روزے کا حقیقی مقصد ازقلم حضرت سیدنا ریاض احمد گوہر شاہی مدظلہ العالی
🌹 روزے کا حقیقی مقصد 🌹
ازقلم حضرت سیدنا ریاض احمد گوہر شاہی مدظلہ العالی
روزہ اسلام میں تیسرا فرض رُکن ہے۔پہلا رُکن کلمہ پڑھنے سے اِنسان مسلمان ہوجاتاہے لیکن باربار کی تکرار اور الفاظ کے ٹکرائو سے جب کلمے کانور دِل تک پہنچ جاتاہے تو اس وقت انسان مومن کے مقام پر پہنچ جاتاہے۔حضرت سخی سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
زبانی کلمہ ہرکوئی پڑھدا دِل دا پڑھداکوئی ھُو
جس طرح دِل کا کلمہ پڑھنے والے کم ہیں اِسی طرح دِل کی نماز پڑھنے والے بھی تھوڑے ہی ہیں۔حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں کہ عام لوگوں کی نماز صورت ہے جبکہ خاصانِ خُدا کی نماز حقیقت ہے۔حدیث شریف میں بھی آیا ہے : لاصلوٰۃ الابحضور القلب۔ یعنی دِل کی حاضری کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور ایسے ہی لوگوں کو اللہ نے قرآن مجید میں حکم دِیا۔ خبردار ! دِلوں کااطمینان اللہ ہی کے ذِکر میں ہےکیونکہ یہ لوگr ذِکر الٰہی چھوڑ چکے ہیں۔کلمہ شریف اور نماز،رکوع وسجود،تسبیح و تہلیل سب عبادات زبانی اور وقتی ہیں لیکن روزہ تو ایک بھوک کانام ہے کہ سارے دِن بھوکے پیاسے بیٹھے رہو۔آخر اس بھوک کا بھی کوئی مقصد ہوگا جسے بہت کم لوگ جانتے ہیں جس طرح فرض کے طورپر نمازیں پڑھ لیں اسی طرح فرضی روزے رکھ لئے لیکن یہ خبر نہیں کہ نمازیں دِل کو صاف کرنے کیلئے اور روزے نفس کو پاک کرنے کے لئے ہتھیار ہیں اگر ان سے نفس اور قلب کی طہارت نہ ہوئی تو شاید پھر سب کچھ بیکار ہوجائے۔لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عبادت سے ملتاہے لیکن یہی ایک نقطہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عبادت سے نہیں ملتا بلکہ دِل سے ملتاہے۔عبادت دِل کو صاف کرنے کا ذریعہ ہے جس عبادت سے دِل صاف نہیں ہوسکتا تو پھر وہ عبادت صورت عبادت ہے جس کی قبولیت کابھی کوئی اعتبار نہیں۔جس طر ح نماز بے حیائی سے روکتی ہے اگر نمازیں پڑھ کر بھی بے حیائی موجود رہتی ہے تو پھر وہ نماز ہی نہیں جس کے لئے اشارہ ہے۔بہشت میں آدم علیہ السلام ہرقسم کامیوہ کھاسکتے تھے لیکن گندم کی مخالفت تھی کیونکہ اس میں ناری مادہ تھا اور وہی گندم جب ہاروت ماروت نے کھائی تو اِن میں بھی نفسانی خواہشات اُبھرآئیں۔ہماری زمین کرہ ناسوت اور جنات کا عالم تھا،اسکی مٹی ،ہوا اور پانی سب میں جنات کے مزاج کے مطابق نار تھی جب آدم علیہ السلام اس دُنیا میں آئے تو بہشت کے میوے اوراناج آپ کو ملنا شروع ہوگئے اِن کے بیج زمین میں ڈالے گئے جب فصل تیارہوئی اِس میں زمین کی نار بھی مل گئی اور بار بار زمین میں کاشت سے آج ہر پھل اور اناج نار ہی نار ہے۔علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ : ’’یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے‘‘۔ یعنی اِنسانی روح نہ نوری ہے نہ ناری ہے اس کو جیسی بھی غذا فراہم ہوتی ہے یہ ویسی ہی ہوجاتی ہے روزے کا مقصد کہ سارادِن معدے کو طعام کی نار سے خالی رکھو یعنی نار کے لئے دروازہ بند کردوتاکہ نفس کو نار کی خوراک نہ ملے پھر اِس حالت میں اللہ کا ذکر بے شمار کرو۔یہ ذکر کلمہ ہویااسمِ ذات کے پاس انفاس کا یاذکر قلب ہو اس طرح نار کی جگہ ذکر کا نور انسان کے جسم میں سرائیت ہوناشروع ہوجائے گا پس پھر نمازیں باقاعدہ پڑھو ،تراویح اداکرواور قرآن مجید کی تلاوت کرو۔اِن عبادات کانور جس میں فوائد ہیں۔نفس،قلب اور روح تک پہنچ جائے گا اور کچھ تزکیہ اور تصفیہ ہونا شروع ہوجائے گا۔اور اس تزکیہ اور تصفیہ میں کچھ کمی نظر آئے تو چاہئے کہ پھر رمضان کے آخری عشرے کو اعتکاف میں بیٹھ جائیں یعنی دُنیاوی معمولات،خواہشات اور خیالات کو چھوڑ کر مکمل یکسوئی کے ساتھ عبادت میں مشغول ہوجائو روزوں کا صحیح فائدہ مومن ہی اُٹھاسکتے ہیں جن کے قلوب ذکر اللہ سے جاری وساری ہوگئے ہوں۔عام آد می کو زبان کے ذریعے نور حاصل کرناہوتاہے لیکن اکثریت ایسی ہے جن کے حلق سے نیچے قرآن بھی نہیں اُترتا۔عام مسلمانوں کے لئے سال میں ایک دفعہ قلب ونفس کی طہارت ضروری ہے اور یہ طہارت رمضان کے روزوں کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے پھر جب سال کے دیگر ماہ میں نفس قوی اور قلب مرجھانے کوہوتے ہیں تو پھر ماہ رمضان شریف آجاتاہے۔اس مبارک ماہ میں روزہ داروں کاکافی بوجھ ہلکاہوجاتاہے۔یادرکھیں اِن فرض روزوں سے انسان کا نفس صرف سدھر سکتاہےپاک نہیں ہوتا۔کچھ لوگوں نے اپنے نفسوں کو بھی پاک کیا اور اس طرح وہ ساری عمر کے لئے فلاح پاگئے لیکن اس کے لئے وہ جنگلوں میں رہے،کئی سال نفلی روزوں میں گزارے اور ہروقت ذکر وفکر اور نوافل میں مصروف رہے تب جاکر نفس کی پاکی حاصل ہوئی اور جب اِن کا نفس پاک اورقلب صاف ہوگئے تو اللہ تعالیٰ سے اِن کی دوستی ہوگئی۔حدیث شریف کے مطابق کہ ’’ بندہ نوافل کے ذریعے مجھ سے اتنا قریب ہوجاتاہے کہ میں اس کی زبان بن جاتاہوں اس کے ہاتھ بن جاتاہوں۔‘‘ بہت سے لوگ روزے رکھتے ہیں لیکن نفلی عبادت سے محروم رہتے ہیں حتیٰ کہ فرض نمازیں بھی نہیں پڑھتے جس طرح صورت نماز تباہی بن جاتی ہے اسی طرح ان کا روزہ بھی اِن کے لئے تباہی کا باعث بن جاتاہے۔کیونکہ اُنہوں نے طعام کی نار کو جسم میں داخل نہ ہونے دِیااور اِ س کی جگہ نور کوبھی نہیں پہنچایا۔اس طرح ناری قوتیں یکجا ہوکر اس خالی جگہ داخل ہوجاتی ہیںاوروہ شخص پہلے سے زیادہ نفسانی ہوجاتاہے۔سادھولوگ بھی تین تین دِن کاروزہ رکھتے ہیں طعام کی نار جسم میں داخل نہیں ہوتے دیتے اور اسکی جگہ آگ سینکتے رہتے ہیں اور آگ کی نار جواِن کے نفس کو سب سے زیادہ قوی بنادیتی ہے۔اس طرح اِن کی رحمانی صلاحیتیں ختم ہوتی جاتی ہیں اور ناری صلاحتییں ترقی کرتی جاتی ہیں اور اِن کا استدراج یعنی ہوا میں اُڑنا ،پانی پر چلنا اِن ہی طاقتوں کے ذریعے ہوتاہے اِن کے نفوس ناری طاقت کے ذریعے جسم سے نکلتے ہیں اور یہی ہیں جو اپنے نفسوںکو دوسرے جسم میں منتقل کرلیتے ہیں ان کے مرنے کے بعد ان کے نفس شیطان کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔انگریز اور سادھو اِن نفسوں کے عمل تک پہنچ چکے ہیں ہندوئوں کاعقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد مردے کی روح گھر میں واپس آجاتی ہے یاکسی دوسرے جسم میں جنم لیتی ہے۔درحقیقت وہ یہی نفس ہوتے ہیں جنہیں ہندو روح سمجھتے ہیں جب کہ وہ انسانی روحیں علین او رسجین میں فرشتوں کی نگرانی میں بھیج دی جاتی ہیں ۔جب اِن نفسوںکونوری غذاسے پروان چڑھایا جاتاہے تو یہ رحمانی بن جاتی ہیں اس وقت ناری صلاحیتیں ختم ہوجاتی ہیں اور رحمانی صلاحتییں اُبھر آتی ہیں۔اس وقت اس نفس کے علاوہ اور رحمانی مخلوقات بھی جسم سے نکل سکتی ہیں جیسا کہ واقعہ ہے کہ ایک دفعہ کسی نے مجدد الف ثانی ؒ سے پوچھا کہ میں نے آپ کو فلاں دِن خانہ کعبہ میں دیکھا۔آپ نے فرمایا میں تو نہیں گیا۔دوسرے نے کہا میں نے اُسی دِن حضور پاکؐ کے روضے پر دیکھا۔آپ نے فرمایا میں تو نہیں گیا۔تیسرے نے کہا کہ میں نے اسی دِن غوث پاکؓ کے روضے پر دیکھا ۔آپ نے فرمایا میں نہیں گیا۔لوگوں نے پوچھا یہ کیاماجرا ہے؟ آپ نے فرمایا میرا اندر تھا۔اِن رحمانی لوگوں کی روحیں بھی اپنے مقام علیین میں چلی جاتی ہیں اور اِن کے یہی نفوس قدسیہ اِن کے درباروں سے لوگوں کو فیض پہنچاتے رہتے ہیں اور قیامت تک فیض پہنچاتے رہیں گے اوراِن کاثواب اِن کی روحوں کو ملتارہے گا۔بہت سے لوگوں نے اِن دربارو ں سے ناسوتی فوائد کے علاوہ ولایت بھی حاصل کرلی جیساکہ فقیر نور محمد صاحب کلاچی والوں کو سلطان باھُو ؒ کے دربار سے ولایت کا فیض ہوا۔داتا صاحب علی ہجویری ؒ کو بایزید بسطامی ؒ کے دربار سےفیض ہوا۔خواجہ صاحبؒ کو داتا صاحب کے دربار سے فیض حاصل کرنے کے بعد آپؒ کے یہ اشعار آج بھی داتا صاحبؒ کے روضے پر مرقوم ہیں۔ ’’ گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا ناقصاں پیر کامل کاملاں راراہنما۔‘‘ ثابت ہوا کہ روزہ کامقصد انسان کے اندر کی مخلوق کو جگانا اور اس کو نوری غذاپہنچاناہے اور اگر ان کو غذا نہ پہنچاسکے تو روزوں سے مستفیض نہیں ہواجاسکتا۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ کم سونا کونسی عبادت ہے۔جوں ہی اندھیراہوتاہے اس وقت سے لیکر آدھی شب تک اس دُنیا میں جنات کی محفلیں لگتی ہیں اور آدھی شب کے بعد فرشتوں اور پاکیزہ ارواح کا نزول ہوتاہےتب وہ جنات کی محفلیں درہم برہم ہوجاتی ہیں۔آدمی جب سوتاہے تو اس کا نفس جسم سے نکل کر اِن محفلوں کو ڈھونڈتاہے اور اپنی غذا حاصل کرلیتاہے اگر آدھی رات تک انسان جاگتارہے تو پھر سونے کے بعد نفس کو شیطانی محفلیں نہیں ملتیں جس سے وہ خوراک حاصل کرے۔یہی وجہ ہے کہ آدھی شب سے پہلے خوابوں کا تعلق شیطان سے ہی ہوتاہے رمضان شریف میں تراویح کے اہتمام کا مقصد بھی یہی ہے کہ آدھی شب تک انسان جاگتارہے تاکہ نفس جسم میں قید رہے ۔لوگ کہتے ہیں کہ رمضان میں شیطان کو بند کردیاجاتاہے اس کا اصل مقصد یہ ہے تمہار ےاندر کے نفس کوبند کیاجاتاہے تاکہ باہر سے اس کی ناری خوراک اندر داخل نہ ہوسکے۔اسکے لئے ہر روزہ دار کے لئے ضروری ہے کہ وہ ماہ رمضان میں کم کھائے اور رات کم سوئے اور باتیں بھی کم کرے،ہروقت کی عبادت کا راز سیکھے یعنی پاس انفاس یاذکر قلب کرے جسطرح افسر کا ٹی اے ڈی اے،عام ملازم سے زیادہ ہوتاہے اسی طرح مسلمان سے زیادہ فائدہ مومن کو روزے سے حاصل ہوتاہے اور ولی کومومن سے بڑھ کر ثواب ملتاہے۔رمضان کا مہینہ برکتوں والا مبارک مہینہ ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور انوار وتجلیات کی بارش اس ماہ دُنیا پر برسنا شروع ہوجاتی ہے ۔رحمت گناہگاروں کی بخشش کے لئے ہے انوار سے مومنین کے قلوب جگمگا اُٹھتے ہیں اور تجلیات سے ولیوں کے مراتب بلند ہوتے ہیں اس ماہ مبار ک میں ایک طاق رات سب کے لئے آتی ہے جس میں روحیں،فرشتے اور حضور پاکؐ کی روح مبارک مسلمانوں کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔یہ روحیں اور فرشتے زمین پر اُترکر سنتے اور دیکھتے ہیں کہ اس رات جہاں بھی کوئی عبادت میں مصروف ہواس کے لئے دُعاکریں۔لیکن جس طرح منافق دِل قرآن سے فیض حاصل نہیں کرسکتے اسی طرح سے گستاخان رسولؐ بھی رحمت اوردعائوں سے مستفیض نہیں ہوسکتے۔