میں زیادہ سے زیادہ اجروثواب حاصل کرنے کیلئے اتنی عظیم رات عطافرمائی ہے۔رمضان المباک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک رات ”شبِ قدر“ کہلاتی ہے، جو بہت ہی برکتوں، رحمتوں نعمتوں اور سعادتوں کی رات ہے۔ قرآنِ پاک میں اس رات کو ہزار مہینوں(30ہزار راتوں) سے بھی افضل و اعلیٰ قرار دیا گیا ہے۔
{إنَّا أنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ إنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ é فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ أمْرٍ حَکِیْمٍéأمْرًا مِنْ عِنْدِنَا إنَّاکُنَّا مُرْسِلِیْنَ}’’یقینا ہم نے اس قرآن کو برکت والی رات میں نازل کیا بے شک ہم ڈرانے والے ہیں ۔ اس رات میں ہرایک مضبوط کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ ہماری جانب سے ہے اور ہم بھیجنے والے ہیں ۔‘‘ (الدخان:۳۔۵)
وہ شخص جس کو اس عظیم رات کی معرفت اورحاضری نصیب ہوجائے اور وہ اس رات کو اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی میں گزاردے توگو یا کہ اس نے تراسی سال اور چار مہینوں سے بھی زیادہ زمانہ عبادت و ریاضت میں گزاردیا ہے اور اس زیادتی کا بھی حقیقی حال معلوم نہیں کہ ہزار مہینوں سے کتنا افضل ہے۔
اللہ تعالی کی اس امت محمدیہ کے ساتھ خصوصی عنایات ہیں کہ اس نے اس خیر امت کو ایسے انعامات واکرامات سے نوازا ہے جن سے دیگر امتیں محروم رکھی گئیں، منجملہ ان خاص انعامات الہیہ کے شب قدر بھی ہے، جو اللہ کے حبیب ﷺ کی تمنا وآرزو پر اس امت کو عطا کی گئی، شب قدر کی قدر ومنزلت کا عالم یہ ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے یعنی اس شب میں عبادت کرنا تراسی (۸۳) برس چار مہینے کی عبادت سے بہتر قرار پاتا ہے، یہ وہ شب ہے جس میں روح الامین حضرت جبریل مع فرشتوں کے اس دنیا پر نزول فرماتے ہیں اس شب میں عبادت کرنے سے سابقہ گناہوں کی مغفرت ہوجاتی ہے،جو اس شب سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا الغرض اس شب کو سید اللیالی یعنی تمام راتوں کی سردار کہا گیا ہے خوش نصیب ہوتا ہے وہ بندہ جو اس شب قدر کی قدر دانی کرتا ہے اور اس کو اطاعت الہی واتباع رسول میں بسر کرتا ہے، لہو ولعب، فضول اعمال سے اجتناب کرتے ہوئے اس مبارک شب کو ذکر واذکار اور عبادت الہی میں گذارتا ہے، اور ایسے بندے کو اس رات اللہ کی رحمت خاص حاصل ہوتی ہے، کیونکہ یہ منجملہ ان راتوں کے ہے جن میں رحمت الہی کا خاص نزول ہوتا ہے، چنانچہ حضرت عمدۃ المحدثین مولانا محمد خواجہ شریف صاحب دامت برکاتہم شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ لکھتے ہیں ’’یہ اللہ تعالی کا فضل ہے کہ اس نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس نظامِ فضیلت کی وجہ سے ان مناسبات ومواقع میں اپنی خصوصی رحمتیں نازل کرتا ہے، او راس کی وجہ سے بندوں میں انابت اور عبادات وریاضات میں مسابقت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
ماہِ رمضان المبارک اور اس کی ستائیسویں شب یعنی” شب قدر“کی عظمت و فضیلت اور اہمیت امت مسلمہ میں ہمیشہ سے مسلّم رہی ہے اور کیوں نہ رہتی کہ یہ رات تو گناہ گاروں کی مغفرت اور مجرموں کی جہنم سے نجات کی رات ہے۔یہ رات تو عبادت و ریاضت، تسبیح و تلاوت، درود و سلام، توبہ و استغفار،کثرتِ نوافل،صدقات و خیرات، عجزو نیاز مندی اور مراقبہ و احتساب عمل کی رات ہے۔
اس عظیم الشان رات کی عظمت و فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل ا ﷲﷺنے ارشاد فرمایا کہ: ”جب شب قدر آتی ہے تو حضرت جبرائیل امین علیہ السلام فرشوں کی جماعت کے ساتھ زمین پر آتے ہیں اور ملائکہ کا یہ گروہ ہر اس بندے کیلئے دعائے مغفرت اور التجائے رحمت کرتا ہے جو کھڑے یا بیٹھے ہوئے اﷲتعالیٰ کے ذکر اور عبادت میں مشغول رہتا ہے۔ جب کہ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ فرشتے ان بندں سے مصافحہ بھی کرتے ہیں“ ۔ کتنا خوش نصیب اور بلند اقبال ہے وہ بندہ! جو اس رات کو اپنے پروردگار کی یادمیں بسرکرتا ہے۔ جبرائیل امین اور فرشتے اس کے ساتھ مصافحہ کرنے کا شرف حاصل کرنے کیلئے آسمان سے اتر کر اس کے پاس آتے ہیں او ر اس کی مغفرت و بخشش کیلئے دعائیں مانگتے ہیں۔(تفسیرضیاءالقرآن: جلد 5صفحہ 620)
علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمدمالکی قرطبی (متوفی668ھ) حضرت کعب احبار سے روآیت کرتے ہیں کہ ”بنی اسرائیل کے زمانہ میں ایک بادشاہ تھا،اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے نبی کو وحی کی کہ اس بادشاہ سے کہیں کہ وہ کوئی تمنا اوردعاکرے تواس نے یہ تمنا کی کہ میں اپنے مال،اولاد اور اپنے جسم و جان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کروں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک ہزار بیٹے عطافرمائے۔ اُس نے اپنے مال اور اولاد کے ساتھ ایک لشکرتیارکیا اور اپنے مال اوراولادکولے کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں چل پڑا، وہ ہر ماہ جہادکرتا اور اس کا ایک بیٹا شہید ہوجاتا تو وہ دوسرے بیٹے کو میدانِ جہاد میں لے آتا، اسی طرح ہر ماہ اس کا ایک ایک بیٹاشہید ہوتارہا اور وہ اس کے باوجود دن بھرروزہ رکھتا اور رات کوقیام (عبادت) کرتارہتاتھا، یہاں تک کہ ہزار مہینوںمیں اس کے ہزار بیٹے اللہ کی راہ میں شہیدہوگئے۔پھر وہ خود آگے بڑھا اور کفا رسے جہادکیااور بالآخروہ خود بھی شہید ہو گےا۔لوگوں نے یہ سن کرکہا:”اس شخص کی طرح تو کوئی بھی عبادت نہیں کر سکتا؟“۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ”لیلة القدرخیرمن الف شھر“ یعنی شب قدر کی عبادت اس بادشاہ ایسی ہزارماہ کے صیام وقیام اور جہاد کی عبادتوں سے بھی افضل واعلیٰ ہے“۔ (الجامع لاحکام القرآن: جز20ص132،مطبوعہ دارالفکر بیروت1415ھ)
۔ ام المومنین حضر ت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کیلئے خصوصی اہتمام فرماتے تھے اور آپ ﷺکا یہ معمول تھا کہ جب رمضان کاآخری عشرہ شروع ہوتاتھاتوآپ ﷺاپنا تہہ بندمضبوطی سے باندھ لیتے اور راتوں کوذکرخداوندی سے زندہ کرتے اور اپنے اہل وعیال کو بھی عبادت کے لئے جگاتے۔حضر ت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِﷺ یَجتَھِدُ فِی العَشرِالاَوَاخِرِمَالَایَجتَھِدُ فِی غَیرِہ۔ رسول اللہﷺ (عبادت الٰہی میں)جتنامجاہدہ( کوشش) اس آخری عشرہ میں فرماتے تھے، کسی دوسرے وقت میں ایسا مجاہدہ نہیں فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم،مشکوٰة المصابیح باب لیلة القدر)