اقتباسات

معراج النبیؐ کے متعلق عقیدۂ اہل ِسنّت اور فرمانِ سیّدناریاض احمدگوھرشاھی مدظلہ العالی

معراج النبیؐ کے متعلق عقیدۂ اہل ِسنّت اور فرمانِ سیّدناریاض احمدگوھرشاھی مدظلہ العالی
اللّہ تعالٰی نے حضورپاکؐ کو جسمانی و روحانی معراج عطافرماکر آپؐ کو ایسا اعلٰی و ارفع مقام و مرتبہ عطافرمایاجوکسی اور کوحاصل نہیں ہوا اس طرح لوگوں پر واضع ہوجاناچاہئےکہ اللّہ تعالٰی کے بعد آپؐ کی ذات ہی مقام اعلٰی رکھتی ہے اور یاد رکھناچاہئےکہ حضورپاکؐ کے ہم مرتبہ کوئی اور نہیں ہے اگر کوئی نبوّت کا دعویدار ہے تو وہ اور اس کے پیروکار کافر و زندیق ہیں
((((عقیدہ گوھرشاھی مدظلہ العالی)))))
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(1)
ترجمہ:پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں ، بیشک وہی سننے والا، دیکھنے والاہے
(القرآن سورہ الاسراء)

بیتُ اللّہ شریف سے بیتُ المقدس تک کی جسمانی معراج قطعی یقینی ہے،اس کا انکار کفر ہے۔بیت المقدس سے آسمان بلکہ لامکان تک کی معراج کا اگر اس لیے انکار کرتا ہے کہ آسمان کے پھٹنے کو ناممکن مانتا ہے تو بھی کافر ہے کہ اس میں آیاتِ قرآنیہ کا انکار ہے ورنہ گمراہ ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ آیۃ کریمہ“سُبْحانَ الَّذِیۡۤ سے بَارَکْنَا حَوْلَہ“ تک بیت المقدس تک کی معراج کا ذکر ہے اور”لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیاتِنَا“ میں آسمانی معراج کا ذکر ہے اور”اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ البَصِیۡرُ“میں لامکانی معراج کا ذکر ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 8/135)

واقعۂ معراج کب_ہوا؟

جسمانی معراج نبوتؐ کے گیارہویں سال یعنی ہجرت سے دو سال پہلے اپنی (چچا زاد) ہمشیرہ امِّ ہانی کے گھر سے ستائیسویں رجب دوشنبہ کی شب کو ہوئی۔ (مواہب لدنیہ مع زرقانی، 2/70، 71، مراۃ المناجیح، 8/135)

امِّ ہانی کے گھر سے مسجد حرام تک

معراج کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟
اس بارے میں شارح ِ بخاری علامہ محمود عینی حنفی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ نبیِّ کریم صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت اُمِّ ہانی رضی اللہُ عنہا کے گھر پر آرام فرمارہے تھے جوشعب ابی طالب کے پاس تھا، گھر کی چھت کھل گئی، فرشتہ اندر داخل ہوا اور آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو گھر سے اٹھاکر مسجد حرام لائے جبکہ آپ پر اونگھ کا اثر تھا۔ (عمدۃ القاری، 11/600، تحت الحدیث:3887)

شقِّصدراوربراق پرسواری

اللّہ کے حبیب صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں حطیم میں آرام کررہا تھا کہ اچانک ایک آنے والا میرے پاس آیا اور میری ہنسلی کی ہڈّی سے لے کر پیٹ کے نیچے تک کا حصّہ چاک کیا۔ میرا دل نکالا، پھر سونے کا ایک طشت لایا گیا، اس میں میرا دل زم زم سے دھویا گیا، پھر اسے حکمت سے بھرا گیا، پھر اسے دوبارہ اس کی جگہ رکھا گیا۔ پھر میرے پاس سفید رنگ کا ایک جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا میں اس پر سوار ہوا۔(بخاری، 2/584، حدیث:3887، مسلم،ص87، حدیث: 411ماخوذاً)
مسجد حرام سے نکلنے کے بعد تین مقامات پر نماز
براق پر سوار ہونے کے بعد بیتُ المقدس کی طرف آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سفر شروع ہوا، اس دوران آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف مقامات پر نماز ادافرمائی اور مختلف مشاہدات کئے،ان میں سے چند کا ذکر کیاجاتاہے۔ آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیتُ المقدس کی طرف جاتے ہوئے دورانِ سفر تین مقامات پر نمازیں پڑھیں۔ چنانچہ آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں کہ دورانِ سفر ایک مقام پر حضرت جبرائیل نے عرض کیا :اترئیے اور نماز پڑھ لیجئے! میں نے اُتر کرنماز پڑھی، پھر عرض کیا: معلوم ہے کہ آپ نےکس جگہ نماز پڑھی ہے؟ (پھر کہنے لگے)آپ نے طیبہ(یعنی مدینہ پاک) میں نماز پڑھی ہے، اسی کی طرف آپ کی ہجرت ہو گی۔ پھر ایک اور مقام پر عرض کیا کہ اتر کر نماز پڑھ لیجئے، میں نے اتر کر نماز پڑھ لی، جبریل علیہ السّلام نے عرض کیا: معلوم ہے کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟(پھر کہنے لگے) آپ نے طُورِ سیناپر نماز پڑھی ہے جہاں اللّہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو ہَم کلامی کا شَرَف عطا فرمایا تھا۔ پھر ایک اور جگہ عرض کیاکہ اتر کر نماز پڑھ لیجئے، میں نے اتر کر نماز پڑھی، جبریل نے عرض کیا: معلوم ہے کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ (پھر کہنے لگے) آپ نے بیتِ لحم میں نماز پڑھی ہے جہاں حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کی وِلادت ہوئی تھی۔(نسائی، ص81، حديث:448)

دورانِ سفر کے چندمشاہدات

آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیتُ المقدس کی طرف جاتے ہوئے راستے کے کنارے ایک بوڑھی عورت دیکھی، حضرتِ جبرائیل سے دریافت فرمایا: یہ کون ہے؟ عرض کیا: حضور! بڑھے چلئے۔ آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آگے بڑھ گئے، پھر کسی نے آپ کو پُکار کر کہا: ہَلُمَّ یَامُحَمَّد یعنی اے محمد! اِدھر آئیے۔ حضرتِ جبرائیل نے پھر وہی عرض کیا کہ حُضُور! بڑھے چلئے۔ آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آگے بڑھ گئے۔ پھر ایک جماعَت پر گزر ہوا۔ انہوں نے آپ کو سلام عرض کرتے ہوئے کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَوَّلُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا آخِرُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حَاشِرُ یعنی اے اوّل! آپ پر سلامتی ہو، اے آخر! آپ پر سلامتی ہو۔ اے حاشِر! آپ پر سلامتی ہو۔حضرتِ جبرائیل علیہ السّلام نے عرض کیا: حُضُور! ان کے سلام کا جواب مرحمت فرمائیے۔ آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سلام کا جواب ارشاد فرمایا۔ اس کے بعد مسلسل دو جماعتوں پر گزر ہوا تو وہاں بھی ایسا ہی ہوا۔(دلائل النبوة للبيهقى، 2/362)

بیتُ المقدس آمد

ا یک روایت میں ہے کہ حضورِ انور صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیت المقدس میں بابِ ِیمانی سے داخِل ہوئے پھر مسجد کے پاس آئے اور وہاں اپنی سواری باند ھ دی۔(سیرت حلبیہ، 1/523) آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں: میں نے براق کو اسی حلقے میں باندھا جہاں انبیائے کرام اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے۔ پھر مسجد میں داخل ہوا اور دو رکعتیں پڑھیں، پھر باہر نکلا تو بُخاری شریف کی رِوَایَت کے مُطَابِق یہاں آپ کے پاس دودھ اور شراب کے دو پیالے لائے گئے، آپ نے انہیں مُلاحظہ فرمایا پھر دودھ کا پیالہ قبول فرما لیا۔ اس پر حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کہنے لگے : ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدَاکَ لِلْفِطْرَۃِ لَوْ اَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ اُمَّتُکَ یعنی تمام تعریفیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے جس نے آپ صَلَّ اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی فطرت کی جانب رہنمائی فرمائی، اگر آپ صَلَّ اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شراب کا پیالہ قبول فرماتے تو آپ صَلَّ اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اُمَّت گمراہ ہو جاتی۔“( صحيح البخارى، ص۱۱۸۱، الحديث : ۴۷۰۹)

مشاہدات کیت فصیل

آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بیتُ المقدس پہنچنے کے بعد حضرتِ جبرائیل نے عرض کیا: وہ بڑھیا جسے آپ نے راستے کے کنارے مُلاحَظہ فرمایا تھا، وہ دنیا تھی، اس کی صرف اتنی عمر باقی رہ گئی ہے جتنی اس بڑھیا کی ہے۔ جس نے آپ کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا وہ اللہ کا دشمن ابلیس تھا، چاہتا تھا کہ آپ اس کی طرف مائل ہو جائیں۔ جنہوں نے آپ کو سلام عرض کیا تھا وہ حضرتِ ابراہیم، حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ عیسیٰ علیہم السّلام تھے۔(دلائل النبوة للبيهقى،2/ 362)

انبیائےکرامؑ کی_امامت

یہ سفر کرتے کرتے ہمارے پیارے آقا صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیت ُالمقدس تشریف لائے جہاں مسجدِ اقصیٰ میں انبیائے کرام کی امامت فرمائی۔چنانچہ آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ جب میں بیتُ المقدس میں آیا تو انبیا ئے کرام جمع تھے، حضرت جبریل علیہ السّلام نے مجھے آگے کیا تو میں نے ان کی امامت کی۔(نسائى، ص81، حدیث:448)

انبیائےکِرامؑ_کےخطبے

مسجدِ اقصیٰ میں نماز کے بعد بعض انبیائے کرام علیہم السّلام نے خطبے دیئے۔ سب سے پہلے اللّہ کے خلیل حضرت سیِّدنا ابراہیم علیہ السّلام نے کہا: تمام تعریفیں اللّہ کے لئے جس نے مجھے خلیل بنایا، عظیم بادشاہت عطا فرمائی، امام اور اپنا فرمانبردار بندہ بنایا، میری اقتدا و پیروی کی جاتی ہے، مجھے آگ سے نجات عطا فرمائی اوراسے مجھ پر ٹھنڈی اور سلامتی والی کر دیا۔

ان کے بعد حضرت سیِّدنا موسیٰ علیہ السّلام کہنے لگے: تمام تعریفیں اللّہ کے لئے جس نے مجھ سے کلام فرمایا، مجھے اپنی رِسالت اور کلمات کے لئے منتخب فرمایا، مجھے راز کہنے کو قریب کیا، مجھ پر تورات نازِل فرمائی، میرے ہاتھ پر فِرعون کو ہلاک فرمایا اور میرے ہی ہاتھ پر بنی اسرائیل کو نجات عطا فرمائی۔

ان کے بعد حضرتِ سیِّدنا داوٗد علیہ السّلام نے کہا: تمام تعریفیں اللّہ کے لئے جس نے مجھے بادشاہت عطا فرمائی، مجھ پر زبور نازِل فرمائی، لوہے کو میرے لئے نرم فرما دیا، میرے لئے پرندوں اور پہاڑوں کو مسخر فرما دیا، مجھے حکمت اور فصل خِطاب عطا فرمایا۔

ان کے بعدحضرت سیِّدنا سلیمان علیہ السّلام کہنے لگے: تمام تعریفیں اللّہ کے لئے جس نے میرے لئے ہواؤں، جنوں اور انسانوں کو مسخر فرما دیا، شیاطین کو بھی مسخر فرما دیا اور اب یہ وہ کام کرتے ہیں جو میں ان سے چاہتا ہوں مثلاً بلند وبالا مکانات تعمیر کرنا اور تصویریں بنانا، مجھے پرندوں کی بولی اور ہر چیز سکھائی، میرے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہایا اور مجھے ایسی بادشاہت عطا فرمائی جو میرے بعد کسی کے لئے نہیں۔

ان کے بعد حضرت سیِّدنا عیسیٰ علیہ السّلام نے کہا: تمام تعریفیں اللّہ کے لئے جس نے مجھے تورات اور انجیل سکھائی، مجھے پیدائشی اندھے اور کوڑھ کے مرض والے کو تندرست کرنے والا اور اپنے اِذْن سے مُردوں کو زندہ کرنے والا بنایا، مجھے آسمان پر اُٹھایا، مجھے کافِروں سے پاک کیا، مجھے اور میری ماں کو شیطان مردود سے پناہ عطا فرمائی جس کی وجہ سے اُسے میری ماں پر کوئی راہ نہیں۔

ان سب حضرات کے بعد اللّہ کے حبیب، امام الانبیاء، صاحبِ معراج صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خطبہ دیا، خطبے سے پہلے آپ نے انبیائے کرامؑ سے فرمایا کہ تم سب نے اپنے ربّ کی ثنا بیان کی ہے، اب میں رب کی تعریف وثنا بیان کرتا ہوں۔ پھر آپ نے اس طرح خطبہ پڑھا: تمام تعریفیں اللّہ کے لئے جس نے مجھے تمام جہانوں کے لئے رحمت اور تمام انسانوں کے لئے خوش خبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا، مجھ پر حق وباطِل میں فرق کرنے والی کِتاب کو نازِل فرمایا جس میں ہر شے کا روشن بیان ہے، میری اُمَّت کو لوگوں میں ظاہِر ہونے والی سب اُمَّتوں میں بہترین اُمَّت بنایا، درمیانی اُمَّت بنایا اور انہیں اوّل بھی بنایا اور آخر بھی، میرے لئے میرا سینہ کُشادہ فرمایا، مجھ سے بوجھ کو دُور فرمایا، میرے ذِکْر کو بلند فرمایا اور مجھے فاتِح اور خاتِم بنایا۔ یہ سن کر حضرتِ سیِّدنا ابراہیم علیہ السّلام نے فرمایا: بِہٰذَا فَضَلَکُمْ مُحَمَّدٌ یعنی اسی وجہ سے محمد نے تم پر فضیلت پائی۔ (دلائل النبوة للبيهقى، 2/ 400، 401)

آسمان وںکی طرف_سفر

یہاں مسجدِ اقصیٰ تک کے معاملات مکمل ہوئے ، اب آسمانوں کا سفر شروع ہوا۔

چنانچہ نبیِّ کریم صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتےہیں: پھرمجھے سواری پر سوار کیا گیا، جبرئیل علیہ السّلام مجھے لیکر چلے حتّٰی کہ وہ دنیا کے آسمان پر پہنچے تو دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا: کون؟ فرمایا:جبریل، پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے، فرمایا: حضرت محمد صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں، پوچھا گیا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟فرمایا:ہاں۔ تو کہا گیا: مَرْحَباً بِهِ فَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ(یعنی ان کو خوش آمدید ہو وہ خوب آئے) پھر دروازہ کھولا گیا،جب میں داخل ہوا تو وہاں حضرت آدم علیہ السّلام تھے، جبریل نے کہا: یہ آپ کے والد آدم علیہ السّلام ہیں انہیں سلام کرو، میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا،پھر فرمایا: مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ (یعنی صالح فرزند، صالح نبی تم خوب تشریف لائے)، آپ نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر فرمائی۔

جنتی_جہنمی اَرواح

آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کے دائیں بائیں کچھ لوگوں کو ملاحظہ فرمایا، جب آپ اپنی دائیں جانب دیکھتے تو ہنس پڑتے ہیں اور جب بائیں جانب دیکھتے تو رو پڑتے ہیں۔ حضرت جبریل نے عرض کیا: ان کے دائیں اور بائیں جانب جو صورتیں ہیں یہ ان کی اولاد ہیں، دائیں جانب والے جنتی ہیں اور بائیں جانِب والے جہنمی ہیں۔ (بخاری، 1/140، حديث:349)

حضورِ اکرم صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں:پھر مجھے جبریل علیہ السّلام اوپر لے گئے حتّٰی کہ دوسرے آسمان پر پہنچے دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا: کون؟ فرمایا: جبریل، پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: حضرت محمد صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، پوچھا گیا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ فرمایا: ہاں،کہا گیا: خوش آمدید تم بہت ہی اچھا آنا آئے،پھر دروازہ کھول دیا گیا، جب میں اندر پہنچا تو وہاں حضرت یحیی ٰعلیہ السّلام اور عیسیٰ علیہ السّلام تھے۔جبریل علیہ السّلام نے کہا:یہ یحیی ٰعلیہ السّلام ہیں اور یہ عیسیٰ علیہ السّلام ہیں، انہیں سلام کرو۔میں نے سلام کیا: ان دونوں نے جواب دیا۔پھر انہوں نے کہا: مَرْحَبًا بِالاَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ (صالح بھائی صالح نبی آپ خوب آئے)۔ انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر جبریل علیہ السّلام مجھے تیسرے آسمان کی طرف لے گئے، دروازہ کھلوایا، پو چھا گیا کون؟ فرمایا: جبریل، پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: حضرت محمد صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں، پوچھا گیا: انہیں بلایا گیا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ کہا گیا: خوش آمدید تم خوب ہی آئے۔ پھر دروازہ کھولا گیا، جب میں داخل ہوا تو وہاں حضرت یوسف علیہ السّلام تھے۔ جبریل علیہ السّلام نے کہا: یہ یوسف علیہ السّلام ہیں، انہیں سلام کرو۔ میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے جواب دیا۔ پھر کہا: مَرْحَبًا بِالاَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ(یعنی صالح بھائی صالح نبی آپ خوب آئے) انہیں حسن کا ایک حصّہ دیا گیا تھا، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔پھر جبریل مجھے اوپر لے گئے حتّٰی کہ چوتھے آسمان پر پہنچے تو دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا: کون ہے؟ فرمایا: جبریل ہوں، پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: حضرت محمد صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، پوچھا گیا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ کہا گیا: خوش آمدید اچھا آنا، آپ آئے۔ تو دروازہ کھولا گیا، جب اندر گئے تو وہاں حضرت ادریس علیہ السّلام تھے۔ جبریل علیہ السّلام نے کہا:یہ ادریس علیہ السّلام ہیں، انہیں سلام کریں۔ میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا اور کہا: مَرْحَبًا بِالاَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ (یعنی خوش آمدید اے صالح بھائی صالح نبی)۔ انہوں نے مجھے بھی خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر مجھے اوپر لے گئے حتّٰی کہ پانچویں آسمان پر پہنچے تو دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا کون ہے؟ کہا: جبریل ہوں، پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: حضرت محمد صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں، پوچھا گیا کہ کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ فرمایا: ہاں۔کہا گیا خوش آمدید آپ اچھا آنا آئے۔ دروازہ کھولا گیا تو وہاں حضرت ہارون علیہ السّلام تھے۔ جبریل علیہ السّلام نے کہا: یہ ہارون علیہ السّلام ہیں، انہیں سلام کیجئے۔ میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا۔ پھر کہا:مَرْحَبًا بِالاَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ (یعنی خوش آمدید اے صالح بھائی صالح نبی) انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر مجھے اوپر لے گئے حتّٰی کہ چھٹے آسمان پر پہنچے دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا کون ہے؟ فرمایا: جبریل ہوں، پوچھاگیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: حضرت محمد صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں، پوچھاگیا کیا انہیں بلایاگیا ہے؟ فرمایا: ہاں،کہاگیا: خوش آمدید آپ اچّھا آنا آئے۔ دروازہ کھولا گیا میں اندر پہنچا تو وہاں حضرت موسیٰ علیہ السّلام تھے۔ جبریل علیہ السّلام نے کہا: یہ موسیٰ علیہ السّلام ہیں انہیں سلام کیجئے۔ میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا۔ پھر کہا: بِالاَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ (یعنی خوش آمدید اے صالح بھائی صالح نبی)۔ انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی جب وہاں سے آگے بڑھے تو موسیٰ علیہ السّلام رونے لگے۔ ان سے پوچھا گیا کیا چیز آپ کو رُلا رہی ہے؟ فرمایا: اس لئے کہ ایک فرزند میرے بعد نبی بنائے گئے، ان کی امّت میری امت سے زیادہ جنّت میں جائے گی۔پھر مجھے ساتویں آسمان کی طرف لے گئے، جبریل علیہ السّلام نے دروازہ کھلوایا، پوچھا: گیا کون ہے؟ فرمایا: جبریل ہوں، پوچھا گا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: حضرت محمد صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں، پوچھا گیا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟فرمایا: ہاں۔ کہا گیا خوش آمدید آپ بہت اچھا آنا آئے، میں داخل ہوا تو وہاں حضرت ابراہیم علیہ السّلام تھے۔ آپ بیتُ المعمور کے ساتھ ٹیک لگا کر تشریف فرماتھے، جبریل علیہ السّلام نے کہا: یہ آپ کے والد ابراہیم علیہ السّلام ہیں انہیں سلام کریں، میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا۔ پھر فرمایا:مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ۔(یعنی خوب آئے اے صالح فرزند صالح نبی)۔(بخاری، 2/584، حدیث:3887، مسلم،ص87، حدیث:411)

سدرۃ ُالمنتہی

آسمانوں کے بعد مزید قربِ ِخاص کی طرف سفر کا آغاز ہوا، اس بارے میں پیار ے آقا صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں:پھر میں سدرۃُ المنتہیٰ تک اٹھایا گیا۔(سدرۃُ المنتہیٰ بیری کا ایک نورانی درخت ہے) ا س کے پھل مٹکوں کی طرح اور پتے ہاتھی کے کانوں کی طر ح تھے۔ جب اسے اللہ کا کوئی حکم پہنچتا ہے تو متغیر ہوجاتاہے۔ اللہ کی مخلوق میں ایسا ایک بھی نہیں جو اس کے حسن کی تعریف کرسکے۔ تو اللہ نے مجھ پر وحی فرمائی جو وحی فرمائی۔ جبریل علیہ السّلام نے کہا:یہ سدرۃُ المنتہیٰ ہے۔ وہاں چار نہریں تھیں: دو نہریں خفیہ تھیں اور دو نہریں ظاہر۔ میں نے: پوچھا اے جبریل! یہ کیا ہے؟عرض کیا کہ خفیہ نہریں جنّت کی دو نہریں ہیں اور ظاہری نہریں وہ نیل اور فرات ہیں۔ پھر میرے سامنے بیتُ المعمور لایا گیا، اس کے بعد میرے پاس ایک برتن شراب کا، ایک برتن دودھ کا اور ایک برتن شہد کا لایا گیا، میں نے دودھ کا پیا لہ لیا تو جبریل علیہ السّلام نے کہا:یہ فطرت ہے، اسی پر آپ اور آپ کی امت ہوگی۔(بخاری، 2/584، حدیث:3887، مسلم،ص87، حدیث:411)

مقامِ_استویٰ

نبیِّ کریم صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آسمانوں اور سدرۃُ المنتہی کے بعد سفر جاری رکھتے ہوئے ایک مقام پر پہنچےجسے مستوی کہاجاتاہے، وہاں آپ نے قلموں کے چلنے کی آوازیں سنیں۔اس کے بعد آپ براق پر سوار ہوئے تو اس حجاب کے پاس آئے جو اللہ کریم کے قربِ خاص میں ہے۔اچانک اس حجاب سے ایک فرشتہ نکلا، رسولِ کریم صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت جبریل سےفرمایا: یہ کون ہے؟ حضرت جبریل نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق سے ساتھ مبعوث فرمایا، بطور مکان کے میں تمام مخلوق میں سب سے زیادہ قریب ہوں لیکن اس فرشتہ کو میں نے اپنی تخلیق سے لیکر اب تک دیکھا نہیں تھا۔(تاریخ الخمیس، 1/311)یوں آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (سفر کو جاری رکھتے ہوئے) ایک مقام سے دوسرے مقام تک، ایک حجاب سے دوسرے حجاب تک گئے، حتّٰی کہ ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں حضرت جبریل رک گئے، آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے جبریل! مجھ سے الگ نہ ہو، عرض کیا: اے میرے آقا! ہماری رسائی بس ایک معلوم مقام تک ہے۔ میں اگر ایک بال برابر بھی آگے جاؤں گا تو جل جاؤں گا۔ اس رات تو میں آپ کے احترام کی وجہ سے یہاں تک پہنچا ہوں ورنہ میراآخری ٹھکانہ سدرۃُ المنتہی ہے۔(تاریخ الخمیس، 1/311)

حضرت جبریل کی_انتہا

حضرت جبریل صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود ہی فرمایا تھاکہ میرا آخری ٹھکانا سدرۃُ المنتہی ہے، لیکن شبِ معراج نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے انہیں سدرۃُ المنتہی سے آگے جانے کی اجازت مل گئی، حضرت جبریل کے رکنے کے بعد اب نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اکیلے چلے، آپ اندھیرے والے حجابات سے گزرتے گئے حتّٰی کہ سترّ ہزار(70000) ایسے موٹے حجابات سے بھی تجاوز کر گئے جن میں سے ہر ایک کی طوالت پانچ سو(500) سال کے برابر تھی، اور ہر حجاب کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ تھا، تو ایک مقام پر براق رک گیا، وہاں آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رفرف نامی ایک سبز خیمہ ملاحظہ فرمایا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ تھی، آپ اس خیمے پر چڑھے اور اس کے ذریعے عرش تک پہنچے۔ (تاریخ الخمیس، 1/311) اس کے بعد آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مزید قربِ خاص کی طرف بڑھے، آپ سے فرمایا گیا، میرے قریب ہوجائیے،میرے قریب ہوجایئے حتی کہ ہزار مرتبہ فرمایا گیا، آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہر بار پکارے جانے پر ترقی کرتے گئے حتّٰی کہ دنا کےمقام پر پہنچے، پھر مزید ترقی کرتے گئے تو فتدلی تک پہنچے۔ پھر مزید ترقی کرتے گئے حتی کہ اپنی منزل قاب قوسین او ادنی تک پہنچے جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰن ِکریم میں ارشاد فرمایا۔ پھر آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے رب کے قریب ہوئے، یہ قرب مقام و مرتبے کے اعتبار سے تھا نہ کہ مکان کے اعتبار سے، کیونکہ اللہ پاک مکان سے پاک ہے۔(اب آپ وہاں پہنچے جہاں، نہ زماں تھا نہ مکاں، نہ اوپر تھا نہ نیچے، نہ شمال تھا نہ جنوب، نہ مشرق تھا اور نہ ہی مغرب، یہ سب نہ تھے، بس خدا کی ذات تھی اور اس کے حبیب تھے،جو قرآن و حدیث میں آیاہے اس پر ہمارا ایمان، مزید ہمیں سوچنے اور عقل دوڑانے کی ضرورت نہیں) اس کے بعد آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اللہ کریم کو سجدہ کیا، کیونکہ اس مرتبے کو آپ نے اللّہ تعالی کی فرمانبرداری کےذریعے حاصل کیا، سجدے میں خاص قرب ملتاہے جیساکہ نبیِّ کریم صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اپنے رب کے زیادہ قریب وہ بندہ ہوتاہے جو سجدہ کرتا ہے۔(تاریخ الخمیس، 1/311)

نمازوں کی فرضیت

اللّہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے محبوب صَلَّ اللّہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ہر دِن رات 50 نمازوں کا تحفہ (بھی) عَطا فرمایا۔ واپس آتے ہوئے جب آپ صَلَّ اللّہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچے تو وہ عرض گُزَار ہوئے کہ آپ صَلَّ اللّہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ربّ نے آپ صَلَّ اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اُمَّت پر کیا فرض فرمایا؟ ارشاد فرمایا : 50نمازیں۔ اس پر حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کیا : ”اِرْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیْفَ فَاِنَّ اُمَّتَکَ لَا یُطِیْقُوْنَ ذٰلِکَ فَاِنِّیْ قَدْ بَلَوْتُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ وَخَبَرْتُہُمْ یعنی واپس اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس جائیےاور اُس سے کمی کا سوال کیجئے کیونکہ آپ صَلَّ اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اُمَّت سے یہ نہیں ہو سکے گا، میں نے بنی اسرائیل کو آزما کر دیکھ لیا ہے اور ان کا تجربہ کر لیا ہے۔“ چنانچہ آپ صَلَّ اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم واپس ربّ تَعَالٰی کی بارگاہ میں حاضِر ہوئے اور عرض کیا : ”یَارَبِّ خَفِّفْ عَلٰی اُمَّتِیْ یعنی اے میرے ربّ! میری اُمَّت پر تخفیف فرما۔“ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے پانچ نمازیں کم کر دیں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم واپس حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے پانچ نمازیں کم کر دی ہیں۔ حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پھر وہی عرض کیا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اُمَّت سے یہ نہ ہو سکے گا ، واپس اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس جائیے اور اُس سے کمی کا سوال کیجئے۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، ربّ تَعَالٰی کی بارگاہ میں حاضِر ہوتے تو وہ پانچ نمازیں کم فرما دیتا پھر حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس تشریف لاتے تو وہ اور کمی کا عرض کر کے واپس ربّ تَعَالٰی کی بارگاہ میں بھیج دیتے، حتی کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرمایا : اے محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)! دِن اور رات میں یہ پانچ نمازیں ہیں اور ہر نماز کا ثواب دس گُنا ہے، اِس طرح یہ 50نمازیں ہوئیں۔ جو نیکی کا ارادہ کرے پھر اسے نہ کرے تو اُس کے لئے ایک نیکی لکھ دی جائے گی اور اگر کر لے تو دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور جو بُرائی کا ارادہ کرے پھر اس سے باز رہے تو اُس کے نامۂ اَعْمال میں کوئی بُرائی نہیں لکھی جائے گی اور اگر بُرا کام کر لیا تو ایک بُرائی لکھی جائے گی۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس تشریف لائےاور انہیں اس بارے میں بتایا تو حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پھر وہی عرض کیا کہ واپس اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس جائیے اور اُ س سے کمی کا سوال کیجئے۔ اس پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : میں اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس اتنی بار گیا ہوں کہ اب مجھے حَیَا آتی ہے۔ (صحيح مسلم، كتاب الايمان، باب الاسراء الخ، ص۷۹ ، الحديث : ۱۶۲)

جنت ودوزخ کی سیر

آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رب تعالیٰ کے دیدار کےبعد اپنی امت کےلئے نمازوں کا تحفہ لیکر واپسی کا سفر شروع فرمایا، جب آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم واپس لوٹے تو حضرت جبریل آپ کے ساتھ رہے۔ چنانچہ حضرت جبریل نے عرض کیا: یارسول اللّہ!بے شک آپ اللّہ کی مخلوق میں سب سے بہتر اور اس کے چنے ہوئے ہیں، اللہ پاک نے آپ کو اس رات وہ بلند مقام و مرتبہ عطا فرمایا جہاں تک مخلوق میں سے نہ کوئی مقرب فرشتہ پہنچا اور نہ ہی کوئی نبی، بس یہ عزت آپ ہی کے لئے ہے۔ اس کے بعد حضرت جبریل نے آپ کو جنت و دوز خ کی سیر کرائی، ان کے مناز ل آپ کو دکھائے۔ آپ نے جنت میں جن چیزوں کو ملاحظہ فرمایا ان میں حوریں، محلات، جنتی غلام/خادم، چھوٹے بچے، درخت، پھل، کلیاں، نہریں، باغیچے، پھول، باغات، حوض، کمرے اور گیلریاں وغیرہ۔ اور جہنم میں جوملاحظہ فرمایا وہ زنجیریں، ہتھکڑیاں یا طوق، بیڑیاں، سانپ، بچھو، گدھے کے رینگنے کی طرح کی آوازیں، کھولتا پانی، جلتے دھوئیں وغیرہ۔ (تاریخ الخمیس، 1/314، 315)

زمین پرتشریف آوری

آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےواپسی میں جنت اور دوزخ کو ملاحظہ فرمایا، اس کے بعد آسمانوں سے ہوتے ہوئے بیتُ المقدس پھر مکہ شریف حضرت ام ہانی کے گھر تشریف لائے جہاں سے سفر کی ابتداہوئی تھی، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیت المقدس تک آئے، حضرت جبریل آپ کے ساتھ تھے، پھر آپ وہاں سے مکہ شریف حضرت ام ہانی کے گھر اپنے بستر پر تشریف لائے، جبکہ رات کا کچھ حصّہ باقی تھا۔ (تاریخ الخمیس، 1/315)

معراج کااعلان

آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رات گزارنے کےبعد یہ واقعہ لوگوں میں بیان کرنے کا ارادہ فرمایا، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلَّ اللّہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فر مایا:مجھے اس رات بیت المقدس تک سیر کروائی گئی، پھر وہاں سے آسمانوں کی۔ ابو جہل نے کہا: آپ نے اس ایک رات میں بیت المقدس کا سفر کیا اور مکہ میں ہمارے ساتھ ہی صبح کررہے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں۔ابو جہل اس خوف سے انکار نہ کرسکا کہ آپ یہ بات اپنی قوم میں بیان کریں گے۔تو حضور ِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا کہ کیا یہ بات اپنی قوم کو بتائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔یہ سن کر ابو جہل نے آواز لگائی کہ اے بنی کعب! یہاں آؤ۔ تو سب لوگ جمع ہوئے، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ابو جہل کےپاس بیٹھ گئے۔ ابوجہل نے کہا: جو بات بیان کرنی ہے اپنی قوم سے کریں، آپ صلَّ اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مجھے اس رات سیر کرائی گئی تھی۔ لوگوں نے پوچھا: کہاں سے کہا ں تک؟فرمایا بیت المقدس تک۔پھر لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے یہاں آکر صبح کی ہے؟ فرمایا :ہاں۔ لوگوں نے کہا یہ تو عجیب بات ہے۔ ان میں بعض نے تالیاں بجائیں، بعض ہنسنے لگے، اور بعض نے اپنے سروں پر ہاتھ رکھا۔اس معاملے کو محال اور تعجب کی نگاہ سے دیکھا گیا، اس کی وجہ سے بعض ایمان والے مرتد ہوگئے جبکہ بعض نے تصدیق کی۔(تاریخ الخمیس، 1/315)

واقعۂ معراج اورصدیق_اکبر

امُّ المؤمین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہےکہ نبی کریم صلَّ اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مسجد اقصیٰ تک کی سیر کرائی گئی، آپ نے صبح لوگوں کو خبر دی، مؤمنوں میں سے کچھ نے تصدیق کی اورکچھ نے نہیں کی، کچھ مشرکین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ کے پاس آ کر کہنے لگے: کیا آپ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں جو آپ کے دوست نے کہی ہے کہ اُنہوں نے راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ کی سیر کی؟ حضرت ابو بکر نے فرمایا: اَوَ قَالَ ذٰلِکَ؟ کیا واقعی میرے آقا نے یہ فرمایا ہے؟ کہا: جی ہاں۔ ارشاد فرمایا: لَئِنْ کَانَ قَالَ ذٰلِکَ لَقَدْ صَدَقَ یعنی اگر آپ نے یہ فرمایا ہے تو یقیناً سچ فرمایا ہے۔ لوگوں نے کہا: کیا آپ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ رات کو بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس آ گئے؟ فرمایا: ”نَعَمْ! اِنِّیْ لَاُصَدِّقُہٗ فِیْمَا ہُوَ اَبْعَدُ مِنْ ذٰلِکَ اُصَدِّقُہٗ بِخَبْرِ السَّمَاءِ فِیْ غُدْوَۃٍ اَوْ رَوْحَۃٍ جی ہاں! میں تو ان کی آسمانی خبروں کی بھی صبح وشام تصدیق کرتا ہوں اور یقیناً وہ تو اِس بات سے بھی زِیادہ حیران کُن اور تَعَجُّب خیز ہے۔ واقعۂ معراج کی فوراً تصدیق کرنے کی وجہ سے آپ کو صدّیق کہا جاتاہے۔(المستدرك للحاكم، 4/ 25، حديث: 4515

فلسفہ معراجالنبیﷺ

سورۂ والنجم کی روشنی میں واقعہ معراج
منبعِ علم و دانش قرآن مجید فرقان حمید میں واقعۂ معراج تین الگ الگ مقامات پر بیان ہوا ہے۔ سورۃ النجم میں سفر معراج کا ذکر جمیل قدرے تفصیل سے ہوا ہے۔ فرمایا :
وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىOمَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىOوَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىOإِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىOعَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىOذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىOوَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىOثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىOفَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىOفَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىO(النجم، 53 : 1 – 10)
قَسم ہے روشن ستارے (محمد صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشمِ زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترےo تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (یعنی تمہیں اپنے فیضِ صحبت سے صحابی بنانے والے رسول صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکےo اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتےo اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہےo ان کو بڑی قوّتوں و الے (رب) نے (براہِ راست) علمِ (کامل) سے نوازاo جو حسنِ مُطلَق ہے، پھر اُس (جلوۂ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایاo اور وہ (محمد صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)o پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیاo پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم میں صرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)o پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اللّہ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائیo

اللّہ ربّ العزت نے ان آیات مقدسہ کے آغاز میں قسم اٹھائی ہے اور یقیناً ربّ العالمین کا قسم اٹھانا ایک غیرمعمولی بات ہے۔ ایک غیر معمولی واقعہ کی تمہید کو اجاگر کرنا مقصود ہے۔ خالق کائنات کا کسی واقعہ کو بیان کرنے سے پہلے قسم اٹھانا اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جو واقعہ بیان کیا جا رہا ہے وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور جس ہستی معظم کے بارے میں یہ واقعہ بیان ہو رہا ہے، وہ ہستی کن عظمتوں اور رفعتوں کی حامل ہے! اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خدائے رحیم و کریم کسی وقیع معاملے کا انکشاف فرما رہے ہیں۔ اس غیر معمولی اہتمام کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بندوں پر یہ آشکار کرنا بھی مقصود ہے کہ اس معجزۂ معراج کو اپنی ناقص عقل کی کسوٹی پر نہ پرکھیں بلکہ اس خالق ارض و سماوات کی قدرت کاملہ کا مظہر جان کر دل و جان سے قبول کر لیں۔ فرمایا : قسم ہے ستارے کی جب وہ اترے۔ مذکورہ آیات کی پہلی آیت میں ’’نجم‘‘ اور ’’ھوی‘‘ کے الفاظ معنی خیز بھی ہیں اور ہمیں غور و تدبر کی دعوت بھی دے رہے ہیں۔

لفظ نَجْم کا مفہوم
عربی لغت میں نجم کا لفظ متعدد معانی میں استعمال ہوا ہے :
لفظِ نَجْم کا پہلا معنی
یہ لفظ عربی زبان و ادب میں کبھی اسم کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور کبھی اس کا استعمال بطور مصدر عمل میں لایا جاتا ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اگر لفظ نجم بطور اسم استعمال ہو تو اس کا ایک معنی یہ لیا جائے گا کہ کسی چیز کی اصل، مبداء، Root اور Range مثلا ً کسی درخت کی جڑ، جو ایک تناور درخت کی اصل ہوتی ہے۔ جس جگہ سے کوئی چشمہ پھوٹے اس جگہ کو بھی نجم کہا جاتا ہے۔ چشمہ سب کو سیراب کرتا ہے۔ سنگلاخ چٹانوں کو بھی شاداب موسموں کی نوید دیتا ہے۔

فن حدیث میں لفظ نجم استعمال ہوتا ہے۔ یہ اس حدیث کے لئے آتا ہے جو اپنا اصل نہ رکھتی ہو، یعنی بے بنیاد اور من گھڑت ہو مثلاً جب یہ کہا جائے کہ ھذا الحدیث لا نجم لہ تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔ یہ بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔

لفظ نجم کا دوسرا معنی
آیتِ مذکورہ میں نجم سے مراد حضور ختمی مرتبت صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔ ’’قسم ہے ستارے کی جب وہ اترے‘‘ معراج کی شب عظمت کا تاج کس رسول محتشم صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کے سر اقدس پر سجایا گیا، کھلے آسمانوں کی سیر کرائی گئی۔ ظاہر ہے یہ حضور صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات تھی اور خدا اپنے محبوب صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کو ستارے سے تشبیہہ دے رہا ہے۔ ستارا جو روشنی کی علامت ہے، ستارہ جو حرکت اور زندگی کا استعارہ ہے۔
حضرت امام جعفر صادق رضی اللّہ عنہ فرماتے ہیں :النجم انه محمد.(روح المعانی، 14 : 45)
(تفسير المظهری، 9 : 103)

نجم سے مراد محمد صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔

لفظ نجم کا تیسرا معنی
ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ نجم سے مراد حضور صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کا قلب اطہر ہے، وہ قلب مقدس جس پر اس عظیم سفر کی جزئیات رقم ہوئیں۔ اگر یہ معنی لیا جائے تو بھی مراد حضور صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہی ٹھہرتی ہے۔

وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی کا پہلا معنی۔ ۔ ۔ اصلِ کائنات
اکثر محدثین و مفسرین نے نجم سے مراد حضور صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو ہی لیا ہے۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تفسیر کبیر‘‘ میں، علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’روح المعانی‘‘ میں، امام خازن رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تفسیر خازن‘‘ اور نبہان بقلی رحمۃ اللّہ علیہ نے ’’عرائس البیان‘‘ میں نجم کے اسی مفہوم کو اعتماد و اعتبار کی سند عطا کی ہے۔ ان کے علاوہ دیگر متعدد ائمہ تفسیر نے بھی نجم سے مراد سیاح لامکاں حضور سرور کائنات صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہی لی ہے۔ امام راغب اصفہانی رحمۃ اللّہ علیہ نجم کی شرح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

’’خدا کی ذات بابرکات نے کنائے اور اشارے کے پیرائے میں حضور نبی اکرم صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی رخشندہ و تابندہ ذات کی قسم کھائی اور فرمایا : قسم ہے اے محبوب! کہ تو اصل ہے‘‘۔(المفردات : 483)

بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر حضور صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم اصل اور جڑ ہیں تو یہ کس چیز کی اصل یا جڑ ہیں! جب ہم قرآن سے اس سوال کا جواب پوچھتے ہیں تو قرآن کا اسلوب یہ ہے کہ وہ کسی شئے کا نام نہیں لیتا بلکہ مطلقاً کہتا ہے ’’والنجم‘‘۔ قاعدہ اور ضابطہ یہ ہے کہ اگر کہہ دیا جائے کہ بندہ فلاں چیز کی اصل اور منبع ہے تو یہ اصل اور منبع ہونا اس چیز کے ساتھ مختص ہو کر رہ جائے گا۔ اس اصل اور منبع کو دوسری چیزوں کا اصل اور منبع ہونے کا درجہ حاصل نہ ہو سکے گا اور اگر کسی چیز کا نام نہ لیا جائے تو اس سے مراد ہر ہر چیز کی اصل و منبع ہوتا ہے۔ ربّ کائنات نے اپنے محبوب صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لے کر انہیں محدود کرنا پسند نہیں فرمایا۔ اس لئے ذات سرکار صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی شئے سے مختص نہیں کیا گیا۔ جن و انس، شمس و قمر، شجر و حجر، برگ و ثمر، نباتات و جمادات، حور و غلمان، غرض کائنات ہست و بود کا وجود و ظہور سب کچھ تاجدارِ کائنات حضور رحمت عالم صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ کے توسل اور تصدق ہی سے قائم ہے۔ محبوب اگر تجھے پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو یہ سورج ہوتا اور نہ یہ چاند ستارے۔ اس آیت مقدسہ میں نجم سے حضور صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مراد لے کر حضور صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کو مقصود کائنات ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اس کائنات رنگ و بو میں صرف دو وجود ہیں :
اللّہ۔ ۔ ۔ کہ وہ خالق کائنات ہے۔
ما سوا اللّہ۔ ۔ ۔ اللّہ کے سوا باقی سب کچھ یعنی تمام مخلوقات اور اشیاء اور اجسام فلکی وغیرہ
اللّہ کی اصل اور جڑ کا تصور بھی شرک ہے۔ چونکہ اللّہ کی اصل کا ہونا تو ممکن نہیں اس لئے اصل و جڑ مخلوقات ہی ہو سکتی ہیں۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اور پھر تمام مخلوقات میں سب سے افضل و برتر حضور ختمی مرتبت صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔ گویا اللّہ کے سوا اس کائنات رنگ و بو کی ہر چیز کی اصل یا جڑ آقائے نامدار حضور سرور کون و مکاں صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ قسم ہے اے محبوب! تیری کہ میرے سوا اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے یا بعد میں ہو گا، محبوب تو ان سب کی اصل ہے۔ یہ سب کچھ تیرے قدموں کی خیرات ہی تو ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اصل کے مقابلے میں ہر شئے فرع ہوتی ہے۔ اللّہ ربّ العزت نے فرمایا : قسم ہے محبوب تیری کہ تو اصل ہے، اس کائنات رنگ و بو کا مرکز و منبع ہے۔ معلوم ہوا کہ اصل فقط محبوب ربّ کریم ہیں اور باقی ساری کائنات آپ کی فرع ہے۔ خالق کائنات نے اپنے محبوب صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی فرع کو انسانی شکل عطا کر دی، کسی کو جنات کا روپ دے دیا، کسی کو ملائکہ بنا دیا، کسی کو شجر و حجر کا درجہ دے دیا، کسی کو شمس و قمر بنا دیا، کسی کو آسمان اور کسی کو زمین کا وجود بخش دیا اور حضور صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی فرع کو تحت الثریٰ و کسی کو عرش معلی بنا دیا۔
سب کچھ تمہارے واسطے پیدا کیا گیا
سب غایتوں کی غایتِ اولیٰ تمہی تو ہو

تصویر کائنات کا مرکزی خیال
حضور صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم اس کائنات رنگ و بو کا مرکزی نقطہ ہیں۔ ابتدائے آفرینش سے وجود کائنات کا مبداء ہیں۔ تاجدار کائنات صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم ذات بابرکات لولاک لما کے مصداق تمام کائنات کی اصل ہیں، اسی لئے آقا حضور صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کو روح کائنات بھی کہتے ہیں۔ آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ گویا آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کے کرم کا سائبان کائنات کی ہر شئے پر محیط ہے۔ یہ چشمۂ فیض ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ کائنات ارض و سماوات میں موجود ہر شئے اپنے وجود کے لئے حضور صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کے دھوون کی محتاج ہے، سلطان بحر و بر کے نقش کف پا کے تصدق کی مرہون منت ہے، اس لئے کہ حضور صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی خلقت تو اس وقت ہو چکی تھی جب عالم رنگ و بو ابھی تخلیق نہیں کیا گیا تھا۔ آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے قدموں کے صدقے اس عالم ہست وبود کو خلعت وجود سے نوازا گیا۔

تصویرِ کائنات کا وہ مرکزی خیال
لوحِ جہاں پہ عظمتِ یزداں کہیں جسے

تاجدارِ کائنات صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

اول ما خلق اللّه نوری ومن نوری خلق کل شئ.
(تفسير روح البيان، 2 : 370)

سب سے پہلے اللّہ تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا فرمایا۔ پھر میرے نور سے ہر چیز کو بنایا۔

مذکورہ حدیث مقدسہ کا مطلب یہ ہے کہ حضور رحمت عالم صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں کہ میری ذات براہ راست اللہ ربّ العزت کے نور سے اکتساب فیض کر رہی ہے جبکہ یہ ساری کائنات، اس کائنات کا ذرہ ذرہ، یہ تمام اجسام فلکی، چرند پرند، ملائکہ، جنات، شجر وحجر، شمس و قمر، غرض کائنات کی ہر شئے میرے نور سے فیض یاب ہو رہی ہے۔

حضرت جابر رضی اللّہ عنہ نے آقا حضور صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت فرمایا :

يارسول اللّه! بابی انت و امی، اخبرنی عن اول شئ خلقه الله تعالی قبل الاشياء، قال : يا جابر ان الله تعالی قد خلق قبل الاشياء نور نبيک من نوره، فجعل ذلک النور يدور بالقدرة حيث شاء الله، ولم يکن فی ذلک الوقت لوح و لاقلم و لا جنة و لا نار و لا ملک و لا سماء و لا ارض و لا شمس و لا قمر و لا جن و لا انس، فلما اراد الله تعالی ان يخلق الخلق قسم ذلک النور اربعة اجزاء، فخلق من الجزء الاول القلم و من الثانی اللوح و من الثالث العرش، ثم قسم الجزء الرابع اربعة، فخلق من الاول حملة العرش ومن الثانی الکرسی والثالث باقی الملائکة، ثم قسم الرابع الاربعة اجزاء، فخلق من الاول السموت و من الثانی الارضين و من الثالث الجنة والنار. . .
(المواهب اللدنيه، 1 : 9)
(السيرة الحلبيه، 1 : 50)
(زرقاني علي المواهب، 1 : 46)

یارسول اللّہ! میرے ماں باپ آپ صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہوں مجھے بتائیں کہ اللّہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کیا چیز پیدا فرمائی؟ حضور صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے جابر! بے شک اللّہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔ پھر وہ نور مشیت ایزدی کے مطابق جہاں چاہتا سیرکرتا رہا۔ اس وقت لوح تھی نہ قلم، جنت تھی نہ دوزخ، فرشتہ تھا نہ آسمان، نہ زمین تھی، سورج تھا نہ چاند، جن تھا نہ انسان۔ جب اللّہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ مخلوقات کو پیدا کرے تو اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلے حصے سے قلم بنایا دوسرے سے لوح، تیسرے سے عرش اور چوتھے کو پھر چار حصوں میں تقسم کیا، پہلے حصہ سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے، دوسرے سے کرسی اور تیسرے سے باقی فرشتے بنائے، پھر چوتھے حصے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کر دیا، پہلے سے آسمان بنائے، دوسرے سے زمین اور تیسرے سے جنت و دوزخ۔

کثیر ائمہ کرام جن میں شاہ ولی اللّہ محدث دہلوی رحمۃ اللّہ علیہ اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّہ علیہ جیسی نابغۂ روزگار ہستیاں شامل ہیں، نے بھی اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔ اسی بنا پر سرکار دو عالم صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کو مبداء کائنات کہا جاتا ہے۔ آپ ہی وجہ تکوین عالم ہیں۔ کائنات کا سارا حسن، حسن محمدی صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ایک جھلک ہے۔ پھولوں میں خوشبو انہی کے نقش قدم کا فیضان ہے، ستاروں میں روشنی انہی کے وجود مسعود کا پرتو ہے۔ اگر حضور صل اللّہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو سورج کو خلعت نور عطا ہی نہ ہوتی بلکہ سرے سے اس کا وجود ہی نہ ہوتا۔

ھوی کا لفظ النجم کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو چونکہ ھوی میں ظہور کا معنی پایا جاتا ہے اس لئے آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہو گا :

اے محبوب! قسم ہے تیری کہ تو اصل کائنات ہے اور قسم ہے تیری کہ تیرا نور مخفی تھا۔ جب میں نے چاہا تو منصہ شہود پر ظاہر ہو گیا۔(روح المعانی، 14 :

عالمی روحانی تحریک
انجمن سرفروشان اسلام(رجسٹرڈ)پاکستان