اقتباسات

غزوہ_احد

غزوہ_احد

رحمت کونین صَلَّ اللّٰهُ عَلَيْهِ وٙآلِہِ وَسَلَّم نے فرمایا تھا

احدجبل_یحبناونحبہ

احد پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے
اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں

ہمارے ہاں غزوات کو یاد رکھنے اور ان اہم تاریخی ایام کو منانے کا معمول کچھ نہ ہونے کے برابر ہے در اصل انھیں قربانیوں کا صدقہ ہے کہ آج ہم دولتِ ایمان اور نعمتِ اسلام سے متمتع ہو رہے ہیں
ہجرت کے تیسرے سال ماہ شوال میں غزوہ احد ہوا
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی
رحمہ اللّہ تعالی علیہ لکھتے ہیں
غزوہ احد کا واقعہ جب ہوا تو ماہ شوال کی گیارہ یا سات راتیں گزر چکی تھیں بعض کہتے ہیں شوال کا نصف تھا جب یہ غزوہ ہوا تاہم یہ مہینہ اہل اسلام کی تاریخ میں اس غزوہ کا ذکر لے کر آتا ہے لہذا اسے اس نسبت یاد رکھنا چاہٸیے

وہ مقام جہاں غزوہ احد ہوا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا : ’’احد پہاڑ سے جنت کی خوشبو آتی ہے‘‘۔

مسجد کے قریب غزوہ احد میں شہید ہونے والے 70 صحابہ سمیت
حضرت حمزہ رضی اللّہ عنہم کی قبر انور ہیں۔

غزوہ احد میں مشرکین کی تعداد تین ہزار تھی اور لشکر اسلام کی تعداد ایک ہزار تھی جن میں تین سو منافقین شامل تھے۔رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بظاہر مسلمان ہوگیا تھا لیکن دل و نگاہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ مشرکین مکہ سے اس کے روابط قائم تھے یہ دوسرے منافقین مدینہ کے ساتھ سازشوں میں مصروف رہا۔ مدینہ سے نکلتے وقت یہ اسلامی لشکر میں موجود تھا لیکن طلوع فجر سے کچھ دیر پہلے اسلامی لشکر نے مارچ کیا۔ نماز فجر شوط میں ادا کی جہاں سے دشمن کا لشکر صاف نظر آ رہا تھا تو عبداللہ بن ابی نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت صدائے احتجاج بلند کی کہ جنگ کے بارے میں ہماری بات نہیں مانی گئی کہ ہم مدینہ میں محصور ہو کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے لیکن چند نوجوانوں کے کہنے پر کھلے میدان میں آنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہم اپنے آپ کو کیوں ہلاکت میں ڈالیں۔ پس عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ لشکر سے علیحدہ ہو گیا۔
ایک ہزار میں سے تین سو منافق نکل گئے باقی خالص ایماندار حضور ﷺکے عاشق رہ گئے۔ مسلمانوں کا صرف سات سو کا لشکر ہے جبکہ دوسری طرف مشرکین کا تین ہزار کا لشکر پوری تیاری کے ساتھ آیا۔ کافروں کا سپہ سالار ابوسفیان تھا۔ اس کے ساتھ عمرو بن عاص اور خالد بن ولید بھی تھے جن کو بعد ازاں اللّہ تعالیٰ نے ایمان کی دولت سے سرفراز کیا تھا۔ مشرکین مکہ اپنے بڑوں کا بدلہ لینے کے لئے بڑے زور و شور سے آئے۔ سب انتقام، انتقام کہتے ہوئے مکہ سے چل کر مدینہ پہنچ گئے۔ مدینہ شریف سے ڈھائی تین میل کے فاصلے پر اُحد پہاڑ ہے۔
احد پہاڑ کے بارے میں آقا علیہ السلام نے فرمایا : ’’احد پہاڑ سے جنت کی خوشبو آتی ہے‘‘۔
غزوہ احد پہاڑی جنگ تھی آقا علیہ السلام نے پچاس مجاہدوں کی ایک درّے پر ڈیوٹی لگادی کہ تم اس درّے پر کھڑے رہنا۔ دونوں پہاڑوں کے درمیان راستہ ہو تو اسے درّہ کہتے ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا تم نے یہاں سے ہٹنا نہیں یہاں تک کہ میں آپ کو حکم نہ دوں کہ درّہ چھوڑ دو۔ جنگ شروع ہوئی ابتداء میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عظیم فتح ہوئی۔ مشرکین مکہ کے سارے جرنیل احد سے کئی میل کے فاصلہ پر بھاگ گئے تو درے پر جو صحابہ رضی اللہ عنہم تھے انہوں نے دیکھا کہ اب تو مشرکین مکہ کو شکست ہوگئی ہے۔ وہ بھاگ گئے ہیں اب درے سے نیچے اتر جائیں تو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ درے پہ کھڑے رہنے کا حکم اس وقت تھا جب تک کافروں کے سپاہی سامنے ہوں یہ سوچ کر وہ پچاس صحابہ رضی اللہ عنہم نیچے اتر آئے اور مال غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ خالد بن ولید نوجوان سپاہی تھے اس وقت وہ کافروں کے لشکر میں شامل تھے۔ ایک ہی جنگ ہے جس میں وہ کافروں کے لشکر میں شامل تھے بعد میں جتنی جنگیں ہوئیں وہ اسلام کی خاطر لڑے۔ خالد بن ولید نے دیکھا کہ درے کا راستہ خالی ہے تو انہوں نے اپنے سپاہیوں کو کہا دوڑو موقع ہے جب وہ دوڑ کر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مال غنیمت جمع کر رہے ہیں انہوں نے درّہ خالی ہونے کی وجہ سے موقع پا کر فوراً حملہ کر دیا جس سے افراتفری پھیل گئی۔ میدان احد میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ آقا علیہ السلام کے دندان مبارک اور ہونٹ مقدس زخمی ہوگئے۔ جانثار صحابہ کرام آقا علیہ السلام کے پسینے کا قطرہ بھی زمین پر نہ گرنے دیتے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زخمی ہو کر زمین پر رونق افروز ہوئے تو ایک ہیجان پیدا ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظر نہیں آ رہے۔ ادھر شیطان نے آواز دی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہوگئے۔ اس آواز نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاؤں اکھیڑ دیئے۔ پاؤں ڈگمگا گئے تو کوئی ادھر دوڑا، کوئی ادھر دوڑا۔

قرآن کی آیت ہے: إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ جب شیطان نے انہیں بہکا دیا۔
آخر میں مشرکین میدان چھوڑ کر بھاگ گئے لیکن یہ وہ جنگ تھی جس میں مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا۔

القرآن
جب تم (افراتفری کی حالت میں) بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جماعت میں (کھڑے) جو تمہارے پیچھے (ثابت قدم) رہی تھی تمہیں پکار رہے تھے پھر اس نے تمہیں غم پر غم دیا (یہ نصیحت و تربیت تھی) تاکہ تم اس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس مصیبت پر جو تم پر آن پڑی رنج نہ کرو اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔
سورۃ آل عمران آیت 153

غزوہ احد میں رسول خداﷺ کی حفاظت کرنے والے دو مجاہد ایسے بھی تھے جو دشمن کا مقابلہ کررہے تھے ،یہ انسان نہیں تھے بلکہ ۔۔۔شان نبوتﷺ کا ایمان افروز معجزہ

غزوہ احد میں رسول خداﷺ کی حفاظت کرنے والے دو مجاہد ایسے بھی تھے جو دشمن کا مقابلہ کررہے تھے ،یہ انسان نہیں تھے بلکہ ۔۔۔شان نبوتﷺ کا ایمان افروز معجزہ

غزوات کے موقع پر بھی اور مشکل کی ہر گھڑی میں مقرب فرشتے اللہ کے نبیﷺ کی بارگاہ میں خدمت کے لئے موجود رہا کرتے تھے ۔بعض صحابہؓ اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ لیتے اور استفسار فرماتے ۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ روایت کرتے ہیں کہ جنگ احد کے روز میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس دو ایسے حضرات کو دیکھا جو آپ ﷺ کی جانب لڑرہے تھے۔ انہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے اور بڑی بہادری سے برسرپیکار تھے۔ میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا نہ بعد میں، یعنی وہ جبرائیل ومیکائیل علھما السلام تھے۔‘‘

دوسری حدیث جسے امام بخاریؒ ، ابن ماجہؒ اور امام احمدؒ نے بیان کیا ہے وہ یوں ہے کہ ’’حضرت رفاعہ بن ابی رافعؓ جو کہ اہل بدر صحابہ میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیلؑ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر دریافت کیا کہ یارسول اللہ!ﷺ آپﷺ غزوہ بدر میں شرکت کرنے والے (صحابہ) کو کیسا سمجھتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا’’ میں انہیں مسلمانوں میں سب سے افضل شمار کرتا ہوں ‘‘یا ایسا ہی کوئی دوسرا کلمہ استعمال فرمایا۔ اس موقع پر حضرت جبرائیلؑ نے عرض کیا’’ غزوہ بدر میں شمولیت کرنے والے فرشتے بھی دوسرے فرشتوں میں اسی طرح ہیں۔‘‘

عالمی روحانی تحریک
انجمن سرفروشان اسلام (رجسٹرڈ) پاکستان